ملک میں پارلیمانی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی گروپوں اور جماعتوں کے گٹھ بندھن شروع ہوگئے ہیں۔ برسرِ اقتدار اور اپوزیشن کی قیادت والی پارٹیوں نے نئے نئے حلیفوں کی تلاش شروع کردی ہے۔ این ڈی اے اور یو پی اے اندر اورباہر ہر دو محاذ پر اپنے اپنے انداز میں دلتوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو ہر رنگ اختیار کرکے لبھانے، بہلانے اور بالآخر ’دھمکانے‘ کی کوشش کریں گے۔ این ڈی اے کے مجوزہ وزیر اعظم نے ’رام مندر کے بغیر جئے شری رام کا نعرہ ادھورا‘ کہہ کرملک کو فرقہ پرستی کی حرارت میں مبتلا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
ادھر کانگریس کی اعلیٰ کمان میں شامل کچھ ’جہاں دیدہ اور تجربہ کار‘ لیڈروں نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حق میں ’پھلجھڑیاں ‘ چھوڑنی شروع کردی ہیں۔ شری کرشنا کمیشن، سچر کمیٹی اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی دبی دبی آوازیں سیاسی گلیاروں میں سننے کو مل رہی ہیں۔ دوسری طرف ’مسلم قائدین‘ نے بھی حسبِ سابق اس ’قیمتی وقت‘ کو کیش کرانے کی سطحی اور غیر معیاری کوششیں شروع کردی ہیں۔ کہیں مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے دلتوں، پسماندہ طبقات اور درج فہرست ذاتوں کے لیے رزرویشن کے نام پر کانفرنسیں کرکے یو پی اے سے وابستہ کمزور لیڈران سے مسلمانوں کے لیے رزرویشن دلانے کا وعدہ لیا جارہا ہے تو کہیں ملت فروش قائدینِ ملت اس کے سودے میں مصروف ہیں۔ افراد ہوں یا جماعتیں، سیاسی رہنمایانِ ملت ہوں یا دینی جماعتوں کے سربراہان اپنی ذات، اپنی جماعت اور اپنے گروپ کو بھرپور فائدہ پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں یا الیکشن کے انتظار میں خاموش ہیں۔ ادھر اترپردیش کے سابق بھاجپائی وزیر اعلیٰ اور بابری مسجد کی مسماری کے ’مجرم‘ کلیان سنگھ کی سماج وادی پارٹی میں شمولیت نے ریاست کے مسلمانوں میں ایک بے چینی پیدا کردی ہے اور ایک متبادل ان کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دے رہاہے۔
دہلی میں انتخابی دنگل کچھ اور ہی گرماہٹ کے ساتھ تیاریوں میں مصروف ہے۔ کچھ ’صاحبِ خیر‘ حضرات نے اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کا اعلان کرکے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی اور مسلم نوجوانوں کی اندھا دھند گرفتاری کو الیکشن میں کیش کرانے کے لیے بھی کچھ لوگ اتاؤلے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے سنجیدہ جمہوری کوششوں کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ بھی انتخابات میں کود پڑیں اور ایک پارلیمانی سیٹ انہیں بھی مل جائے۔ یہ پوری صورتِ حال صرف مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور حالات کو مزید ابتر بنانے والی بات ہے۔ جبکہ حالات اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری اور ان کے ووٹ کو باوزن،مؤثر اور فیصلہ کن بنانے کی جدوجہد کی جاتی مگر افسوس کہ اس جہت میں کوشش کا زبردست فقدان ہے۔ رزرویشن، سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری اور دہشت گردی کے موضوع پر صفائی دینے جیسی کوششوں سے بہت اوپر اٹھ کر یہ سوچنے کا وقت قریب تر ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کامستقبل کیا ہوگا۔ کیا وہ محض انتخابی لبھاؤنے نعروں سے بہلائے جاتے رہیں گے یا انہیں کچھ استحکام اور کارآمد چیزیں میسر آئیں گی؟ کیا وہ کچھ سیاسی گروپوں کا، جو فسطائی طاقتوں کی مخالفت کا نعرہ لگاتے ہیں، دم چھلا بنے رہیں گے یا تمام سیاسی پارٹیوں سے اپنے مطالبات پر مذاکرات کرکے ملت کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالنے کی جدوجہد کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری آج کی دنیائے سیاست میں نہ کوئی دشمن ہے اور نہ دوست۔ آج کا حلیف کل کا مخالف ہوسکتا ہے اور کل کا مخالف آج حلیفوں کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ کلیان سنگھ کی سماج وادی میں شمولیت، لیفٹ پارٹیوں کی کانگریس سے دوری، سماجوادی اور کانگریس کے درمیان الفاظ کی جنگ، چندرا بابو نائیڈو کی پچھلے انتخابات میں این ڈی اے میں شمولیت جیسے درجنوں واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب متعین اہداف کے حصول کی خاطر ہوتا ہے۔ اگر معاملہ طے ہوجائے تو حلیف، بہ صورتِ دیگر مخالف۔ ہاں اپنے متعین اہداف پر پہلے مذاکرات (بارگیننگ) ہوتے ہیں۔ اگر ان مذاکرات میں اتفاق ہوگیا تو ٹھیک ورنہ دوسرے فریق سے انہی مطالبات پر گفت و شنید ہوتی ہے۔ گویا حمایت ومخالفت کا پیمانہ ان کے مطالبات ہیں نہ کہ لبھاؤنے اور خوبصورت نعرے۔
کیا مسلم قائدین اور جماعتیں دنیائے سیاست کے اس واضح راز سے ہنوز ناواقف ہیں؟ اور اگر وہ واقف ہیں تو اس بات پر غوروفکر کیوں نہیں ہوتا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر ایک چارٹر آف ڈیمانڈ (مطالبات کی فہرست) تیار کریں اور تمام قابلِ ذکر سیاسی پارٹیوں سے ان مطالبات کو لے کر مذاکرات کریں اور جو جتنا زیادہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرے اس سے سیاسی گٹھ جوڑ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ مسلمانانِ ہند اور ان کے لیڈران و جماعتیں اگر ذاتی، گروہی اور سطحی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچیں تو یہ ایک مضبوط قوت بننے کی سمت میں ایک مثبت قدم ہوگا۔
اس ملک کی اسّی فیصد کے قریب آبادی ہندو ہے۔ لیکن وہ مختلف ذاتوں، طبقوں اور جغرافیائی، طبقاتی و لسانی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ جبکہ مسلمان آج بھی ایک اکائی تصور کیے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس بات کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی ہے اور ہورہی ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو بھی انہی بنیادوں پر تقسیم کردیا جائے، جن بنیادوں پر ہندو سماج تقسیم ہوگیا ہے اور اس میں تنگ نظر اور مفاد پرست لیڈران آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ کو جو آج بھی ’مسلم ووٹ‘ کی متحدہ شناخت رکھتا ہے پارہ پارہ کرکے مزید بے اثر کردیا جائے۔ ہم مسلمانانِ ہند کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مسلمان ہر جگہ ایک ناقابلِ تقسیم اکائی ہیں اور انہیں کسی بھی بنیاد پر طبقوں، ذاتوں اور گروہوں میں اس طرح تقسیم نہیں کیا جاسکتا جس طرح ہندو سماج کو اعلیٰ ذات، دلت اور درج فہرست ذاتوں میں بانٹ کر ووٹ کی سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو مذکورہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش دور رس سیاسی نتائج کی حامل کوشش ہے جو ایک طرف تو ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک بنادے گی اور دوسری طرف مسلم سماج میں مفادات کی کشمکش اور نفرت کی ایسی جنگ کو ہوا دے گی جس کا آج پورا ہندوسماج شکار ہوچکا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ آزادی سے لے کر آج تک ایک مختصر عرصے کو چھوڑ کر کانگریس ہی اس ملک کے اقتدار پر قابض اور یہاں کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے۔ اس حیثیت سے آج مسلمان جہاں بھی ہیں وہ اسی کے ’’سیاسی فیض و کرم‘‘ کی بدولت ہیں اور آج جو کچھ یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، اس کی بھی ذمہ داری برسرِ اقتدار سیاسی گروہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہاں مسلمانوں کو جو بھی کاری زخم لگے ہیں وہ اسی کی ’محبت‘ کے ثمرات ہیں۔ وہ پچھلے ساٹھ سالوں میں مسلمانوں کو ایسی دیوار کی طرف مسلسل دھکیلتی رہی ہے جس میں نہ دروازے ہیں اور نہ جائے فرار۔ ادھر مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت بھی وہی ان کے سامنے واحد سیاسی متبادل ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو سبق سیکھتے ہوئے سیاسی وعدوں اور لبھاؤنے نعروں سے ہٹ کر سوچتے ہوئے واضح مطالبات کی فہرست کے ساتھ ان مذاکرات کی ابتدا کرنی چاہیے جس کے نہ ہونے کے سبب وہ اب تک مقہوری ومجبوری کے دن گزارتے رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانانِ ہند سیاسی بالغ نظری ، حسنِ تدبیر اور اقدامی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقلیت و اکثریت کی مذہبی سیاست کرنے کے بجائے ملک کے باشعور شہری ہونے کی حیثیت سے سیاست کریں اور صرف مسلمانوں کے مفادات سے اوپر اٹھ کر اس ملک کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کے میدان میں فعال رول کے لیے خود کو آمادہ کریں۔ دہشت گردی، معاشی نا ہمواری، کرپشن، رشوت ستانی، ناانصافی، کمزور طبقات پر ظلم و زیادتی کے خلاف اور تمام باشندگانِ ملک کے بنیادی اور انسانی حقوق کی حمایت میں آواز بلند کرنے کا وقت ہے۔ یہ وہ اہم اشوز ہیں جن کو لے کر آج ملک کا ہر شہری بڑی تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہے اور ہم مسلمان بھی انہی دشواریوں کا شکار ہیں۔ یہ مسائل صرف ملک کے ۱۳ فیصد مسلمانوں کے مسائل نہیں ہیں بلکہ ملک کے ایک سو بیس کروڑ انسانوں کے ایسے مسائل ہیں جنھیں ہر کوئی جھیل رہا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس ملک میں ہمارا مستقبل بھی اسی ملک کے ۸۷ فیصد انسانوں کے مستقبل سے وابستہ ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ملک جس سمت میں لے جایا جارہا ہے اس سے ایک سو بیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے۔
چنانچہ یہ بات بھی اہم معلوم ہوتی ہے کہ مسلم قائدین اور مسلم جماعتیں اقلیت و اکثریت کے درمیان مفادات کی کشمکش سے باہر نکل کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کی بلند آواز میں بات کریں اور لوگوں پر یہ واضح کردیں کہ ہم اس ملک کے مستقبل کی فکر کرنے والے ہیں اور ہمارا مستقبل بھی اس ملک اور اس کے تمام شہریوں کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو ہماری اس تعمیری سوچ کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی خود ہم مسلمانوں کو ہے۔ تو کیا آج کے مسلمان اور مسلم قائدین و جماعتیں یہ جرأت کرسکتی ہیں کہ وہ محض مسلم اقلیت کے مفاد سے اوپر اٹھ کر اس ملک اور اس کے سوا سو کروڑ انسانوں کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔ اگر اب بھی ہماری سوچ میں وسعت اور نظر میں دور اندیشی پیدا نہ ہوئی تو اس کاسہ لیسی سے نکلنے اور حقوق کی بھیک مانگنے سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نہ مل سکے گا۔
شمشاد حسین فلاحی