مقابلے کااصل میدان

عامرہ احسان

مقابلہ بازی انسانی فطرت کا خاصّہ ہے۔ سبقت لے جانے کی کوشش اور فکر انسانی زندگی کی عین ضرورت بھی ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو ہی پر انسانی معاشروں کی ترقی کا تمام تر انحصار ہے۔ یہ حِس نکال دی جائے تو زندگی بے جان اور بے روح ہوکر رہ جائے۔ زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی خواہش تعلیم کے میدان میں گھوڑے دوڑاتی ہے تو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسداں وغیرہ وجود میں آتے ہیں۔ کاروبار، نوکریوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حاصل کرنے کی دھن… مارکیٹوں، پلازوں، فیکٹریوں، گریڈوں کی صورت سامنے آتی ہے۔ اسی مقابلہ بازی کی خو کو اللہ تعالیٰ روشنی دکھاتے ہیں … اور کہتے ہیں: فاستبقواالخیرات … ایک دوسرے سے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃ عرضہا السموات والارض۔دوڑو… لپکو… مقابلہ کرو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اللہ کی مغفرت کو پانے کے لیے اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کے برابرہے۔
صحابہ اس مقابلے کو دل دے بیٹھے۔ یوں بھی بیک وقت انسان بہت سے مقابلوں میں شریک نہیں ہوسکتا۔ کھیل کے میدان میں ایک طرف سو میٹر کی دوڑ کا مقابلہ ہے دوسری طرف ہائی جمپ ہے… عین اسی وقت تیسری طرف گولہ پھینکنے کا مقابلہ ہے تو کھلاڑی اپنے میدان کا انتخاب خود کرے گا۔ لہٰذا دنیا و آخرت کے مقابلے میں ہمیں بھی اپنا انتخاب خود کرنا ہے۔ صحابہ نے باقی رہنے والی آخرت کو فناہوجانے والی دنیا پر ترجیح دی والآخرۃ خیر و ابقی… آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
اس مقابلے میں سرپٹ دوڑے… ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دوڑے۔ سیدنا عمرؓ تا حیات محبت آمیز رشک لیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے لپکتے رہے کہ اِس دوڑ میں ان سے آگے نکل جائیں۔ غزوئہ تبوک میں ذوق وشوق سے گھر کا آدھا سامان سمیٹ کر اللہ کی راہ میں دینے کو نکلے… مگر یہ کیا…؟ دیکھا کہ ابوبکر صدیقؓ تو سارامال راہِ مولیٰ میں نذر کرچکے۔ دل رشک اور حسرت سے بھر گیا۔ میں کبھی اس میدان میں ابوبکرؓ سے آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ وہ بڑھیا جو بے یارو مددگار تھی۔ گھر سے اس کی مدد کرنے، اس کے کام سنوارنے کی نیت لے کر نکلے … پہنچے تو دیکھا کہ جھاڑو دی ہوئی۔ کھانا پکا ہوا، چولہے پر دھرا… بڑھیا آسودہ اور مطمئن… یہ سب کس نے کیا؟ پتہ چلا امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ خیر سمیٹ کر جھولیاں بھر کر بڑھیا کی خدمت سر انجام دے کر پہلے ہی جاچکے۔ یہ تھی مقابلہ بازی…!
دوسری جانب مقابلے کا وہ میدان کہ الہٰکم التکاتر حتی زرتم المقابر… ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حاصل کرنے کی دھن نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ قبروں کو جا پہنچتے ہو… آج کی دنیا بلا مبالغہ گود سے گور تک مقابلے کی دنیا ہے۔ جی ہاں کلوٹ سے یہ مقابلہ شروع ہوتا ہے، میرا بچہ فلاں برانڈ کے پمپرز پہنتا ہے، سے شروع ہوکر مدر کیئر اور طرح طرح کے برانڈ کے لباسوں، جوتوں، سویٹروں، پنگھوڑوں، کھلونوں سے ہوتا ہے۔ میک اپ لباس، جینز، جوگر،گھڑی، موبائیل سے گھر گاڑی، پلاٹ، فیکٹری تک دیوانہ وار دوڑتے دوڑتے ایک دن اچانک پاؤں قبر میں جا پڑتا ہے اور کلا سوف تعلمون… ثم کلا سوف تعلمون … بہت جلد دیکھ رہنے والی دھمکی پوری ہوجاتی ہے… انسان بھونچکا رہ جاتا ہے لیکن … یومیئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکریٰ… اُس دن انسان نصیحت پکڑے گا ہوش میں آئے گا… مگر لاحاصل … اُس دن ہوش میں آنا کیا فائدہ دے گا؟
حضرت علیؓ کے فرمان کے مطابق کہ ’’لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مریں گے تو جاگ جائیں گے۔‘‘ آج یہ مقابلے سوچنے کی مہلت نہیں دیتے۔ اہم تر مقابلے میں ہم پیچھے رہے جارہے ہیں۔ یہی حسِ مقابلہ درست ہوجائے تو سب کچھ سنور جائے۔ یہ دنیا بازی چھوڑ کر ہی آخرت سازی میں لگا جاسکتا ہے۔ دنیا میں رہا تو جائے گا۔ ولا تنس نصیبک من الدنیا… دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر… مگر اصل یہی ہے کہ ’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اُس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر… (القصص: ۷۷) وسائل، قوت، صلاحیت سبھی کچھ صحیح رخ پر لگانا اصل امتحان ہے۔ دنیا میں رہا جائے گا… ضروریاتِ زندگی پوری کی جائیں گی، لیکن مقابلہ اس میں نہ ہوگا۔ مقابلہ بہتر اور باقی رہنے والی دنیا ہی کے لیے کیا جائے گا۔
یہ درست مقابلہ بازی بھی شروع ہی سے ترتیب دیے جانے کی چیز ہے۔ لیکن یہ مصنوعی طور پر پیدا نہیں کی جاسکتی۔ والدین کے اپنے خمیر میں اگر صحیح تصورات پیوست نہ ہوں تو یہ ممکن نہیںہے۔ مقابلہ … گھر کی ہواؤں، فضاؤں، اس کے مکالموں، گفتگوؤں سے مقابلے کے لائق چیزوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ جہاں شروع سے تعریف حسن و جمال کی ہو۔ وہاں مقابلے اور مسابقت کا میدان حسن قرار پاتا ہے۔ لباس کی دیوانگی اگر ماں باپ پر طاری ہو تو وہی مقابلے اور باہم تفاخر کی شے قرار پائے گی۔ جہاں تعلیم اور ڈگریوں کا غم اصل غم ہو، وہاں زندگیاں دو، دو، چار، چار نمبروں پر دیوانہ وار مرتے مارتے مہ و سال بیت جائیں گے۔ جہاں بہ تمام حسرت یہ کہا جائے گا، فلاں گھر کے بچے تو پانچ وقت با جماعت نماز ادا کرتے ہیں، یا فلاں گھر کی بچیاں تو بہت جلد حجاب شروع کردیتی ہیں یا فلاں علم دین میں بہت آگے نکل گیا تو ان کے معیار از خود گھر کی فضاؤں کو سیٹ کردیں گے۔ بچوں نے ہدف خود مقرر کرلیے تو ان کے لیے لائقِ تقلید… لائقِ مسابقت میدان یہی قرارپائے گا۔ لہٰذا ترجیحات متعین کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ انسانی خمیر میں موجود صفات کو صحیح رخ دینا ہی والدین کا اصل چیلنج ہے۔
فالہمہا فجورہا وتقوہا… انسانی طبیعت میں نیکی اور بدی اتار دی گئی … الہام کر دی گئی، نیکی کو اجاگر کرنا … بدی کو مٹانا انسان کے ذمے امتحان رہا۔ جس طرح والدین دنیا کے امتحانوں کی تیاری بچوں کو کرواتے ہیں، اسی طرح یہ بڑا اور کڑا امتحان بھی انہی کے ذمے ہے۔ نتیجہ یہی ہوگا کہ … قد افلح من زکھا وقدخاب من دسہا… فلاح پاگیا وہ جس نے تزکیہ کیا (نیکیاں ابھاریں… صفائی ستھرائی کرکے نفس پاک کرلیا)… نامراد ہوگیا وہ جس نے نفس کو دبادیا۔ برائیاں ابھاردیں… نیکیاں مٹادیں۔ چھپادیں۔ لہٰذا فلاح پانے کے لیے دوسری صفات کی طرح مقابلے کی صفت کو بھی نیکی کے رخ پر ابھارنا ہوگا۔ جبھی فرد اور نتیجتاً معاشرے کی فلاح واصلاح ممکن ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مقابلہ بازی جب دنیا میں ہو تو نتیجہ عموماً حسد کا ہوتا ہے احساسات منفی رخ پر بہتے ہیں اور اگر آخرت ہو تو نتیجہ رشک کا ہوتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146