غلطیوں پرنشان دہی
خط لکھنے کا ارادہ تو میں کئی ماہ پہلے ہی کرچکاتھا۔ پر اب تو پکا ہی عزم لے کر خط لکھ رہا ہوں کیونکہ اب غلطیوں پر اگر نشان دہی نہ کی گئی تو آپ اور حجاب اسلامی میں لکھنے والے حضرات ان غلطیوں کو کرتے رہیں گے۔ اور میرے جیسے آدمی کے لیے خاموشی اختیار کرنا بھی اچھا نہیں ہے۔
اپریل کے شمارے میں ناصر بھائی کی کہانی جس کا عنوان تھا ’’وقت ایک سا نہیں رہتا‘‘ شائع ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اپنا نام کمانے کی خاطر اس حد تک بھی جاسکتے ہیں کہ وہ کسی کی بھی کہانی کو چوری کرکے اسلامی رسالوں میں شائع کروادیتے ہیں اور حد تو تب ہوتی ہے کہ یہ کہانیاں بہت بڑے عالموں کی ہوتی ہیں۔ ناصر بھائی نے جو کہانی شائع کروائی وہ شیخ سعدیؒ کی ہے۔ اور یہ کہانی بیدر (کرناٹک) کے الامین اسکول کی درجہ آٹھ کی اردو کی کتاب میں ہے۔ اتنے نامور عالم کی کہانی کو اپنے نام سے وابستہ کرنا برا فعل ہے۔
دوسری غلطی جون ماہ کے شمارے میں دیکھنے کو ملی۔ اس میں ’’دس فٹ پر موت‘‘ کے عنوان سے ایک کہانی شائع ہوئی ہے۔ یہ کہانی آج سے قریب سات سال پہلے کسی اور رسالے میں شائع ہوچکی ہے۔
تیسری غلطی جون ماہ کے شمارے میں ہی تھی۔ جس میں ایک نومسلم خاتون کا انٹرویو شامل کیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ بغیر تجزیہ کیے کیسے انٹرویو شائع کردیتے ہیں؟ محترمہ کانویس سالو غیر مسلم تھی۔ نکاح ہونے کے بعد بھی وہ غیر مسلم رہی تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا کسی غیر مسلم لڑکی سے بنا مسلم کیے شادی کرنا جائزہے۔ اگر جائز نہیں ہے تو آپ اس اسلامی رسالے کے ذریعے کیا پیغام لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ یہی کہ ایک عورت مسلمان ہوئی۔ یہ بات کچھ حد تک باعثِ مسرت ہوسکتی ہے لیکن اس بات کا بھی تو خیال رکھا جاتا کہ ہم کس کا انٹرویو شائع کررہے ہیں۔ اگر شائع کرنا ہی تھا تو دوسرے نومسلم کا شائع کرسکتے تھے۔ کیونکہ الحمدللہ آج پوری دنیا میں کئی سو لوگ اسلام کے سائے میں روز داخل ہورہے ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ کسی چیز کو شائع کرنے سے پہلے اس کا بخوبی تجزیہ ضرور کرلیں۔
محمد مدثر وزیر پور، (راجستھان)
]مدثر صاحب! آپ نے خط لکھنے میں تاخیر کیوں کی! ناصر صاحب کی کہانی کے بارے میں ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ’’یہ ہوتا ہے۔‘‘
’’دس فٹ پر موت‘‘ آپ نے ہوسکتا ہے کہیں پڑھی ہو۔ یہ غیر ملکی زبان سے ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ اب سے کوئی ۱۵؍سال پہلے اردو ڈائجسٹ لاہور میں شائع ہوا تھا۔ جون کے شمارے میں نو مسلم خاتون کے انٹرویو پر آپ کا اعتراض سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ ایک عربی رسالہ سے ترجمہ شدہ مضمون ہے۔ اس مضمون میں نو مسلمہ کانام کاندیس سالو، ہی درج تھا۔ شاید ان کے نام سے آپ کو یہ اعتراض ہوکہ وہ مسلمان نہیں ہے کیونکہ ان کا نام مسلمانوں جیسا نہیں ہے۔
پھر آپ نے شادی کا مسئلہ کیسے اٹھادیا۔ اول تو وہ مسلمان ہوگئی ہیں اور اگر وہ مسلمان نہ بھی ہوتیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اہلِ اسلام کے لیے اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کرنا جائز ہے۔
آپ مطمئن رہیں ہم حجاب میں شائع ہونے والی تحریروں پر اچھی طرح غوروفکر کرلیتے ہیں اور اگر پھر بھی کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے تو ہم بھی انسان ہیں اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ ایڈیٹر[
گرفت نامہ و مشورہ
مئی کے شمارے میں اداریے کا بدلا ہوا انداز پسند آیا۔ ’’سکھ فرقے کا سیاسی وزن‘‘ زبردست اشاریہ ہے۔ سکھوں اور مسلمانوں کا تقابل عبرت انگیز ہے۔
دینیات کے تحت ’’تجہیز و تکفین کے احکام‘‘ کو شامل اشاعت کرکے آپ اور فوزیہ بنت محمود نے قارئین پر بڑا احسان کیا ہے۔ آپ دونوں ہی شکریے کے مستحق ہیں۔
پیکر سعادت معز کو واقعۂ افک کے سلسلے میں غالباً تھوڑا سہو ہوگیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کو واقعۂ افک کا علم مائیکے پہنچ کر ہوا تھا نہ کہ سسرال میں۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’مدینے پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی شہر میں اس بہتان کی خبریں اڑر ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی مگر مجھے کچھ پتہ نہ تھا البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ آپؐ گھر میں آتے تو بس گھر والوں سے یہ پوچھ کر رہ جاتے، ’’کیف تیکم‘‘ (کیسی ہیں یہ؟) خود مجھ سے کوئی کلام نہ کرتے اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور۔ آخر آپؐ سے اجازت لے کر میںاپنی ماں (امِ رومانؓ) کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح کرسکیں۔‘‘
(تفہیم القرآن، جلد سوم، ص:۳۱۲)
عرض ہے کہ اس طرح کے مضامین بعجلت اور یادداشت کے بھروسے پر تحریر نہیں کیے جاتے بلکہ پہلے معلومات و واقعات کی صحت اور عدم صحت پر اطمینان کرلیا جاتا ہے۔
آپ کے لیے ایک مشورہ ہے۔ وہ یہ کہ ’’بزمِ حجاب‘‘ میں بحث و گفتگو کا آغاز کریں۔ ہر ماہ کے لیے ایک عنوان تجویز کریں اور اس پر ماہرین کی تحریریں شائع کریں۔ اس سے ایک تو تنوع پیدا ہوگا، دوسرے معیارمزید بلند ہوگا تیسرے قارئین کو بھی غوروفکر کی عادت پڑے گی۔
شاکر الاکرم، بلارشاہ، مہاراشٹر
]آپ کا مشورہ مفید ہے۔ اس پر آئندہ عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ قارئین حجابِ اسلامی کے تحریری رابطے کو بڑھانے کے لیے اس ماہ سے ہم ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں، وہ ہے غلط اور غیر اسلامی سماجی رسموں کا بیان۔ اس میں حجاب پڑھنے والی خواتین اپنی رائے تحریری شکل میں ارسال کریں گی۔ ایڈیٹر[
سوچ اپنی اپنی
ماہ مئی ۲۰۰۹ء کا ماہنامہ حجابِ اسلامی نظر سے گزرا۔ تقریباً سبھی مضامین پسند آئے۔ قارئین کے خطوط حجاب کے نام پڑھے۔’’ عورت: مشرق اور مغرب کے درمیان‘‘ کے متعلق چند مراسلہ نگاروں نے اپنی متضاد آراء پیش کی ہیں۔ مذکورہ بالا مضمون کے تعلق سے آپ نے ادارتی نوٹ تحریر کرکے اپنا حق ادا کردیا ۔ مراسلات کی اشاعت پر آپ کی خموشی بھی معلوم ہوئی۔
مجھے یاد ہے اپنی کمپنی کی ملازمت کے آغاز میں مینجمنٹ ٹریننگ کے دوران کلاس روم میں ایک بڑی تصویر آویزاں کی گئی تھی اور طلبہ سے سوال کیا گیا کہ ’’بتائیں اس تصویر میں آپ کو کیا نظرآتا ہے؟‘‘
سبھی طلبہ نے اس تصویر کو بڑی غور سے دیکھا، پھر کسی نے کہا:’’یہ ایک بڑھیا کی تصویر ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا: ’’یہ ایک خوبصورت حسینہ کی تصویر ہے۔‘‘ تیسرے نے کہا: ’’ایک کمسن لڑکی کی تصویر ہے۔‘‘ شرکاء میں سے ایک شخص کو تینوں یعنی بڑھیا، خوبصورت حسینہ اور کمسن لڑکی، نظر آئے۔ درحقیقت تصویر ہی ایسی بنائی گئی تھی جس میں تینوںعکس پنہاں تھے۔ یہ مصور کا کمالِ فن تھا۔ مگر ہر ایک اپنے نظریے سے اپنے زاوئے سے دیکھ کر اپنا جواب دیتا رہا۔ ہر آدمی کا اپنا سوچنے کا انداز اور دیکھنے کا زاویہ علاحدہ ہوتا ہے۔
ویسے اب مشرقی خواتین ومعاشرہ پورا نہ سہی مگر بہت حد تک مغربی معاشرہ کی چال ڈھال میں ضم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کوئی حل نکالنا لازمی ہے۔
شمیم ادھیکاری، پنویل
پاکیزہ رسالہ
حجاب میری نظر میں پاکیزہ رسالہ ہے۔ ہم شاہین اسکول بیدر کے توسط سے اس کے سالانہ خریدار ہیں۔ حجاب کی صورت میں ہمیں ایک شمع روشن نظر آئی اس کی ترقی پر مبارکباد قبول فرمائیں۔
انجم ممتاز سلطانہ، شاہین اسکول، بیدر
]حجاب اسلامی آپ کو پسند ہے شکریہ! آپ اسے دوسروں تک پہنچائیے اور بھلائی کے کام میں مدد دیجیے۔[
شکریہ حجاب اسلامی
آپ لوگوں کی دعا سے ہمارے تینوں بچوں نے کامیابی حاصل کرلی ہے، چوتھی بچی کا رزلٹ آنے والا ہے۔ دعا کریں کہ وہ بھی اچھی طرح کامیاب ہوجائے۔ سارے بچوں کی کامیابی میں رسالہ کا اہم رول رہا ہے۔ اسی رسالے کی مدد سے میری اہلیہ نے بچوں کی تربیت اچھی طرح کی ہے۔ اس لیے رسالہ کے سبھی کارکنان کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
عبیداللہ انصاری
]عبیداللہ صاحب! ہماری طرف سے بھی آپ کو بچوں کی اچھی کامیابی پر مبارکباد۔ آپ نے اپنے بچوں کی کامیابی میں حجاب کو بھی شریک بنایا ہے۔ اس پر ہمیں خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے بچوں کو اور ترقی دے اور حجاب کو لوگوں کے لیے مفید بنائے۔ آمین! ایڈیٹر[
رسالہ پسند ہے
ماہ مئی و جون کے رسالے پیش نظر ہیں۔ ٹائٹل خوبصورت اور جاذبِ نظر ہونے کے ساتھ ساتھ مواد کے اعتبار سے بھی بہت معیاری ہیں۔
یوں اردو میں سیکڑوں رسالے نکلتے ہیں بلکہ آئے دن نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں مگر حجاب ان میں کئی اعتبار سے ممتاز معلوم ہوتا ہے۔ اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ ہر قسم کے خوف سے دور ہوکر اسے گھر کے تمام لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ جبکہ دیگر کئی رسالے ایسے ہیں جن کے بعض صفحات پڑھ کر یا ان کی تصاویر دیکھ کر اوراق پھاڑ ڈالنے کو جی چاہتا ہے۔
معلومات کے اعتبار سے بھی رسالہ منفرد ہے۔ ایک ہی شمارے میں کئی اہم،ضروری اور گھریلو زندگی سے بلا واسطہ تعلق رکھنے والے موضوعات پر رہنمائی ملتی ہے۔ تعلیم و کیرئر، گھریلو کام، بچوں کی تربیت، صحت وغذا کے علاوہ اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہر اردو داں گھرانے کے لیے ضروری ہے۔ ان سب میں اہم بات میری نظر میں یہ ہے کہ رسالہ سب کچھ دینے کے ساتھ ساتھ اپنی فکر میں مکمل طور پر اسلامی رسالہ ہے۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ رسالہ ہر گھر میں پہنچے اور میں اس کی کوشش میں بھی ہوں۔
محمد نیر عالم، اجین، ایم پی
]نیر صاحب! حجابِ اسلامی کوپسند کرنے کے لیے اور اس کی توسیع و اشاعت میں حصہ داری کے لیے شکریہ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ رہتے ہوئے پورے مسلم سماج کو اسلام سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ دین اور دنیا کی علیحدگی کے ہم قائل نہیں۔ مسلم خواتین کو اسلام سے وابستگی کے ساتھ وہ انقلابی سوچ دینا چاہتے ہیں جس کی طرف ہمارے خدا و رسول نے رہنمائی کی ہے۔ ایڈیٹر[
——