مادھوی کٹی، پھر کملا داس اور آخر میں کملاثریا

عقیدت اللہ قاسمی،ڈاسنہ، غازی آباد

مادھوی کٹی، پھر کملا داس اور پھر کملا ثریا وہ خاتون ہیں جنہیں کیرالہ کی پہلی انگلش میں لکھنے والی خاتون شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جس کی عظمت کو نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر تسلیم کیا گیا۔ انہیں مذکورہ بالا تینوں ناموں سے پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ ان کی وفات پر جب ہر طرف ان کے انتقال پر رنج و غم، تعزیت اور ملال کا اظہار کیاجارہا تھا اپنے اپنے آئینے میں ان کی تصویر دیکھنے والوں نے ان کے لیے تینوں نام استعمال کیے۔ ان کا ہر نام ان کے مخصوص کارناموں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی زندگی کے الگ الگ مرحلوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان کی شخصیت کے الگ الگ پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کی پوری زندگی تنازعات اور ہنگاموں سے عبارت رہی۔ وہ ایک قدامت پرست اور روایت پسند ہندو نائر (نلپ پٹو) راج گھرانے میں وی ایم نائر اور بالا منیما کے گھر میں ۳۱؍مارچ ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئیں۔ جو ایک علمی اور لٹریری گھرانہ تھا۔ اور کیرالہ کے مالا بار علاقے میں پنایر کلم گاؤں میں رہتا تھا۔ کملا ثریا نے اپنے خاندان کی لٹریری روایت کو آگے بڑھایا جو انہیں اپنی والدہ بالا منیما اور اپنے بڑے چچا نلاپت نرائنن مینن سے وراثت میں ملی تھی۔ ان کی والدہ کیرالہ کی ملیالم زبان کی ایک ممتاز شاعرہ تھیں اور ماتر بھومی کی مینیجنگ ایڈیٹر رہ چکی تھیں۔ ان کے چچا لٹریچر کے میدان کی بہت عظیم اور ممتاز شخصیت تھے۔ ان کے والد وی ایم نائر والفورڈ ٹرانسپورٹ کمپنی میں کلکتہ میں ایک سینئر افسر تھے۔

کملا ثریا نے اپنے خاندان کی وراثت میں ملنے والی لٹریری روایت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس کو عروج و بلندی کے اس مقام تک پہنچادیا کہ انہیں بہت سارے اعزازات، خطابات اور ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ جن میںایشین پوئٹری پرائز، کینٹ ایوارڈ فار انگلش رائٹنگ فرام ایشین کنٹریز، اسان ورلڈ پرائز، ایزوتھا چن ایوارڈ ساہتیہ اکاڈیمی ایوارڈ، ویالار ایوارڈ اور کیرالہ ساہتیہ اکاڈیمی ایوارڈ شامل ہیں۔ انہیں نوبل پرائز فار لٹریچر کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ان کی خود نوشت سوانح مائی اسٹوری کا پندرہ زبانوں میں ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔

وہ کیرالہ ساہتیہ اکاڈمی کی وائس چیئر پرسن، کیرالہ فورسٹری بورڈ کی چیئر پرسن، کیرالہ چلڈرن فلم سوسائٹی کی صدر، پویٹ میگزین کی اورینٹ ایڈیٹراور السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کی پوئٹری ایڈیٹر تھیں۔

وہ ہمیشہ ایک روایت شکن خاتون کی حیثیت سے تنازعات کے گھیرے میں رہیں۔ عورتوں کی جنسی خواہشات کے سلسلے میں بیباکانہ اظہار کے حوالے سے روزِ اول سے موضوع بحث رہیں۔ وہ ملیالم کی زبردست افسانہ نگار، ناول نگار، داستان نویس اور کہانی کا ر تھیں۔ وہ اپنے دور کی سب سے بڑی روایت شکن تھیں وہ بھارتی عورتوں کی جنسی خواہش کے موضوع پر پوری ڈھٹائی اور بڑی بیباکی کے ساتھ لکھتی اور بولتی تھیں۔ اپنے دور کے رسوم و رواج اور عقائد سے انحراف کے سبب انھوں نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا۔

انھوں نے معصومیت اور پاکدامنی کی روشنی پھیلائی۔ نسوانی کشش کی بات کی۔ دل کی پیچیدگیوں اور الجھنوں اور سادگی کی ناقابلِ بیان فریب کاریوں کا تذکرہ کیا۔ نزاکت و نفاست کی درجہ بندی کی ایک سیریز اور احساسات سے لبریز کہانیاں لکھیں۔ وہ ملیالم میں مادھوی کٹی اور انگلش میں کملا داس کے نام سے لکھتی تھیں۔

انھوں نے ۱۶؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو ۶۵ سال کی عمر میں حلقہ بگوش اسلام ہونے کا اعلان کرکے پورے ملک میں بالخصوص کیرالہ میں ایک زبردست ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد انھوں نے اپنا نام کملا ثریا اختیار کیا تھا اور پردہ میں رہنا شروع کردیا تھا۔ اور اعلان کیا تھا ’’پردہ زبردست آزادی کا احساس پیدا کرتا ہے اس کے اندر میں خود کو بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔‘‘ انھوں نے فروری ۲۰۰۷ء میں ایک ٹیلی فون انٹرویو میں دی اسٹیٹسمین سے کہا تھا ’’نفرت بھرے ای میلوں اور مستقل پولیس تحفظ نے مجھے ایک قیدی بنادیا ہے۔ ہندو خاص طور سے نائر یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرکے ان کے ساتھ غداری کی ہے۔‘‘

نفرت کا یہ طوفان ۳۱؍مئی ۲۰۰۹ء بروز اتوار صبح ایک بج کر ۵۵ منٹ پر جہانگیر اسپتال پونے میں ان کے انتقال کے بعد اس وقت پھر سر اٹھاتا نظر آیا تھا جب ۷۵ سالہ کملا ثریا کا ڈیتھ سرٹیفکٹ کملا مادھو داس کے نام سے بنایا گیا اور سماسن پروانہ میں آخری رسوم کی ادائیگی کی تاریخ اسی دن کی اور مقام پونے شہر کا شمشان گھاٹ وے کنٹھ لکھا گیا۔ لیکن صبح کے وقت کیا ہوا یہ فیصلہ بعد میں دن کے وقت بدل گیا جب ان کے سب سے بڑے بیٹے مونونلاپت مادھوی کٹی نے جو ایک پولیٹکل کمنٹیٹر جرنلسٹ ہیں اعلان کیا۔

’’میری والدہ کئی سال پہلے مسلمان ہوچکی تھیں۔ ان کا انتقال مسلمان کی حیثیت سے ہوا ہے۔ وہ اپنی خوشی سے مسلمان ہوئی تھیں۔ اب اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ میں یا میرے بھائی کیا چاہتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کی ان کی اپنی مرضی، پسند اور خواہش تھی اور ہم ان کی خواہش کا احترام کریں گے اور اس کی تکمیل کریں گے۔ اب اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پھر سے مذہب تبدیل کیا جاسکے۔ اس لیے ان کی آخری رسوم اسلامی اصولوں کے مطابق انجام پائیں گی۔ ان کی کیرالہ واپس جانے کی بھی خواہش تھی۔ اس خواہش کو بھی پورا کیا جائے گا۔‘‘

اس سب کے باوجود ہندوستان ٹائمز نے لکھا: ’’داس کے اچانک اسلام قبول کرنے کے اعلان سے بہت سے لوگوں کو زبردست دکھ ہوا۔ انھوں نے ۶۵ سال کی پختہ عمر میں اسلام اور پردہ اختیا رکیا لیکن لگتا ہے انھوں نے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کی تھی۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں پانچ سال قبل ہندوستان ٹائمز کے نمائندہ تھروواننتھ پورم کے ر میش بابو کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ’’ مذہب تبدیل کرنا ایک غلطی تھی۔ میںنے کسمپرسی، تنہائی اور تجرد کی زندگی ختم کرنے کے لیے مذہب تبدیل کیا تھا۔ میں بہت کچھ پیار و محبت کی توقع کرتی تھی لیکن میرا دل ٹوٹ گیا۔ مجھے مایوسی سے دوچار ہونا پڑا۔‘‘

اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ جیسے ہی ان کا یہ انٹرویو شائع ہوا انھوں نے اپنے بیان سے انحراف کرلیا لیکن پھر دعویٰ کیا ہے کہ جب ۲۰۰۷ء میں بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے ان سے ملاقات کی تو انھوںنے پھر یہی الفاظ دہرائے۔ گویا موت کے بعد بھی ہنگاموں اور طوفانوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔

والد کی کلکتہ میں ملازمت کی وجہ سے ان کا بچپن کلکتہ میں گزرا تھا۔ ان کی شادی مادھو داس سے کی گئی تھی جو عمر میں ان سے ۱۵ سال بڑے تھے۔ وہ رزرو بینک آف انڈیا کے ایک سینئر افسر تھے۔ ان کا اب سے کئی سال قبل انتقال ہوچکا تھا۔

کملا ثریا ۲۰۰۷ء میں ایک ہارٹ اٹیک کے بعد کیرالہ کے شہر کو چی سے مہاراشٹر کے پونے شہر میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے جے سوریا کے پاس جاکر رہنے لگی تھیں جو ٹائمز آف انڈیا گروپ کے مینجمنٹ کنسلٹنٹ ہیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے مونونلاپت مادھوی کٹی اور منجھلے بیٹے چنن داس ہیں۔ انہیں ۱۸؍اپریل کو مزمن نمونیا، سانس کی شکایت اور بڑھاپے و ضعیفی کے باعث ہونے والی دیگر مختلف شکایتوں کی وجہ سے پونے کے جہانگیر اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ اس وقت سے وینٹی لیٹر پر چل رہی تھیں۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں پارلیمنٹ کا الیکشن بھی لڑا تھا مگر اس میں ناکام ہوگئی تھیں۔

کملا کو ابتدائی عمر میں ہی اپنی ماں اور چچا کے زیر اثر شاعری سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن پیشہ ورانہ انداز میں انھوں نے اس وقت لکھنا شروع کیا جب ان کی شادی ہوگئی اور وہ ماں بن گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گھر کی آمدنی میں اضافہ کی غرض سے لکھنا شروع کیا لیکن ان کی شاعری کو کبھی بھی محض پیسوں کے لیے کی جانے والی شاعری قرار دے کر مسترد نہیں کیا گیا۔ ایک گھریلو عورت ہونے کی وجہ سے وہ صبح سے شام تک روز مرہ کے کاموں میں گھری رہتی تھیں۔

انھوں نے ۱۷؍سال کی عمر میں مادھوی کٹی کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ وہ بتاتی تھیں’’وہ اکثر رات کا بڑا حصہ گزرجانے کا انتظار کرتی تھیں جب گھر کے سب لوگ سوجاتے تھے اور اس کے بعد صبح تک لکھتی رہتی تھیں۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف ایک کچن ٹیبل تھی جس پر وہ سبزیاں کاٹا کرتی تھیں اور اس کے بعد تمام پلیٹ اور دوسری چیزیں صاف کردی جاتی تھیں۔ ۱۹۹۹ء میں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا‘‘ مجھے دیکھو، کیا میں خوشی، اطمینان اور سکون سے لطف اندوز نہیں ہوں۔ میری زندگی اللہ کے لیے وقف ہوچکی ہے؟‘‘ یہ بات انھوں نے نئے افقوں کے دریچے کھل جانے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہی تھی ۔ ان کا کہنا تھا ’’اب مادھوی کٹی کا کوئی وجود نہیں رہا۔ جی ہاں متنازعہ مادھوی کٹی مرچکی ہے۔ یہ آخری موقع ہے جب میں آپ سب کا دل دکھا رہی ہوں۔‘‘

اسلام کی کشش کے بارے میں انھوں نے کہا تھا: ’’دوسا دوسی باتیں ہیں ایک پردہ، دوسرے یہ سیکیوریٹی جو اسلام عورتوں کو فراہم کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ دونوں وجہیں نسوانیت کی تکمیل کرتی ہیں۔ پردہ خواتین کے لیے دنیا میں سب سے شاندار ڈریس ہے اور میں ہمیشہ پردہ میں رہنے کو پسند کرتی ہوں۔ یہ عورتوں کو تحفظ کا احساس کراتا ہے۔ صرف اسلام ہی عورتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ میں نے پوری زندگی تنہائی اور بے کسی کی گزاری ہے لیکن اب میں تنہا نہیں ہوں، اسلام میرے ساتھ ہے۔ دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جو عورتوں کو محبت اور تحفظ عطا کرتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام کو اختیار کیا ۔‘‘

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146