ترکستان کے ایک شہر کا نام تھا فاراب۔ بہت مدت گزری، اس شہر میں بے حد غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ دن کو تو وہ اپنے استاد کے ہاں جاکر سبق لیتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا، جب تک یہ سبق اچھی طرح یاد نہیں ہوجاتا تھا۔
اس کی چارپائی کے سرہانے ایک مٹی کا دیا جلتا رہتا تھا۔ وہ اسی دیے کی روشنی میں رات کے دو بجے تک پوری کی پوری کتاب پڑھ لیتا تھا۔ اور بعض اوقات تو ساری رات پڑھنے میں گزرجاتی تھی۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ کہ دیے کی روشنی کم ہونے لگی۔ اس نے بتی کو اونچا کیا۔ روشنی ہوئی تو لیکن بہت جلد ختم ہوگئی۔ اب اس نے دیے پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوا کہ تیل دیے میں ہے ہی نہیں، روشنی ہو تو کیونکر ہو۔
اب میں کیا کروں؟ اس نے دل میں سوچا، رات آدھی کے قریب گزرچکی تھی۔ شہر کی دکانیں بند ہوچکی تھیں، اور اگر کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا، کیونکہ اس کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ پیسوں کے بغیر کون اسے تیل دے سکتا تھا۔
اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جاتا لیکن ابھی تو اسے پورے دو گھنٹے پڑھنا تھا۔ وہ یہ دوگھنٹے کس طرح ضائع کرسکتا تھا۔ اور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آسکتے تھے؟ وہ روٹی تو ایک مسجد میں جاکر کھا لیتا تھا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی، اس سے وہ اپنے لیے معمولی کپڑے اور تیل خریدلیتا تھا۔ اسے جتنے پیسے ملتے تھے وہ خرچ کرچکا تھا۔ اور ان دنوں اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
دیے کے اس طرح بجھ جانے سے اسے بڑا افسوس ہوا۔ وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دروازے پر آبیٹھا۔ رات کا اندھیرا ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔ کہیں بھی کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہ دے رہا تھا سب لوگ آرام کررہے تھے۔
اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو دور کسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی۔
روشنی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور یہ معلوم کرنے لگا کہ یہ کہاں سے آرہی تھی، وہ ادھر قدم اٹھانے لگا، جدھر سے روشنی آرہی تھی۔ تاکہ موقع ملے تو وہ اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے۔ اور پھر واپس آجائے۔ کچھ دور جاکر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل سے نکل رہی ہے۔ اور یہ قندیل محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے چوکیدار سے بڑے ادب سے کے ساتھ کہا:
’’جناب! اگر آپ اجازت دیں تو میں قندیل کی روشنی میں پڑھ لوں۔‘‘
چوکیدار ایک نیک آدمی تھا، اس نے سمجھ لیا کہ غریب طالب علم ہے، تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بولا:
’’ہاں بیٹا پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا، یہاں بیٹھ جا!‘‘ لڑکا بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار زیادہ دیر ایک جگہ ٹھیر نہیں سکتا تھا۔ اس لیے کہنے لگا:’’چلو بیٹا، اب تم گھر جاؤ اور سوجاؤ، مجھے آگے جانا ہے۔‘‘
لڑکا بولا: ’’آپ ضرور آگے جائیے۔ جہاں جی چاہے جائیے لیکن میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔‘‘
چوکیدار قندیل اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور وہ لڑکا پیچھے پیچھے۔ اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آرہی تھی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ چار بجے تک پڑھتا رہا۔ اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کرکے چلا گیا۔ دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔ تیسری رات جب لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا۔
’’بیٹا یہ لو قندیل اپنے گھر لے جاؤ، میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔‘‘ لڑکے نے یہ لفظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ قندیل اپنی کوٹھری میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے لگا۔
کئی دن گزرگئے، کئی سال گزرگئے، لڑکا جوان ہوگیا، جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جارہی تھی، ا س کا علم بھی بڑھتا جارہا تھا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا استاد بن گیا۔ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے تھے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔ وہ علم کا ایک دریا بن گیا تھا، جس سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔
جانتے ہو یہ کون تھا؟
یہ تھا ابونصر فارابی!
ابونصر فارابی جس کی وفات کو کئی سو سال گزرچکے ہیں، مگر جس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہوگئی، لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا، اس کی روشنی کبھی ختم نہ ہوگی۔
الفارابی کا پورا نام ابونصر محمد بن محمد بن ترخان بن اوزلغ ہے۔ وہ ترکی النسل تھا۔ علاقہ فاراب کے ایک شہر ویج میں ۸۷۰ء کے لگ بھگ پیدا ہوا۔ یہ علاقہ۸۳۹/۸۴۰ء میں ساسانیوںنے فتح کیا اور اسے اپنے مملکت میں شامل کرلیا۔ اسی زمانے میں الفارابی کے دادا نے اسلام قبول کیا۔ اس کا والد فوجی افسر تھا اور اسے ایرانی النسل امراء میں شمار کیا جاتا تھا۔ بظاہر وہ ان ساسانی امیروں کی ملازمت میں تھا جو ایران کے قدیم ساسانی بادشاہوں کی اولاد میں ہونے کے دعویدار تھے اور جدید فارسی ادب کے نشوونما کی بڑی سرپرستی کرتے تھے۔ الفارابی نے اپنی تعلیم کا آغاز اس وقت کے رائج اسلامی علوم سے کیا اور اس دوران میں اس نے اسلامی فقہ پر خصوصی توجہ دی۔ بعد میںالفارابی نے بخارا میں علم حاصل کرنا شروع کیا۔ یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کرکے وہ مرو چلاگیا اور وہاں اس نے سریانی بولنے والے ایک نسطوری عیسائی یوحنا بن حیلان سے منطق پڑھنا شروع کی۔ الفارابی اپنے اس غیر مسلم استاد کا بڑا احترام کرتا تھا اور اس نے اپنی کتابوں میں جابجا اسے استاد الاساتذہ قرار دیا ہے۔
——