زکوٰۃ اور اس کے مصارف

صادق الزماں داؤد خاں چاندوڑی

زکوٰۃاسلام کا ایک اہم رکن ہے ۔بظاہر یہ ایک طرح کا ٹیکس معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں نماز، روزے، حج اور دیگر عبادات کی طرح یہ بھی ایک فرض عبادت ہے، جس کا تذکرہ قرآن پاک میں جابجا کیا گیا ہے اور اگر قرآن پر غور کریںتو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تذکرہ قرآن و حدیث میں عموماً نماز کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور انھوں نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی۔‘‘(البقرۃ: ۲۷۷)
لیکن سوال یہ ہے کہ عبادات، اعمال اور اخلاق بہت سے ہیں پھر قرآن پاک میں نماز کے بعد زکوٰۃ ہی کا تذکرہ کیوں کیا گیا ہے؟ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں عبادتیں اتنی اہم ہیںکہ جس نے ان کوادا کیا اس نے گویا پورے دین پر عمل کیا چونکہ بنظرِ عمیق اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ احکام کی اصولی اور بنیادی تقسیم دو طرح ہوسکتی ہے:
(۱) اس کی ایک قسم وہہے جس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور وہ نماز کے اندر پائی جاتی ہے۔
(۲) دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور یہ حق زکوٰۃ سے ادا ہوتا ہے۔
جہاں ایک طرف نماز حقوق اللہ کا مغز اور اس کا لبِ لباب ہے، وہیں دوسری طرف زکوٰۃ حقوق العباد کی بنیاد ہے۔ انسان اگر واقعی پکا نمازی اور عبادت گزار ہے تو جس طرح مسجد کے اندر اللہ تعالیٰ کا پاس و لحاظ کرتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ مسجد کے باہر اللہ کے بندوں کو فراموش کربیٹھے۔
اس لیے قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۔
کہ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روک دیتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز حقیقی نماز ہو، ریا اور نام و نمود کے طور پر نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح اگر انسان دل سے شرحِ صدر کے ساتھ زکوٰۃ دے رہا ہے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بندگانِ خدا کے حقوق کو پامال نہ کرے گا۔
قرآن پاک میں جو لفظ زکوٰۃ استعمال ہوا ہے، اس کا بھی بہت بڑا راز ہے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ آخرزکوٰۃ کو زکوٰۃ کیوں کہتے ہیں؟ اور اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
زکوٰۃ کا لفظ تزکیہ سے نکلا ہے، جس کے معنی پاک کرنے کے ہیں، زکوٰۃ دینے سے مال کے اندر جو میل کچیل ہوتا ہے وہ دور ہوجاتا ہے۔ انسان کے اندر جو بخل کی گندگی ہے اس سے انسان پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے انسان کا دل برائیوں سے پاک ہوجاتا ہے اور اس کا یہ عمل اس مال میں اضافہ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا۔
اس آیت میں زکوٰۃ کے لیے صدقہ کا لفظ استعمال ہوا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ صدقہ، دینے والے کے ایمان و ایقان کی تصدیق کرتا ہے اور یہ اس کی صفائی قلب اور صدقِ نیت کی علامت ہے۔
زکوٰۃ کی مختلف مقدار اور متعدد مصارف ہیں۔ زکوٰۃ کی مقدار کی کئی قسمیں ہیں۔ بعض مالی تو بعض زرعی اور بعض معدنیاتی ہیں۔ جن کی مختلف مقدار متعدد چیزوں میں مندرجہ ذیل ہے:
٭ جمع شدہ رقم، زیور اور مالِ تجارت پر ڈھائی فیصد۔
٭ جو جانور جنگلات کے چارہ پر پلتے ہیں ان جانوروں پر ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد۔
٭ جس زرعی پیداوار کو آبپاشی کی ضرورت پڑتی ہو اس میں پانچ فیصد
٭ دفینوں اور معدنیات پر بیس فیصد۔
زکوٰۃ کے مصارف بھی مختلف ہیں وہ سب قرآن کریم کی رو سے متعین ہیں۔ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقْرَائِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ۔ فَرِیْضَۃٌ مِنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
٭ الفقراء: ایسے حضرات کو کہتے ہیں جن کے پاس کچھ مال تو ہو مگر ان کی ضروریات و حاجات کے لیے ناکافی ہو اور ان کی گزر برس تنگ دستی کی حالت میں ہوتی ہو، مگر وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں۔
٭ المساکین: ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی حالت اتنی خستہ ہو کہ اپنے تن کی ضروریات پوری کرنے کے بھی قابل نہ ہوں۔
٭ والعاملین علیہا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو حکومت یا ادارے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے متعین کریں، ان کو زکوٰۃ ہی کی رقم سے تنخواہ دی جائے گی۔
٭ والمؤلفۃ قلوبہم: ایسے حضرات جن کے شرور وفتن سے اسلام کو بچانے، اسلام کی حمایت کرنے یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لیے ان کو روپئے دینے کی ضرورت پیش آئے۔
٭ وفی الرقاب: اسی طریقہ سے جو لوگ غلامی کا قید میں ہوں اور وہ اپنے مالک کو مال دے کر رہائی پاسکتے ہوں تو ان کو بھی زکوٰۃ کا مال دیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اپنے مالک کو رقم دے کر غلامی سے نجات پاسکیں۔ لیکن موجودہ دور میں غلامی کا رواج نہیں رہا اس لیے جو حضرات جرمانہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے جیلوں میں قید ہوں اور سلاخوں کے پیچھے گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے ہوں ان کی رہائی کے لیے بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
٭ والغارمین : جس کے اوپر اتنا قرض ہو کہ قرض کی ادائیگی کی صورت میں اس کے پاس نصاب سے کم مال بچتا ہو اسے بھی زکوٰۃ سے امداد دی جاسکتی ہے۔
٭ وفی سبیل اللہ: یہ اتنا وسیع لفظ ہے کہ اس میں تمام اچھے اعمال اور نیک کام شامل ہوسکتے ہیں، لیکن اس سے اصل مراد اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد میں مالی اعانت کرنا ہے۔
٭ ابن السبیل: ایسا شخص جو سفر کررہا تھا اور دوران سفر کسی بنا پر محتاج ہوگیا ہو تو اس کی بھی زکوٰۃ کے مال سے امداد کی جاسکتی ہے چاہے وہ اپنے گھرپر مالدار ہی کیوں نہ ہو۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146