حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ (حضورؐ کے رازدار انٹلی جینس آفیسر کی روشن زندگی کا تذکرہ)

تحریر: ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ترجمہ: عبیدالرحمن اعظمی

’’اگر چاہو تو مہاجرین کی طرف اپنی نسبت کرلو اور اگر پسند ہو تو انصار میں اپنے کو شمار کرلو۔ جو نسبت چاہو اپنے لیے اختیار کرو۔‘‘
مکے میں جب رسول اکرم ﷺ کی حذیفہؓ بن یمانؓ سے پہلی ملاقات ہوئی تب آپؐ نے انہیں مذکورہ الفاظ سے خطاب فرمایا تھا۔
حذیفہؓ کے والد یمان مکی تھے اور قبیلہ عبس سے تھے۔ انھوں نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا جس کی بنا پر مکے سے بھاگ کر یثرب (مدینہ منورہ) میں پناہ لی تھی اور وہاں قبیلہ اشہل کے حلیف اور ان کے داماد ہوگئے۔ وہیں حضرت حذیفہؓ کی ولادت ہوئی۔ حالات مکے میں قیام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے وہ مکہ محض آتے جاتے تھے اور مستقل قیام یثرب ہی میں تھا۔
جزیرہ عرب میں جب اسلام کی روشنی نمودار ہوئی تو قبیلہ عبس کے جن گیارہ افراد نے وفد کی شکل میں مکہ آکر اسلام پر بیعت کی تھی اور آنحضورﷺ کے سامنے اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا، ان میں ایک حذیفہؓ کے والد بھی تھے۔ یہ واقعہ حضورﷺ کی ہجرت سے پہلے کا ہے۔
حذیفہؓ بن یمان ایک مسلم گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ انہیں ایسے والدین کے پہلو میں نشوونما پانے کا موقع ملا جو اسلام لانے میں سابقین اولین میں سے تھے۔ یوں حذیفہؓ کو حضورﷺ کے دیدار سے پہلے ہی ایمان کی دولت نصیب ہوگئی۔ حضور اکرمﷺ سے ملاقات کا شوق ان کی رگ و جان میں رواں تھا۔ جب سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، حضورﷺ کے احوال اور سراپا کے بارے میں برابر ٹوہ میں رہتے تھے۔ اس سے ان کی بارگاہِ نبوت سے شیفتگی اور والہانہ عقیدت اور محبت ٹپکتی تھی، چنانچہ یہ شوق انہیں مکہ لے آیا۔ حضورﷺ پر جونہی ان کی نگاہ پڑی تو سوال کیا: ’’امہاجر انا ام انصاری یا رسول اللّٰہ؟ (اے اللہ کے رسول! آیا میں مہاجر ہوں یا انصاری؟) اس وقت اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’اگر چاہو تو مہاجرین کی طرف نسبت کرو اور پسند ہو تو انصار میں اپنے آپ کو شمار کرو۔ جو نسبت زیادہ محبوب ہو اسے اختیار کرو۔‘‘ حذیفہؓ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے آپ کو انصاری کہنا پسند کرتا ہوں۔‘‘
جب حضور اکرمﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو حذیفہؓ نے آپؐ کا دامن بڑی مضبوطی سے تھام لیا۔ بدر کے سوا سارے غزوات میں شریک رہے۔ غزوئہ بدر میں شرکت نہ کرنے کی ایک خاص وجہ تھی جس کی تفصیل خود حذیفہؓ یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں اور میرے والد یمان مدینہ کے باہر تھے کہ ہمیں کفار نے قید کرلیا اور پوچھا کہاں کاارادہ ہے؟ ہم نے جواب دیا: مدینے کا۔ وہ کہنے لگے: محمد ﷺ کی طرف تمہارا رخ ہے؟ ہم نے جواباً کہا نہیں، صرف مدینے کا ارادہ ہے۔ جب تک انھوں نے ہم سے دو باتوں کا عہد نہیں لے لیا، رہا نہیں کیا۔ ایک تو یہ کہ ہم محمد (ﷺ) کی مدد نہیں کریں گے۔ دوسری یہ کہ کفار کے خلاف محاذ آرائی میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مدینہ منورہ پہنچنے پر ہم لوگوں نے قریش سے طے شدہ معاہدے کی تفصیل سے حضورﷺ کو آگاہ کیا اور سوال کیا کہ اب ہم کیا کریں؟ حضورﷺ نے جواب دیاکہ ہم ان کے عہد و میثاق کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر سطوت و غلبہ کے لیے اللہ کی مدد کے طلب گار رہیں۔‘‘
جب غزوئہ احد کا وقت آیا تو حذیفہؓ اور ان کے والد یمان نے جنگ میں شرکت کی۔ حذیفہؓ نے خوب خوب جوہر دکھائے اور جنگ سے بہ سلامت واپس آئے، البتہ ان کے والد یمان خود مسلمانوں کی تلواروں سے دھوکے میں شہید ہوگئے۔حضورﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے ان کے فرزند کو ان کا خون بہا دینا چاہا، مگر انھوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! وہ شہادت کے آرزو مند تھے، جسے انھوں نے پالیا۔ اے اللہ! میں تجھے گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اپنے والد کی دیت میں نے مسلمانوں میں تقسیم کردی ہے۔‘‘ اس کی وجہ سے حضورﷺ کی خدمت میں ان کا رتبہ بہت بلند ہوگیا۔
حضور اکرمﷺ نے حذیفہؓ بن یمان کو سرتاپا بغور مطالعہ کیا تو ان میں تین خصوصیات پائیں۔ ایک ان کی زبردست ذہانت جو ان کے مشکل مسائل کے حل میں ان کی مددگار رہتی، دوسری ان کی عبقریت اور نابغہ روزگاری، تیسری راز داری کا پاس ولحاظ کرنا۔ حضور اکرمؐ کی سیاست کا دارومدار اپنے جاں نثاروں کے چھپے گوشوں اور ان کے اندر موجود صلاحیتوں کو جاننے اور ان سے بروقت کام لینے پر تھا۔ مدینے میں سب سے بڑی مشکل جو مسلمانوں کو درپیش تھی وہ یہود اور منافقین کا وجود اور گٹھ جوڑ تھا جو حضورؐ اور مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ اور پریشانی کا سبب تھے۔ حضور اکرمﷺ نے ان منافقین کی فہرست حضرت حذیفہ بن یمان کو عنایت کردی تھی۔ وہ ایسا سربستہ راز تھا۔ جس سے انھوں نے کسی صحابی کو مطلع نہیں کیا۔ وہ منافقین کی سرگرمیوں اور سیسہ کاریوں کا بغور مطالعہ کرتے تھے۔ اور ساتھ ہی اس کے تدارک اور دفاع کی راہ بھی تلاش کرتے تھے۔ ان کے اسی منصب نگرانی کی وجہ سے انہیں ’’امین رسول اللہ‘‘ (رازدارِ رسول) کا خطاب ملا۔
سنگین اور پرخطر موقعوں پر حضور اکرمﷺ نے حذیفہ بن یمانؓ کی ذہانت اورفطانت سے خوب کام لیا۔ ان کا یہ کمال غزوئہ خندق کے موقع پر عروج کو پہنچا تھا۔
سرفروشی کی اس داستان کا احوال خود حذیفہؓ کی زبانی سنئے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہم لوگ خندق کی رات صف بستہ کھڑے تھے۔ ہمارے سامنے ابوسفیان اپنے کفارِ مکہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ ادھر نچلے حصے میں یہود کا قبیلہ بنو قریظہ خیمہ زن تھا جن سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے سلسلے میں خوف دامن گیر تھا۔ ہم پر کبھی ایسی تاریک اور تیز ہوا کا گزر نہیںہوا تھا۔ ہوا کے جھکڑوں کی آواز گویا بجلی کی کڑک تھی۔ تاریکی کا یہ حال کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ اس پر مستزاد یہ کہ منافقین اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا بہانہ بناکر اجازت لینے لگے، حالانکہ ان کے گھر غیر محفوظ نہیں تھے۔ اس دن جو بھی منافق آپ سے اجازت مانگتا آپ اسے اجازت دے دیتے۔ اس طرح ایک ایک کرکے سارے منافقین کھسک گئے۔ اب ہم لوگ تقریباً تین سو باقی رہ گئے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اپنے محاذ کا دورہ کیا۔ نبی کریمﷺ ہم میں سے ہر ایک کے پاس سے گزرے اور مجھ تک ایسی حالت میں آئے کہ میرے پاس میری عورت کی ایک چادر کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس سے میں سردی سے بچاؤ کا سامان کررہا تھا اور جو میرے گھٹنے سے زیادہ لمبی نہ تھی۔ حضورﷺ مجھ سے انتہائی قریب ہوگئے اور دریافت کیا کون؟ میں نے کہا: حذیفہ! آپ نے دوبارہ میرے نام کی وضاحت چاہی تو میں نے دوبارہ حذیفہ کہا۔ میری یہ حالت تھی کہ میں بھوک اور سردی کی شدت کے باعث زمین سے چمٹ گیا تھا۔ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! فرمائیے کیا حکم ہے؟‘‘ آپؐ نے حکم دیا کہ دشمن کے محاذ میں کچھ ہونے والا ہے، لہٰذا ان کے ہاں دھیرے سے جاؤ اور مجھے صورتِ حال سے آگاہ کرو۔‘‘
حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں سخت سردی اور خوف سے دوچار تھا، تاہم نکل کھڑا۔ حضورؐ نے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ان کی آگے پیچھے، دائیں بائیں ، اوپر نیچے سے حفاظت فرما۔ حضورﷺ کا دعا فرمانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل و جان سے خوف دور کردیا اور سردی کی شدت بالکل جاتی رہی۔ جب میں محاذ کا رخ کرکے جانے لگا تو حضورؐ نے دوبارہ آواز دی اور کہا: ’’مجھے خبر دینے سے پہلے فوجیوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی حرکت نہ کرنا۔‘‘ میں نے کہا: ’’سر آنکھوں پر یا رسول اللہ!‘‘ میں رات کی سخت تاریکی میں دشمن کے محاذ کی طرف نکل پڑا اور اس میں داخل ہوکر ان کا ایک فوجی شمار ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد ابوسفیان اپنے لوگوں سے خطاب کرنے کھڑا ہوا اور اس بات کی تاکید کی کہ مبادا کوئی میری یہ باتیں محمدؐ تک نہ پہنچادے، لہٰذا ہر شخص اپنے ہم نشین سے خوب آگاہ ہوجائے۔ اور پوچھ تاچھ کرلے۔ میں نے بطور احتیاط فوراً ہی اپنے پاس بیٹھے شخص کا ہاتھ تھاما اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے فلاں بن فلاں کہا۔ ابوسفیان نے اس ضروری تمہید اور تاکید کے بعد کہا: ’’اے قریش کے لوگو! خدا کی قسم! تم لوگوں کا چین اور سکون عنقا ہوگیا ہے۔ ہمارے جانور موت کی نیند سوگئے ہیں۔ ادھر بنو قریظہ ہم سے دست کش ہوگئے ہیں جب کہ تمہیں علم ہے کہ سخت اور تیز و تند ہوا کا سامنا بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اب یہاں سے اپنا رختِ سفر باندھنا چاہیے اور خودجانے کی تیاری شروع کردی۔ اس نے اپنے اونٹ کی رسی کھولی اور سوار ہوکر چل دیا۔ قسم بخدا! حضورؐ کی بات کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو میں ابوسفیان کو اپنے تیروں کا نشانہ بنادیتا۔‘‘
یہ مہم سر کرنے کے بعد میں حضورؐ کے پاس پہنچا تو آپؐ اپنی کسی بیوی کی چادر اوڑھے نماز میں مشغول تھے۔ مجھے دیکھ کر اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنی چادر کا ایک حصہ مجھے اوڑھنے کو مرحمت فرمایا۔ میں نے سارا ماجرا کہہ سنایا تو آپؐ کی خوشی و مسرت کی انتہا نہ رہی۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد بیان کی۔
حضرت حذیفہؓ تادمِ زیست منافقین کے اسرار کے پاس دار تھے۔ خلفائے راشدین نے اپنے دورِ حکومت میں ان سے رجوع کیا۔ حضرت عمرؓ کا تو یہ حال تھا کہ جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا تو سوال کرتے کہ حذیفہؓ موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہوتے تو نماز جنازہ ادا فرماتے۔ اگر وہ حاضر جنازہ نہ ہوتے تو میت کے سلسلے میں شک کرتے اور لوگوں سے نماز جنازہ ادا کرنے کو کہہ دیتے۔ ایک مرتبہ اپنے والیوں کے متعلق منافق ہونے کے بارے میں سوال کیا تو حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ صرف ایک منافق ہے۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ میری رہنمائی کرو توانھوں نے بتانے سے انکار کردیا۔ حذیفہؓ مزید کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمرؓ کی اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں رہنمائی کردی تھی کیونکہ بہت جلد انھوں نے اس والی کو معزول کردیا۔
بہت ہی کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ فارس کے بڑے بڑے شہر نہاوند، دبنور، ہمدان اور رے حضرت حذیفہؓ ہی نے فتح کیے تھے۔
ان تمام خدمات کے باوجود اپنی ذات کے بارے میں وہ اللہ تعالیٰ سے بہت ہی خائف تھے۔ اس کی پکڑ سے بہت ہی لرزاں و ترساں رہتے۔
مرض الموت کا وقت آیا تو بعض صحابہ کرامؓ نے ان کی عیادت کی۔ اس وقت ان سے دریافت کیا: ’’یہ کون سی گھڑی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’صبح ہوا چاہتی ہے۔‘‘ کہنے لگے: ’’اللہ کے ذریعے میں اس صبح کی پناہ مانگتا ہوں جو مجھے آگ کی طرف لے جائے گی۔‘‘ پھر سوال کیا: ’’کیا کفن لے آئے ہو؟‘‘ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا توکہنے لگے: ’’کفن میں اسراف اور زیادتی سے کام نہ لینا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس میری زندگی بہتر ہوگی تو میں اس سے کہیں بہتر حاصل کرلوں گا۔ اگر زندگی اس کے برعکس نکلی تو اس کفن کا کیا حاصل۔‘‘ پھر کہا: ’’اے اللہ! تجھے بخوبی علم ہے کہ میں مالداری کے برخلاف فقر وفاقہ کو، عزت و شہرت کے برعکس گمنامی کو اور زندگی پر موت کو پسند کرتا ہوں۔ پھر جب ان کی روح پرواز کررہی تھی ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے: ’’موت کا محبوب موت کے قبضہ میں ہنسی خوشی جارہا ہے۔ موت پر ندامت کرنے والا کامیاب و کامران نہ ہوا۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146