نوعمر بچوں کے لیے درست اور متوازن غذا کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ بچوں کو کم عمری سے ہی درست اور متوازن غذا دینے پر اس کی آئندہ زندگی کی اچھی صحت کا انحصار ہے اس لیے اس معاملے میں ڈھیل دینا نامناسب ہے۔
۲؍سے۵؍سال کی عمر کے بچوں کے والدین اپنے بچوں پر اس بات کے لیے زیادہ زور دیتے ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ کھانا چاہیے۔ اس معاملے میں وہ بچوں کے ساتھ زورزبردستی بھی کرتے ہیں جبکہ والدین کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ ان کو اپنے بچوں کو زیادہ کھلانے کے بجائے توانائی سے بھرپور غذا لینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ان کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا درست غذا ہے اور کیا نقصان دہ غذا ثابت ہوسکتی ہے؟
جب بچوں کا پیٹ بھر جائے اور مزید کھانے سے ہاتھ روک لیں تو ان کے ساتھ زور زبردستی کرنا درست نہیں ہے۔ اگر ان کو ضرورت سے زیادہ کھلایا گیا تو یہی با ت آگے چل کر ان کی عادت بن جائے گی اور بہت سے مسائل کا سبب بنے گی۔ جیسے جیسے بچے کا وزن اور قد بڑھتا ہے اس کا دماغ اپنے نارمل انداز میں بڑھتا ہے اور اس کا آئی کیو لیول بھی اسی انداز میں نشوونما پاتا ہے۔ جبکہ وزن اور قد بڑھنے سے اس کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔
کھانا کھانے کے معاملے میں بداحتیاطی کی وجہ سے جسمانی تبدیلیاں تو پیدا ہوتی ہی ہیں ساتھ ہی ایسا بھی وقت آتا ہے جب بچے کی قوتِ مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ اندرونی و بیرونی تبدیلیاں درست مقدار میں درست خوراک کی متقاضی ہوتی ہیں۔
۲سے ۵؍سال کی عمر کے دوران ایک بچے کا قد سالانہ ڈھائی انچ بڑھتا ہے اور اس کے وزن میں سالانہ ۴؍سے ۵؍پاؤنڈ تک کا اضافہ ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ بچے کے کھانے کی عادتوں اور اس کی سرگرمیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ چست و چالاک اور ایسے بچے جو اسکول جانے سے قبل کے سالوں میں ہیں ان کو یومیہ ۱۰۰۰ سے ۲۴۰۰ حراروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مختلف، متوازن اور ملی جلی غذا ہی ایک بچے کی اچھی غذا اور صحت کی ضامن ہے یعنی کہ’’ایک اچھی متوازن اور ملی جلی غذا‘‘۔
ملی جلی غذا سے مراد بچے کو گوشت،سبزی، روٹی، دال، چاول سب ہی کچھ کھانے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ ہر کھانے سے لطف اندوز ہو اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے۔ جسمانی نشوونما کے لیے حراروں سے زیادہ حیاتین اور معدنی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو مختلف غذائیں دیں تاکہ بچہ ہر ضروری جزء کو درست مقدار میں حاصل کرسکے۔
امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق آپ کے بچے کو روزانہ جس غذا کی ضرورت ہوتی ہے وہ درج ذیل ہیں:
٭ گوشت، مچھلی، مرغی، انڈے۔
٭ ڈیری کی اشیاء (دودھ، دہی، مکھن، پنیر)
٭ پھل اور سبزیاں
٭ گندم، جو، گیہوں، دلیہ وغیرہ کے سیریلز، آلو، چاول، ڈبل روٹی ۔
ایک بچے کی صحت مند نشوونما کے لیے تمام معدنیات بہت اہم ہیں لیکن ان سب میں فولاد (آئرن) کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ آئرن کی مناسب مقدار اگر بچے کو شروع سے ہی نہیں ملے گی تو اس کے دماغ کے نازک حصوں پر اس کا اثر پڑے گا اور اس کی دماغی نشو ونما متاثر ہوگی۔ صحت مند خون کے لیے بھی آئرن کی بہت اہمیت ہے۔ آئرن حاصل کرنے کے قدرتی ذرائع میں سرخ گوشت سب سے اہم ہے۔اس کے علاوہ غذائیت سے بھر پور سیریلز، بریڈ، پالک اور دوسری ہری سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کرائیں۔ ان کے علاوہ پھلیاں اور مٹر بھی اہم ہیں، جن سے آئرن حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہڈیوں کو زندگی بھر کے لیے مضبوط بنانے اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کے سکڑنے کے عمل سے بچانے کے لیے بچے کو بچپن سے لے کر نوعمری تک کیلشیم کا زیادہ استعمال کروائیں۔ کیلشیم حاصل کرنے کے بہترین ذرائع دودھ، دہی اور پنیر ہیں۔سبزیوں سے بھی روزانہ کیلشیم حاصل کرسکتے ہیں۔
زنک کو عام طور پر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، لیکن یہ بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ زنک بچوں کی قوتِ مدافعت کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے ان خلیوں کو قابو میں کرتا ہے جو کہ صرف بچپن ہی میں زیادہ پیدا ہوتے ہیں اور زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ زنک حاصل کرنے کے بہترین ذرائع میں گوشت، انڈے، ثابت اناج، سی فوڈ اور غذائیت سے بھر پور سیریلز شامل ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کا بچپن سے ہی موٹا ہوجانا اور پھر بڑے ہونے کے بعد بھی وزن میں اضافہ ہوتے رہنا ایک ایسی حقیقت ہے جو بہت تیزی سے سامنے آتی جارہی ہے اور تیزی سے اٹھتا سوال یہ ہے کہ کیا بچپن سے ہی ایسی غذا استعمال کرنی چاہیے جو کہ کم سے کم چکنائی پیدا کرنے والے حراروں پر مشتمل ہو؟ بچوں کے لیے ایسی غذا کبھی تجویز نہیں کی جاتی جس سے ان کا وزن بالکل کم ہوجائے۔ بچوں کومیٹھی اشیاء کا استعمال (چاکلیٹ، کینڈیز، سوفٹ ڈرنکس وغیرہ) کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔ ان سے دانت بھی خراب ہوتے ہیں اور یہ موٹاپا پیدا کرنے کا بہت بڑا سبب ہیں۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کا کہنا ہے کہ نوعمر بچوں کی غذا میں کولیسٹرول بہت اہم ہیں۔ بچوں میں ایسے طرزِ زندگی کا رجحان پیدا کریں جن میں کچھ جسمانی سرگرمیاں بھی ہوں۔ بچے اپنے کھانوں میں وہی غذا لیتے ہیں جو وہ دوسروں کو استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ دودھ پئیں گے تو وہ بھی دودھ پئیں گے اور اگر آپ اپنا پیٹ جنک فوڈ سے بھریں گے تو وہ بھی یہی چاہیں گے۔ ہرمعاملے میں اپنے بچے کے لیے خود کو رول ماڈل ثابت کریں۔ کھانے کے معاملے میں بھی بچوں کو غذائیت سے بھر پور غذا کی ترغیب دیں۔
بچے اچانک ہی کھانے پینے کے معمولات میں ہونے والی تبدیلی کو قبول کرپاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی غذائی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ توانائی سے بھر پور ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کو ایک اچھے غذائی اجزاء پر مشتمل کھانے کے لیے تیار کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بچے کی روز مرہ کی غذائی عادت کے بارے میں بھی کوئی پیشین گوئی کرنا ناممکن ہے۔ ایک دن وہ اپنے سامنے نظر آنے والی تمام اشیاء کھاسکتا ہے لیکن اگلے دن وہ ان کو کھانا نہیں چاہتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ ایک کھانا بہت شوق سے کھاتا ہے لیکن اسی کھانے کو وہ کسی بغیر وجہ یا تنبیہ کے مسترد بھی کردیتا ہے۔ بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ایسا چارٹ استعمال کریں جس میں ان کے قد اور وزن کی پیمائش عمر کے حساب سے درج ہو۔ جو بچے نارمل انداز میں بڑھ رہے ہیں ان کی غذا کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بچوں کو ان کے کھانے پینے کی عادت کے بارے میں کم عمری سے ہی آگاہ کرتے رہیں۔ اس بارے میں یہ سوچنا کہ ابھی اس بارے میں بچوں سے بات کرنا قبل از وقت ہے، بالکل غلط بات ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ اس کو صحت مند غذا کے بارے میں بتا کر اس کی صحت مند زندگی اور صحت مند مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
٭ نت نئی ڈشز آزمانے کے لیے اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
٭ بچے کو صحت مند اور متوازن غذا کھلائیں، میٹھے یا نمکین اسنیکس اور سوفٹ ڈرنکس وغیرہ میں کمی کردیں۔
٭ اپنے کھانے پینے کا وقت مقرررکھیں تاکہ دیر ہونے کی صورت میں بچہ کوئی ایسی چیز نہ کھائے جس سے اس کی بھوک مرجائے۔
٭ زیادہ مصالحہ دار، نمکین، مکھن سے بنا ہوا یا بہت زیادہ میٹھا کھانا بچے کو نہ دیں تاکہ آپ کا بچہ غیر متوازن غذاؤں کے ذائقے سے بچا رہے۔
——