حجاب کے نام

شرکاء

رسالہ پسند آیا
اگست کا شمارہ خوبصورت ٹائٹل اور مفید مضامین کے ساتھ دل خوش کرگیا۔ گوشۂ رمضان کے علاوہ افسانوں کا انتخاب بہت اچھا اور ذہن و فکر کو غوروفکر کی دعوت دینے والا تھا۔ افسانے اور کہانیاں انسان کے ذہن و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اور ادب میں یہ انتہائی مقبول اور کارآمد صنف ہے۔ باوجود اس کے کہ آج کل اچھے اور تعمیری افسانے لکھنے والوں کی قلت ہے آپ کا رسالہ قارئین کو صحت مند اور تعمیری ادب فراہم کررہا ہے۔
اس وقت مسلم خواتین میں بیداری اور اسلامی فہم و شعور پیدا کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ آپ کا رسالہ اس محاذ پر اچھی خدمت انجام دے رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ رسالہ ترقی کرے اور زیادہ سے زیادہ خواتین و طالبات تک پہنچے۔
ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ لڑکیوں کی تعلیمی رہنمائی کو بھی اپنا فریضہ تصور کرتے ہوئے ایسے مضامین شائع کریں جو ایک طرف تو کیریئر کے انتخاب میں ان کی رہنمائی کرسکیں دوسری طرف مطالعہ اور تعلیم کے میدان تکنیکی طور پر ان کے لیے مفید ہوں۔ مثال کے طور پر ہر ماہ کسی ایک موضوع پر مضمون شائع کریں۔ میتھمیٹکس میں بہت سے طلبہ کمزور ہوتے ہیں۔ کچھ اس سے گھبراتے ہیں۔ آپ اپنے مضامین کے ذریعہ اس مضمون کے طلبہ کو مفید مشورے دے سکتے ہیں تاکہ ان کے مسائل کا حل نکل آئے۔ اسی طرح تاریخ، جغرافیہ، انگریزی اور دیگر مضامین کے سلسلے میں مفید مشورے دیں۔ یہ تحریریں ان مضامین کے ماہر اساتذہ سے لکھوائیں۔ اس طرح رسالہ اور زیادہ مفید ہوسکے گا اور طلبہ و طالبات خاص طور پر اس کی طرف راغب ہوسکیں گے۔
علی امام، نئی دہلی
]علی امام صاحب! ہم تعلیم و کیرئر کے سلسلے میں مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ آپ کا مشورہ اچھا ہے۔ آئندہ ان شاء اللہ اس طرح کے مضامین بھی شائع کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایڈیٹر[
اردو اور مسلمانوں کی تعلیم
حجاب ماشاء اللہ بڑا ہی دلچسپ رسالہ ہے۔ یہ قارئین کو مفید معلومات توفراہم کرتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی اردو زبان کی خدمت بھی کررہا ہے۔ زبان کی مٹھاس اور اسلوبِ بیان آسان، دلچسپ اور سادہ ہے۔ اس طرح معمولی اردو جاننے والے لوگ بھی اس سے بھر پور استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس مراسلے کے ذریعہ اردو زبان کے سلسلے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔
اردو ہماری مادری زبان ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مادری زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم نہ دلواکر اندھادھند انگریزی کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔ کیا اس طرح ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت اور اسلامی تہذیب سے دور نہیں کررہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رجحان مستقبل میں ہماری نسلوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ میرا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ ہم دوسری زبانیں نہ سکھیں، بلکہ تہذیب و شائستگی کو زندہ رکھنے کی غرض سے اردو کو عام فہم کرنا اور زندہ رکھنا بھی ضروری ہے۔
اردو میڈیم سے تعلیم دلوانا اور قوم کو اردو سے آشنا کرانا وقت کی انتہائی اہم ترین ضرورت ہے اور بالخصوص لڑکیوں کے لیے اخلاق و تہذیب اور خانہ داری کو قائم رکھنے کی غرض سے اردو میڈیم میں تعلیم دلانا لازمی ہے اگر ہمارا سماج اور بچے اردو سے ناواقف و نابلد رہ جائیں گے تو یک لخت اپنے مذہب، اخلاق و ادب اور تہذیب کے بیش بہا خزانوں سے محروم رہ جائیں گے جو ہمارے لیے بدقسمتی کا باعث ہوگا اور اس لیے بھی کہ اسلامی لٹریچر کا بڑا ذخیرہ اردو زبان میں ہی موجود ہے۔
اردو زبان سے اگر اپنا رشتہ توڑ دیں گے تو خسارے میں رہیں گے کیونکہ ارد وزبان زبان ہی نہیں بلکہ زبان کے ساتھ تہذیب واخلاق کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔ ہم اردو کی گنگا جمنی تہذیب و خصوصیات کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتے اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہر زبان کے ساتھ رشتہ جوڑ لیتی ہے۔
دوسری بات مسلم سماج میں تعلیم سے بے توجہی کے سلسلے میں عرض کرنی ہے۔ اس وقت مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسروں سے بہت پیچھے ہیں یہ بات واضح ہوچکی ہے۔ سچر کمیٹی نے یہ سچ اجاگر کردیا ہے۔ مسلم اصحابِ فکر و نظر بجائے اس کے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں ملت میں تعلیمی ترقی کی کوئی منصوبہ بندی کرتے سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرانے کے لیے ناکام کوششوں میں مصروف ہیں، حالانکہ انہیں ملت میں بیداری اور ادارے قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔
ایسے میں بچوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ماں کی گود ہی بچوں کی پہلی درسگاہ ہے۔
محمد امین الدین، قاضیٔ شہر سیلو
]محترم امین صاحب! آپ کا مراسلہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ اردو اور قوم کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں فکرمند ہیں۔ اردو سے ہمیں بھی محبت ہے۔ مگر اندھی محبت نہیں ہے۔ دراصل زندہ قوموں کے لیے زبان بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
اب دیکھئے جب مسلمان علم کے میدان میں قیادت کررہے تھے تو ہر زبان ان کی اپنی زبان تھی۔ فارسی، عبرانی، یونانی یہاں تک کہ سنسکرت تک مسلمانوں نے سیکھی اور اس کے سرمائے سے استفادہ کیا۔ مگر بعد میں کیا ہوا ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اصل مسئلہ اردو یا انگریزی میں بچوں کو تعلیم دلوانے کا نہیں بلکہ مسلم بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کا ہے۔ اگر اردو میڈیم کے معیاری اسکول دستیاب ہوں تو کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی۔ بچے کو تعلیم مادری زبان میں ہی دی جائے یہ مسئلہ ماہرین تعلیم کے سوچنے کا ہے۔ ہم تو صرف تعلیم اور معیاری تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی لٹریچر کے اردو میں ہونے کی بات ہے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ لٹریچر عربی میں ہے اور وہ بنیادی زبان ہے۔ اسلامی لٹریچر آج اردو میں ہے تو کل انگریزی میں بھی ہوسکتا ہے، لیکن ارد و سے زیادہ عربی اس حیثیت سے اہم ہے۔ ایڈیٹر[
گرفت نامہ
قارئین کے لیے سوال نامہ دیکھا، پسند آیا۔ یہ سلسلہ بہت زبردست ہے جو آپ شروع کرنے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے حجاب کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اب میرے مشورے پر عمل آوری کی چنداں حاجت نہیں رہی، لہٰذا میں اپنی رائے واپس لیتا ہوں۔
اب میں آپ کی توجہ فرقان بجنوری کی غزل کے ایک مصرع کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ مصرع کچھ یوں ہے:
چاند ستاروں میں مطلق نہ تھی روشنی
میرا خیال ہے کہ ’’س‘‘ یہاں ثقالت پیدا کررہا ہے۔
ایک اور جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ ضمیر اعظمی صاحب کومشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی غزل کا مطلع پھر سے موزوں کریں۔ کیوں کہ مطلع میں ایک نہیں دو نقص ہیں۔
مصرع اول میں ’’بچا دیتا ہوں‘‘ خلافِ ادب معلوم ہوتا ہے۔ محاورہ تو ’’بچالینا‘‘ یا ’’بچا جانا‘‘ ہے۔ ’’بچا دیتا ہوں‘‘ شدت سے کھٹک رہا ہے۔
مصرع ثانی بھی کچھ عجیب سا ہے۔
جب بھی وہ آئے ہیں اک شمع جلادیتا ہوں
یہ کیا بات ہوئی۔ بھئی اگر پروانوں کی زد سے بچانا ہے تو شمع بجھانی پڑے گی شمع جلے گی تو پروانے تو آئیں گے ہی۔
اگر رومانوی اعتبار سے دیکھا جائے تو محبوب کی آمد پر شمع کا خود بخود جل اٹھنا یا پھر ہجر و فراق میں یادوں کی شمع جلانا تو قابلِ فہم ہے مگر آنے پر شمع جلانا سمجھ سے پرے ہے۔
ویسے ضمیر بھائی مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں کوئی نہ کوئی توجیہہ ہوگی ان کے پاس اگر وضاحت فرمادیں تو میرے علم میں اضافہ ہوگا۔
چلتے چلتے اور ایک بات یاد آئی۔ منصور اعجاز کی نظم ’’جنگل کی آزادی؟!‘‘ کو گوشۂ نوبہار میں جگہ دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا کیونکہ یہ نظم گوشۂ نو بہار کے لیے زیادہ موزوں تھی۔
حافظ محمد شاکر الاکرم، بلار شاہ، مہاراشٹر
]فرقان بجنوری کی غزل کے سلسلے میں معذرت ہے کہ وہ پروف کی غلطی ہے۔ ’جنگل کی آزادی‘ نظم ہم نے جان بوجھ کر گوشۂ نو بہار میںنہیں دی۔ ہمارے خیال میں وہ بامعنی نظم تھی جو بچوں کے لیے آسان نہ تھی۔[
شکایت
الحمدللہ حجاب پابندی سے مل رہا ہے۔ خوب سے خوب تر کرنے کی کاوش لائقِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی چند شکایتیں بھی نوٹ کرانا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ بغیر کسی اعلان کے رسالے کی قیمت بڑھا دی گئی، جبکہ صفحات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ نہ کوئی تنوع نظر آیا۔
الحمدللہ حجاب سے میری دلچسپی مرحوم مائل خیرآبادیؒ کے زمانے سے ہے۔ ان کی ادارت میں جو اچھوتی کہانیاں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اس کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ سچی اور سبق آموز کہانیاں جیسے ’’دوستی کاڈنک‘‘ وغیرہ۔ افسانوں سے زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔
امید کہ قیمت میں اضافے کے ساتھ صفحات میں بھی اضافہ فرمائیں گے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن خان،
علی گنج، لکھنؤ، یوپی
]شفیق صاحب! آپ کی شکایت کے بارے میں عرض ہے کہ ہم نے قیمت بغیر اعلان کے نہیں بڑھائی۔ جون کے اداریہ میں ان اسباب و عوامل کا تفصیلی ذکر ہے جنھوں نے ہمیں قیمت بڑھانے پر مجبور کیا۔ اور یہ قیمت ہم نے نفع بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ خسارہ کم کرنے کے لیے بڑھائی ہے۔ کاش آپ ہماری مجبوری سمجھ سکتے۔
مرحوم مائل صاحب کی صلاحیتوں سے ہمیں پرکھنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں شرمندگی ہوگی۔ وہ اپنے میدان کے ماہر شہسوار تھے اور ہم طالب علم۔ ہم رسالہ کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مسلسل متفکر ہیں۔ آپ مشورے تو دیجیے۔ ایڈیٹر[
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146