يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔‘‘
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے۔
اصلاح کا آغاز
ہر معاملے و ہر مسئلے میں قرآن ہمارے لیے بہترین رہنما ہے۔ گھر والوں یا دوسروں کی اصلاح کے کام کے لیے کیا ترتیب بنائی جائے یا اس کے لیے سب سے پہلے ضروری کام کیا ہے ؟ اس باب میں مذکورہ بالا آیت سے ہی یہ رہنما ضابطہ اخذ ہوتا ہے اور وہ اس طور پر کہ آیت میں اَنْفُسَكُمْ کو اَہْلِيْكُمْ پر مقدم کیا گیا ہے،یعنی اصلاح کے کام کی قرآنی ترتیب یہ ہے کہ پہلے اپنی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی فکر کی جائے، پھر اولاد ،گھر والوں یا دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی جائے۔ جیسا کہ اس آیت کی روشنی میں بعض بزرگ علمائے دین نے اصلاحی کوششوں میں اس ترتیب کو ملحوظ رکھنے پر خاص زور دیا ہے اور انھوں نے یہ تاثر بھی ظاہر کیا ہے: ’’ دیکھا بھی جاتا ہے کہ جس کو خود اپنی اصلاح کی فکر ہے اس کو اپنی اولاد و متعلقین کی تعلیم و تربیت کی بھی فکر ہے اور وہ اس کے لیے آسان بھی ہے‘‘ (شاہ وصی اللہؒ ، ’علم ترقی کا اہم ذریعہ ہے‘، دعوۃ الحق،اگست ۲۰۱۵ء،ص۴)۔ گویا جو شخص اپنے حالات کو سدھارنے میں سنجیدہ و سرگرم رہتا ہے اس کے لیے دوسروں کی اصلاح کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور یہ حقیقت تو اپنی جگہ مسلَّم ہے کہ اپنے کو سدھارنے کے بعد دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی جاتی ہے تو اس کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے: اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟‘‘
امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘(احیاء علوم الدین)
مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔
خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵ (الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے۔‘‘
اجتماع اہلِ خانہ کا انعقاد کیسے؟
رہا یہ مسئلہ کہ گھر میں تذکیری مجالس کیسے منعقد کی جائیں ؟ حقیقت یہ کہ ان کا انعقاد کچھ بھی مشکل نہیں۔ شکرِ الٰہی کہ ملک کی مروجہ زبا نوں میں قرآن و حدیث کے تراجم اور ان سے متعلق تفسیری و تشریحی کتب بہ کثرت دستیاب ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مختلف زبانوں میں کتب و رسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ تعلیم کے اس پروان چڑھتے ماحول میں شاید ہی کوئی گھر یا خاندان پڑھے لکھے افراد سے خالی ہو۔ قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرکے تذکیر کرنے میں اگر کچھ دشوار ی ہوتو متعلقہ کتابوں کی مدد سے یہ کام بآسانی کیاجاسکتا ہے ۔ جہاں تک ان مجالس کے لیے وقت فارغ کرنے کا سوال ہے،کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس ماحول میں جہاں بہت سے غیر ضروری یا بے مقصد کاموں کے لیے وقت کا بے دریغ استعمال ہو تا رہتا ہے، وہاں ہفتہ وار تذکیری پروگرام سے فیض یابی کے لیے یا آخرت کی تیاری کی خاطر آدھا،پون گھنٹہ وقت فارغ کرنا مشکل نہیں،بلکہ معمولی سی بات ہے۔ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کے لیے وقت فارغ کرنا بلاشبہ موجب خیر و برکت، وسیلۂ اجر عظیم اور باعثِ افادیت کثیرہ ہے۔ نیک کام و نیکی کمانے کی طلب ہو اور عزم و ارادہ ہو تو بتوفیقِ الٰہی مشکل سے مشکل کام آسان ہوجاتا ہے ۔ دوسرے یہ بھی پیش نظر رہے کہ روز مرہ زندگی سے متعلق اچھی باتیں بتانے اور نیک کاموں کی رغبت پیداکرنے کے لیے لیکچر و تقریریا وعظ ضروری نہیں۔ کون شخص ہے جو اس طرح کی کچھ باتوں سے واقف نہیں، اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، بات چیت کرتے یہ کام بآسانی کیا جاسکتا ہے.
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/6355/