[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا

پیکر سعادت معز، ہنمکنڈہ

امِ سلمہؓ کنیت۔ نام ہند تھا۔ آپ کے والد کا نام ابوامیہ تھا۔ جن کی سخاوت کا عام شہرہ تھا اور والدہ کا نام عاتکہ تھا جو قبیلہ بنی فراس سے تھیں۔

حضرت امِ سلمہؓ بہت نیک و پرہیزگار اور بڑی عبادت گزار خاتون تھیں۔ آپؓ مہینے میں تین دن، پیر، جمعرات، جمعہ بڑی پابندی سے روزہ رکھتی تھیں اور فرماتی تھیں حضورﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مہینے میں ان تین دن روزے رکھوں۔ آپؓ خود بھی سخی تھیں اور دوسروں کو بھی سخاوت کی طرف توجہ دلاتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓنے حضرت امِ سلمہؓ سے کہا کہ اماں! میرے پاس مال اتنا جمع ہوگیا ہے کہ اب تباہی کا ڈر ہے، بولیں:’’بیٹا اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو۔‘‘ حضرت امِ سلمہؓ کا نکاح پہلے حضرت عبداللہ بن عبدالاسد سے ہوا تھا۔ یہ آنحضرت ﷺ کے رضائی بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت امِّ سلمہؓ بھی ان مبارک ہستیوں میں ہیں جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کیا۔ عبداللہ بن عبدالاسد بھی اسلام قبول کرنے میںسابقین اولین میں سے تھے۔ وہ دس آدمیوں کے بعد مسلمان ہوئے یعنی گیارہویں مسلمان تھے۔ پہلے انھوں نے اپنی بیوی حضرت امِ سلمہؓ کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی۔ وہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام سلمہؓ رکھا۔ اسی کے نام سے باپ کی کنیت ابو سلمہ اور ماں کی کنیت امِّ سلمہؓ مشہور ہوگئی۔ حضرت ابو سلمہؓ بڑے بہادر اور دلیر تھے۔ غزوئہ احد میں ان کو زخم لگا تھا جو بعد میں اچھا ہوگیا تھا پھر ان کو حضور اقدس ﷺ نے ایک دستہ کا امیر بناکر بھیجا، اس سے واپس آئے تو وہ زخم ہرا ہوگیا اور اسی کے زہر سے جمادی الثانی ۴ ہجری میں وفات پائی۔ حضرت ابوسلمہؓ کی وفات کے وقت حضرت امِّ سلمہؓ حاملہ تھیں، بچی کے پیدا ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا، حضرت امِ سلمہؓ نے کہا میری ایک لڑکی ہے، پھر میں غیور بہت ہوں۔رسول اللہ ﷺ نے کہلوایا: ’’ہم ان کی لڑکی کے لیے دعا کریں گے کہ اللہ کو ان بیٹی کی طرف سے بے فکر کردے اور ان کی (غیر ضروری) غیرت دور کردے۔‘‘ (حضرت امِّ سلمہ راضی ہوگئیں) اور ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے ہوگیا۔ حضرت امِ سلمہؓ فرماتی ہیں اس دعا کے اثر سے اللہ تعالیٰ نے ابوسلمہ سے بہتر شوہر مجھے عطا کیا۔

حضرت امِ سلمہؓ کے علم و فضل کو بڑے بڑے عالم بھی مانتے تھے۔ چنانچہ محمدبن لبید فرماتے ہیں۔ یوں تو رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں آپؐ کی ساری بیویوں کو کثرت سے یاد تھیں لیکن حدیث کے علم میں حضرت عائشہؓ اور امِ سلمہؓ کی برابری ان میں کوئی نہ کرسکتی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ جیسے صحابہ کو جب مسئلے مسائل میں کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت امِ سلمہؓ سے پوچھتے۔ حضرت امِ سلمہؓ نے رسول اللہ کی تین سو اٹہتر(۳۷۸) حدیثیں لوگوںسے بیان کیں۔ حضرت امِ سلمہؓ آنحضرت ﷺ کے طرز پر قرآن پڑھا کرتی تھیں۔ حضرت امِ سلمہؓ کو رسول اللہ ﷺ سے بہت محبت تھی۔ آپ حضورﷺ کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ حضرت امِّ سلمہؓ کے غلام حضرت سفینہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امِ سلمہؓ نے مجھے اس شرط کے ساتھ آزاد کیا تھا کہ حضورﷺ کی خدمت میرے لیے ضروری ہوگی۔ حضرت امِّ سلمہؓ اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔ امِّ سلمہ کے پہلے شوہر ابو سلمہؓ سے تین بچے تھے۔ ایک لڑکا دو لڑکیاں۔ لڑکے کا نام عمر اور لڑکیوںکا نام دردہ اور دوسری کا نام زینب رکھا تھا۔ ایک دفعہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ابوسلمہؓ کے بچے کی پرورش کرتی ہوں اوران پر خرچ کرتی ہوں کیا اس کا مجھے ثواب ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں جو کچھ تم ان پر خرچ کرتی ہو تمہارے لیے اس میں ثواب ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے تو کفار نے آپؐ کو مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کفار سے ایک مدت کے لیے صلح کرلی۔ اس سال بغیر عمرہ کے واپس ہوگئے، صلح نامہ کی تکمیل کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اٹھو، قربانی کرو اور سر منڈاؤ۔‘‘( صحابہ کرامؓ کیونکہ اس قسم کی صلح سے بہت مغموم تھے اس لیے) انھوں نے کچھ توقف کیا (اس امید پر کہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنگ کرکے مکہ معظمہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے۔ صحابہ کرامؓ کے اس توقف کو رسول اللہ ﷺنے محسوس کیا)۔ آپ حضرت امِ سلمہؓ کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت امِّ سلمہؓ نے پوچھا: کیا آپؐ کی یہی مرضی ہے (کہ لوگ یہیں قربانی کریں اور احرام کھول دیں) اگر ایسا ہی ہے تو آپؐ باہر جاکر پہلے خود قربانی کریں، سرمنڈادیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ان کے مشورہ کو قبول کیا۔ آپؐ باہر تشریف لائے، قربانی کرکے سرمنڈا دیا۔ صحابہ کرامؓ نے جب یہ دیکھا تو مزید توقعات ختم ہوگئیں۔ لہٰذا انھوں نے بھی فوراً قربانی کی اور سرمنڈوادئے۔ حجۃ الوداع میں حضرت امِ سلمہؓ بھی رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھیں، اثنائے حج وہ بیمار ہوگئیں۔ انھوں نے حضوراکرمﷺ سے بیماری کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: تم سوار ہوکر طواف کرلو۔ حضرت امِّ سلمہ نے سوار ہوکر کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت امِّ سلمہؓ نے ہجرت کے ۶۳ سال بعد ۸۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپؓ کے جنازے کی نماز حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی۔ عبداللہ بن ابی امیہ اور عبداللہ بن وہب عمرو بن مسلمہ اور مسلمہ نے قبر میں اتارا۔ اور جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں