رحمتِ الٰہی کی وسعت

پروفیسر محمد یونس

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو نیکیاں اور برائیاں لکھنے کا حکم دیا، اس طرح کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک پوری نیکی شمار کرلیتا ہے، اور جو شخص نیکی کا اراد ہ کرکے اس پر عمل کرے اس کے حساب میں ایک نیکی کے بدلہ میں دس نیکیاں بلکہ سات سو نیکیاں اور اس سے بھی زیادہ لکھی جاتی ہیں، اور جو شخص برائی کاارادہ کرے اور برائی کو عمل میںنہ لاسکے (خدا کے خوف سے یا کسی اور وجہ سے) تو خداوند تعالیٰ اپنے ہاں اس کے حساب میں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے، اور جو شخص برائی کا ارادہ کرکے اس کو عمل میں بھی لائے تو صرف ایک برائی اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں بے مثال ہے اسی طرح اُس کی ہر صفت ازلی و ابدی اور لامحدود ہے۔ تاہم اُس کی صفتِ رحمت سب سے بڑھ کر ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

ورحمتی وسعت کل شیٔ۔ (الاعراف:۱۵۶)

’’میری رحمت وسیع ہے ہر شے پر۔‘‘

بخاری و مسلم کی مذکورہ حدیث بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے، اُس کے نامۂ اعمال میںایک نیکی کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اگرچہ وہ شخص اپنے ارادے پر عمل نہ کرسکے اور اگر وہ اپنے ارادے کے مطابق نیک کام کرلے تو اس کو دس نیکیوں کے برابر بلکہ سات سو یا سات سو سے بھی زیادہ نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص برائی کاارادہ کرتا ہے تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جاتی، بلکہ اگر وہ برائی کے ارادے پر عمل نہیں کرتا تو اُس کو ایک نیکی کا ثواب ملتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے برے ارادے کے مطابق برائی کر گزرے تو اس کے نامۂ اعمال میں صرف ایک ہی برائی درج کی جاتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا چاہتا ہے اور نیک کاموں پر زیادہ سے زیادہ ثواب دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جو کوئی ایک نیکی لاتا ہے اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو کوئی ایک برائی لاتا ہے تو اس کو بس اسی کی جزا ملے گی اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

(الانعام:۱۶۰)

جو شخص بڑا گناہ گار ہو، پھر اس کو ندامت ہو، توبہ کرے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز رہنے کاپختہ ارادہ کرکے اللہ کے حضور معافی چاہے، تو ایسے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس قدر برستی ہے کہ اُس کی برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔

’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا، اور اللہ تو بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘

(الفرقان:۷۰)

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت اُس نے جِن، انسان، چوپایوں اور زہریلے جانوروں میں بھیجی ہے، اس رحمت کے سبب سے وہ آپس میں پیار و محبت اور مہربانی کرتے ہیں، جبکہ ننانوے (۹۹) رحمتوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے اٹھا رکھا ہے کہ وہ ان سے اس دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔ (بخاری و مسلم)

صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا تھا، موت کے وقت اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میںمرجاؤں تو مجھے جلا دینا۔ پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی دریا میں بہا دینا۔ خدا کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جیسا دنیا میں پہلے کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب وہ بندہ مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی، پھر جنگل کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تونے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: پروردگار! تیرے خوف سے، اور تو یہ بات خوب جانتا ہے۔ اس پر اللہ نے اسے بخش دیا۔ (عن ابی ہریرہؓ) اگرچہ اس شخص کی وصیت غلط تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وجہ سے اسے بخش دیا جو اسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے تھا۔ پس اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتاہے اور اسی حقیقت کو سورئہ رحمن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’اور جو شخص اپنے پروردگار کے روبرو کھڑا ہونے سے ڈرا اس کو دو جنتیں ملیں گی۔‘‘

گویا اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت ہے، جتنی ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب ایک عورت کو اپنے بچے کے ساتھ والہانہ محبت کرتے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ہرگزنہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔‘‘ (صحیحین، عن عمر ابن الخطابؓ)

انسانوں کا پروردگار اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے، پھر بھی انسان اپنی بری روش، سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا مستحق بن جائے تو اس سے بڑی بدبختی اورمحرومی اور کیا ہوگی۔

جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا مطلق ذکر ہے وہاں یہ بات مسلّم ہوتی ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا وہ گناہ ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دو ٹوک انداز میں فرمادیا ہے کہ شرک اللہ کے نزدیک ناقابلِ بخشش گناہ ہے۔ پس کسی انسان کا اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور بخشش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہوجانا بھی عین ممکن ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146