شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات کا پیدا ہوجانا بالکل فطری اور ممکنات میں سے ہے۔ اوریہ اختلافات یا تو دونوں کو ایک خوش گوار اور پرامن شادی شدہ زندگی سے ہمکنار کردیتے ہیں یا پھر دونوں کی زندگی مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہوجاتی ہے۔ اگر گھر کا ماحول عفو و درگزر اور تحمل سے عبارت ہے تو زندگی امن و سکون کا گہوارہ ہوتی ہے لیکن اگر دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں کی تلاش میں رہتے ہیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
گزشتہ کالموں میں میں نے یہ بات لکھی تھی کہ شادی شدہ یا گھریلو زندگی کے مسائل کا کارگر علاج تحمل اور درگزر سے ہی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں مجھے ای میل کے ذریعے خط موصول ہوا ہے، جسے میں یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ شاید یہ خط کامیاب اور خوشحال شادی شدہ زندگی کے حصول میں ایک مفید سبق کا کام دے جائے۔ ذیل میں اس خط کو مختصر طور پر پیش کیاجارہا ہے۔
ایک شادی شدہ جوڑا خوشی خوشی رہ رہا تھا۔ شادی شدہ زندگی ایک صاف ستھری فضا کی مانند ہوتی ہے جس پر کبھی کبھی بادل، دھند یا غبار چھا جاتے ہیں جن کی وجہ سے گھریلو فضا یا زوجین کے مابین تعلقات میں دھندھلاہٹ آجاتی ہے۔ ایسا ہی اس جوڑے کے ساتھ بھی ہوا۔ صبح کے وقت شوہر ناشتے کی میز پر آکر بیٹھ گیا جہاں بیوی ناشتہ رکھ کر چلی گئی تھی۔ شوہر ابلا ہوا انڈا چھیلنے لگا لیکن اس کی نظریں بیوی کے قدموں کی طرف تھیں کہ وہ بھی میز پر آجائے تو اسی کے ساتھ ناشتہ کرے، لیکن وہ نہیں آئی۔ اس نے دودھ کا پیالہ اٹھایا تو دیکھا وہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ اس نے دودھ پینا بھی چاہا لیکن اسے خواہش نہیں تھی، اس لیے واپس رکھ دیا۔ کچھ اس لیے بھی کہ وہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ شوہر نے دوبارہ انڈا اٹھا کر کھانے کی کوشش کی لیکن وہ بیوی کی عدم موجودگی میں اسے بھی کھا نہ سکا۔ اس نے کچن کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ شاید وہ آجائے اور ہر روز کی طرح دونوں مل کر ناشتہ کریں۔ اس نے بیوی کو اپنی طرف آتے دیکھا، اس کے ہاتھ میں روٹی تھی۔ اس نے روٹی ٹیبل پر رکھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن ہمت نہ کرسکی اس لیے اٹھ کر چلی گئی۔ کیونکہ کل شوہر نے اس کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی تھی اور اس کے باوجود اب تک اپنی اس غلطی پر ندامت یا معافی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دراصل شوہر میاں کے بڑکپن نے اسے اپنی بیوی سے معافی مانگنے سے روک رکھا تھا۔
بیوی دوبارہ کچن میں چلی گئی اور وہاں رکھے ہوئے برتنوں کو دھونے لگی۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ اس نے باہری دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ سمجھ گئی کہ شوہر دفتر جانے کے لیے گھر سے نکل چکے ہیں۔ وہ ناشتے کی میز پر آئی تو دیکھا ناشتہ جوں کا توں رکھا ہوا ہے۔ شوہر نے نہ تو دودھ ہی پیا تھا اور نہ ہی انڈا کھایا تھا۔ بنا کچھ کھائے پئے ہی دفترچلے گئے۔ بیوی نے دل میں سوچا: ’’ظاہر ہے آپ تو یہی چاہتے ہیں کہ میں ہی آپ کے لیے انڈا چھیلوں اور روز کی طرح کاٹ کر اور نمک چھڑک کر آپ کو پیش کروں۔ لیکن آپ کو اس خدمت کا حق ہے ہی نہیں کیونکہ آپ کو نہ تو میری قدر ہے اور نہ ہی میری خدمت کا کوئی صلہ آپ کے پاس ہے۔ آپ میرے جذبات کو ٹھیس تو پہنچاسکتے ہیں لیکن اس پر مجھ سے معافی مانگ لینا آپ کی کسرِ شان ہے۔‘‘
بیوی اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ اب سونا چاہتی تھی، کیونکہ وہ ہمیشہ شوہر سے پہلے ہی سویرے اٹھ جایا کرتی ہے۔ پھر بچوں کو بیدار کرکے ان کے ناشتے اور لنچ کا انتظام کرتی ہے پھر ان کے بیگ تیار کرکے انھیں اسکول کے لیے روانہ کرتی ہے۔ شوہر کو دفتر کے لیے روانہ کرنے سے پہلے اس کا روز کا یہی معمول ہے۔
اس نے سونے کی کوشش کی لیکن سو نہ سکی تو خیالات کی رو میں لیٹی یہ سوچنے لگی کہ شوہر نے اس کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی ہے اس پر اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرے۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی اس لیے اٹھی اور ناشتے کی میز کی طرف بڑھی تاکہ اسے صاف کردے۔ اس وقت وہ رنج اور غصہ دونوں کیفیت سے دوچار تھی۔ اس کی نظر اچانک دو پھولوں پر پڑی۔ ان میں سے ایک سفید اور سرخ تھا۔ گلاب کے یہ دونوں پھول کاغذ کے ایک ٹکڑے پر رکھے ہوئے تھے، جس پر شوہر نے اپنی بیوی کے لیے کوئی پیغام لکھ رکھا تھا۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم — میری زندگی کا سب سے خوبصورت گلاب، میری محبوب ترین بیوی جو میری روح اور میرا دائمی پیا رہے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، مجھے کتنی تمنا تھی کہ تم آج بھی ہر روز کی طرح ناشتے پر میرے ساتھ ہوتیں، ناشتے کی میز پر تمھیں نہ پانے سے میں ناشتہ ہی نہیں کرسکا۔ میری کس قدر خواہش تھی میں آج بھی تمھاری اس مسکراہٹ کا دیدار کرسکتا جو ہر روز صبح کے وقت میرے دفتر کے لیے روانہ ہوتے وقت تمھارے چہرے پر نظر آتی ہے، لیکن جب میں اس سے محروم ہی رہا تو میں دفتر کے لیے چل پڑا لیکن دل بہت غم گین تھا۔ کیونکہ آج مجھے وہ خوشی نہیں مل سکی جو میری محبوب ترین ہستی کی خوبصورت ترین مسکراہٹ سے مجھے ملا کرتی تھی۔ تمہاری یہ مسکراہٹ ہی میری محبت اور شوق کا ذریعہ ہے۔ بلکہ میرے لیے تو یہ مسکراہٹ ایسے سامان کاکام کرتی ہے جس کی وجہ سے کام کے بوجھ اور پریشانیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کرلیتا ہوں۔ تمہاری مسکراہٹ مجھے عزم و حوصلہ دیتی ہے، میری ہمت باندھے رکھتی ہے۔ میری پیاری بیوی! میری محبوب رفیقِ حیات! مجھ سے تمہارے حق میں غلطی ہوئی اور پھر میں نے معافی بھی نہیںمانگی۔ دراصل اس وقت مجھ پر شیطان غالب آگیا تھا۔ میرا خیال ہے اس نے تمھیں بھی ورغلایا دیا تھا کیونکہ وہ دشمن تو ہم دونوں کا ہی ہے۔ البتہ اس نے پہل مجھ سے ہی کی۔ اس لیے ضروری بھی یہی تھا کہ میں پہلے تم سے معافی مانگتا۔ میرے دل کے تمام تر ارمان یہی ہیں کہ تم میرا عذر قبول کرکے مجھے معاف کردو۔
میری پیاری بیوی! جب تم کافی دیر تک ناشتے کی میز پر نہیں آئیں اور مجھے وہاں اکیلا چھوڑ کر کچن میں ہی بیٹھ رہیں، اس وقت میں نے شیطان پر غالب آنے کی کوشش کی اور چاہا کہ اٹھ کر تمہاری پیشانی کا بوسہ لوں اور تم سے معافی مانگ لوں۔ لیکن مجھے اعتراف ہے کہ شیطان دوبارہ مجھ پر غالب آگیا، اور مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد بس میں نے خود کو اس قابل ہی نہیں کرپایا کہ تم سے معافی مانگ لوں۔ شاید اللہ کو یہی منظور تھا، لیکن اب میں اس پر غالب آگیا ہوں۔ اسی لیے میں یہ رقعہ تمہارے لیے لکھ رہا ہوں۔ تم بھی میرے ساتھ مل کر میری مدد کرو تاکہ ہم دونوں ہی اس شیطان لعین پر غالب آجائیں۔ ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب تم میرا یہ معافی نامہ قبول کرلو۔ میری طرف سے سفید گلاب دراصل اس بات کی علامت ہے کہ میں تم سے درگزر اور معافی کا خواستگار ہوں۔ اور سرخ گلاب اس بات کا پیغام ہے کہ میں ہمیشہ تم سے محبت کرتا رہوں گا کیونکہ میرے لیے تمہارے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ شاید یہ چند الفاظ جو میں نے لکھے ہیں ہمارے لیے زندگی کا نیا صفحہ کھول دیں گے، جس پر ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت کا باب رقم کریں گے۔ کیا تم میرا معافی نامہ قبول کروگی تاکہ ہم ایک ساتھ مل کر شیطان کو مات دے سکیں؟!!‘‘
بیوی کی آنکھوں سے محبت کے موتی جھڑنے لگے۔ اس نے کاغذ کو سینے سے بھینچ کر اس کا بوسہ لیا۔ وہ روتی ہوئی بڑبڑارہی تھی۔ ’’میرے پیارے شوہر مجھے معاف کردیجیے۔‘‘ پھر وہ شہد کی مکھی کی طرح تیزی سے کچن کی طرف دوڑ پڑی۔ شوہر کے لیے اس کا پسندیدہ کھانا تیا رکیا، گھر کو خوبصورتی سے سجایا۔ گلاب کے پھولوں اور موم بتیوں سے اسے آراستہ کیا اور خوشبوؤں سے پورے گھر کو معطر کردیا۔ پھر دوپہر کے کھانے کے لیے شوہر کی راہ دیکھنے لگی۔ شوہر آئے تو خود کو آراستہ و پیراستہ کرکے ان کااستقبال کیا۔ شوہر جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئے تو دونوں نے ایک دوسرے کا استقبال مسکراہٹوں سے کیا، ایسی مسکراہٹ سے جس نے دونوں کی کدورتیں مٹادیں، دونوں کے دلوں کو گرمادیا۔ دونوں کی زبان حال محبت اور خوشی و مسرت کا ورد کررہی تھی۔
خط کا یہ پیغام ہر شوہر اور بیوی کے لیے اس بات کی دعوت ہے کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں خوشیوں کی بہار لائیں، اور آپسی مسائل اور تلخیوں کو درگزر اور تحمل سے حل کریں۔