رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیشہ اپنے سے چھوٹے لوگوں پر نظر رکھو اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس پر شکر ادا کرو۔‘‘ مطلب جتنی چادر ہو اتنے پیر پھیلاؤ جو کچھ ملے اس پر خوشی سے زندگی گزارو کیونکہ دوسروں کو دیکھ کر حرص کرنے اور جلتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے۔ ان کی بیوی نے ہر دن کے خرچ میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر کچھ میٹھی چیز تیار کی۔ جب وہ ان کے سامنے آئی تو پوچھا کہ ایسا کیسے ہوا؟ اس پر بیوی نے بتایا کہ میں روزانہ بیت المال سے ملنے والے اناج سے تھوڑا سا بچا لیتی تھی اور اب اس سے یہ مٹھائی تیار کی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے اس کامطلب ہے کہ ہم کم میں بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے بیت المال سے ملنے والی چیزوں میں اتنی ہی کمی کرادی۔ بسترِ مرگ پر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی فلاں زمین بیچ کر بیت المال کے وظیفہ کی ساری رقم واپس کردو تاکہ ملت کی خدمت بے لوث رہے۔ یہ اس شخصیت کی زندگی تھی جو رسول کے بعد خلیفہ بنائے گئے اور اسلامی ریاست کے حکمراں تھے۔
اکثر عورتیں اسی طرح کچھ نہ کچھ ضرور جوڑ کر اور بچا کر رکھتی ہیں تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے، یہ اچھی خوبی ہے۔ لیکن ایسی بھی عورتیں ہوتی ہیں جو گھر پھونک کر تماشہ دیکھتی ہیں۔ شوہر سے ہر وقت یہی رٹ لگائے ہوتی ہیں کہ آمدنی کم ہے گزارہ کیسے ہوگا، فلاں کو دیکھو اتنا خرچ کرتی ہے۔ اور اس کے گھر کی ایک ایک چیز گنواتی ہیں۔ یہ شوقین عورتیں جن کی نظر میں زندگی سوائے تماشے کے اور کچھ نہیں اپنی زندگی کو محض عیش و آرام کے لیے وقف تصور کرتی ہیں اور زندگی کے بلند تصور سے نا آشنا ہوتی ہیں، نتیجتاً ان کی زندگی میں ہمیشہ دکھ ہوتے ہیں۔ اور شکوے شکایات ان کا معمول بن جاتے ہیں۔ جس سے شوہر کی زندگی بھی دشوار ہوتی ہے اور گھر تنازعات اور جھگڑوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
ان کے شوہر سے تقاضے ہوتے ہیں کہ آمدنی بڑھاؤ تاکہ خرچ بڑھایا جاسکے۔ لیکن جہاں خرچ بڑھے گا وہا ںسے قناعت اور اطمینان و سکون ختم ہوجائے گا۔ خرچ ضروریات زندگی سے نہیں بڑھتا بے ضرورت چیزوں کی ہوس سے بڑھتا ہے۔ جو لوگ خوفِ خدا رکھتے ہوں ان کا انداز جدا ہوتا ہے۔ اگر خوفِ خدا نہ ہو تو لوگ حرص و ہوس، عیش پرستی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا اثر جہاں ہماری اُخروی زندگی پر پڑتا ہے وہیں ہماری دنیا وی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ باہمی تعلقات، رشتے ناطے، ازدواجی زندگی اور گھریلو تعلقات تناؤ اور بگاڑ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زندگی سے حقیقی مسرت اور سکون و اطمینان رخصت ہوجاتے ہیں۔
حضرت عمرؓ کا دورِ خلافت تھا۔ حضرت سعید بن عامر حمص کے گورنر تھے ان کو جو تنخواہ ملتی تھی چند درہم نکال کر باقی سب اللہ کی راہ میں بانٹ دیتے تھے، یہ حال سن کر فاروقِ اعظمؓ نے حضرت حبیب کو طلب فرمایا اور ان سے بات چیت کرکے ہزار درہم کی تھیلی ان کے حوالے کی۔ حضرت حبیب تھیلی لے کر حضرت سعید بن عامر کے مہمان ہوئے تو دیکھا کہ دسترخوان پر سوکھی روٹی اور زیتون کے تیل کے سوا او رکچھ نہیں تھا، یہ حال دیکھا تو انہیں ہزار درہم کی تھیلی پیش کی۔ تھیلی ہاتھ میں لے کر انھوںنے بڑے زور سے کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بیوی اپنے حجرے سے بولیں : خدا خیر کرے کیا ہوگیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا: ایک حادثہ ہوگیا ہے۔ بیوی نے پوچھا کیا بہت جانگسل ہے۔ ہاں قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ دولت گھر آئی ہے امیر المؤمنین نے ہزار درہم کی تھیلی بھجوائی ہے۔ بیوی بولیں: قیامت کا مرحلہ ہے لیکن کوئی بات نہیں صبح مجاہدوں کا جو دستہ ادھر سے گزرے گا اس کے حوالے کردینا۔
موجودہ زمانے میں بڑے بڑے عہدوں پر جو لوگ ہوتے ہیں ان کی بیویاں بڑی حریص ہوتی ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ رشوت خوری کا تمام کاروبار انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ شوہر کے عہدے سے فائدہ اٹھانا وہ خوب جانتی ہیں۔ حرام اور حلال کی تمیز سب سے پہلے انہی کے پاس سے اٹھ جاتی ہے۔ ایسی بیویاں شوہر کی گردن میں آگ کا طوق پہناتی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں برائیوں کو جنم دیتی ہیں، بے حیائی اور بدکرداری ان کی اولاد میں آتی ہے۔ اسلام سے ان کا رشتہ ظاہری ہوتا ہے۔ ان کا مال خیر پر کم حرام پر زیادہ خرچ ہوتا ہے۔
ہماری خواتین کو چاہیے کہ وہ تاریخِ اسلام کی عظیم خواتین اور دعوتِ دین کی جدوجہد میں ان کے کردار کا مطالعہ کریں۔ وہ دیکھیں گی کہ وہاں زندگی کا مقصد کس قدر عظیم تھا اور اس عظیم مقصد میں مال و دولت کی حرص کہیں نظر نہ آئے گی۔ اس لیے کہ مال و دولت سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں جبکہ صبرو قناعت اور اللہ کے لیے زندگی گزارنا انسان کی زندگی کو کامیابی کی راہ پر ڈالنے والے ہیں۔
——