ایثار کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دی جائے، خو دتکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام پہنچایا جائے،خود دکھ اٹھا کر بندگانِ خدا کو سکھ پہنچایا جائے۔ اپنی ضرورتیں روک کر دوسروں کی حاجتیں پوری کی جائیں۔ یہ صفت انسانیت کا جوہر اور شرافت کی روح ہے۔ مگر اس کا تعلق دنیاوی اور مادی چیزوں سے ہے۔
آخرت میں ثواب کے کاموں او رباتوں اور
نیکی و تقویٰ کے کاموں میں ایثار کے بجائے مسابقت ہونی چاہیے، رسول اللہ ﷺ کی اتبا ع اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں اور باتوں میں ہر ایک کو دوسرے سے آگے بڑھ جانے اور سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا کے فائدوں میں، دھن دولت کے حاصل کرنے میں زندگی کے اسباب استعمال کرنے میں غرض کہ مادّی چیزوں میں ایثار سے کام لینا چاہیے، بسا اوقات اپنی ضرورتوں کو تج کر دوسروں کی حاجتوں کو پورا کرنا چاہیے اور دین کی خاطر دنیا کے فائدوں کو چھوڑ دینا پڑے تو بے جھجھک انھیں چھوڑ دینا چاہیے۔
اسلام کے سچے پیروؤں اور دین کے علمبرداروں کی تاریخ ایثار سے پُر ہے۔ حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ایثار کے روشن میناروں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
’’اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہی طاری ہو۔‘‘ (الحشر)
یعنی صحابہ کرامؓ فاقہ اور تنگی کے باوجود دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہے۔ (یعنی صحابہ کرامؓ) خوشنودیِ رب کے لیے کھانے کی خواہش، رغبت اور ضرورت کے باوجود غریبوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھلا دیتے اور ان کا یہ عمل نیک اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔
احادیث میں آتا ہے:
’’ایک شخص حضورﷺ کے ہاں آیا آپؐ نے ازواجِ مطہرات کے ہاں سے کھانا طلب فرمایا، لیکن ہر ام المؤمنین کے ہاں سے جواب آیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے، سوائے پانی کے کچھ موجود نہیں ہے۔ تب آپﷺ نے فرمایا کون اس شخص کی مہمان نوازی کرے گا؟ ایک انصاری نے آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس شخص کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا بچوں کو بہلا کر سلا دو اور مہمان کے ساتھ کھانے بیٹھ جانا اورمہمان کھانا کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا غرض کہ کھانا مہمان کو کھلادیا اور سارا گھر فاقے سے رہا صبح کو حضورﷺ نے فرمایا: ’’تم نے جو کچھ اپنے مہمان کے ساتھ کیا یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک خاتون حضورﷺ کے واسطے اپنے ہاتھ سے تیار کی ہوئی ایک چادر لائیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے لائی ہوں۔ حضورﷺ کو ضرورت تھی لہٰذا آپؐ نے قبول فرمائی اور فوراً زیب تن فرماکر صحابہ کرامؓ کے سامنے تشریف لے آئے۔ ایک صاحب بولے کتنی اچھی ہے یہ چادر یا رسول اللہ! مجھے عنایت فرمادیجیے۔ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے، تہبند باندھ لیا اور چادر طلب کرنے والے شخص کو عنایت فرمادی۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور اللہ کے محبوب بندے تنگدستی اور فاقہ مستی میں بھی دوسروں کے ساتھ ایثار کرتے تھے۔ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے تھے۔ اپنے بیوی بچوں کو بھی ایثار کی عملاً تعلیم دیتے اور ان کی تربیت میں اپنا عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ حضورﷺ نے نہ صرف قرآن کے ذریعہ بلکہ اپنے قول وعمل سے بھی ایثار کے روشن منارے قائم فرمائے ہیں۔
——