ماں بہت فکر مند تھی کیونکہ ڈاکٹر نے مشورہ دیا تھا کہ ان کی سات سالہ بچی کا وزن کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کی عمر کو دیکھتے ہوئے اس کاوزن کہیں زیادہ تھا۔
بچوں کے موٹاپے سے متعلق بین الاقوامی رسالہ میں شائع ہوئے ایک مضمون کے مطابق دنیا میں زیادہ وزن رکھنے والے بچوں کی تعداد اس دہائی کے آخر تک بہت بڑھ جائے گی۔ اس چیز نے والدین اور اطباء میں سخت تشویش پیداکردی ہے، کیونکہ موٹاپا صحت پر برے اثرات مرتب کرتا اور مختلف قسم کی بیماریوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
ممبئی کے چلڈرن آرتھوپیٹک ہاسپٹل کی بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹرمادھوری سیٹھ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’’بچوں کے معیار صحت میں ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں بڑی تیزی سے کمی آئی ہے۔‘‘
ان کا خیال ہے کہ ویڈیو گیم، ایم پی ۳ پلیئر، اور غیر معیاری فاسٹ فوڈس کی متواتر خوراک پر اب اکثر والدین انحصار کرنے لگے ہیں۔ خاص طور پر شہری زندگی میں اس کا رواج بہت بڑھا ہے۔ اس چیز نے بچوں کے موٹاپے میں اضافہ کیا ہے اور یہ بیماری طرزِ زندگی کی تبدیلی کے سبب ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں نے اکثر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ وہ بچے موٹاپے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جن کے گھر کی آمدنی اچھی ہوتی ہے۔‘‘
فاسٹ فوڈس، ٹی وی دیکھنا، ویڈیو گیمس کا شوق بچوں کو سست اور کاہل بنادیتا ہے۔ باہر نکل کر کھیلنے یا جسمانی ورزش کے مواقع میسر نہ آنے کے نتیجے میں ہی بچوں میںموٹاپے کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ اس لیے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو جسمانی ورزش اور کھیل کود پر آمادہ کیا جائے اور اس کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ مگر دھیان رہے کہ ورزش اور کھیل کود کو بچوں پر زبردستی مسلط نہ کیا جائے بلکہ اسے دلچسپی اور خوش ہونے کا ذریعہ بنادیا جائے۔ چنانچہ بنگلور کی ایک خاتون جو دو بچوں کی ماں ہیں اور پیشے سے انجینئر ہیں کہتی ہیں: ’’بچے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے اگر ان پرورزش جیسی چیز باضابطہ طریقہ سے مسلط کردی جائے۔ اس لیے اس کو پر لطف بنانا والدین پر منحصر ہے۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کو ورزش کا عادی بنانا چاہیے۔ جب ان کے بچے چھوٹے تھے تو اپنے ہاتھ اورپیروں کو ہلاکر اور مسکراکر وہ اپنے بچوں کو لوریاں گاکر سنایا کرتی تھیں تاکہ وہ خوشی سے حرکت کا تعلق سمجھنا سیکھیں۔ اس طریقہ کار نے ان کے بچوں پر اچھا اثر مرتب کیا۔ ان کے دونوں بیٹے اچھے طالب علم کے ساتھ ساتھ اچھے کھلاڑی بھی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا ضلع کی سطح پر کرکٹ میں اپنے اسکول کی نمائندگی کرتا ہے۔
بچوں میں صحت اور فٹنس کے لیے کچھ ایسے طریقے یہاں پیش کیے جارہے ہیں جن سے جسمانی ورزش بچوں کے لیے دلچسپ اور پرلطف بنائی جاسکتی ہے۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ساتھ یہ والدین کی فٹنس کا بھی ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ بچے سب سے زیادہ اس وقت خوش ہوتے ہیں جب والدین یا ان میں سے کوئی ایک ان کے ساتھ کھیل رہا ہو۔
امریکہ کی ایک خاتون جو تدریس کے پیشہ سے جڑی ہیں اپنے بچوں کے سلسلہ میں بتاتی ہیں: ’’جب موسم خراب ہوتا تھا تو وہ بچوں میں چستی پھرتی برقرار رکھنے کے لیے کچھ خاص انتظام کرتی تھیں۔ جیسے پھسلنے اور چڑھنے کے لیے کوئی چیز، اسی طرح بارش کے دنوں میں جبکہ گھر سے نکلنا ناممکن ہوتا میں اپنے بچوں کے لیے وائننگ والی کرسیوںکو گھر میں قطار میں رکھتی، پھر بچے ٹریننگ میں کمانڈوز کی طرح پیٹ کے بل چلتے تھے۔ میں بھی اس گیم میں شریک ہوجاتی تھی کبھی حکم دینے والی افسر کی طرح اور کبھی بطور کمانڈو۔
دوسری چیز جو اسکول سے تعلیم یافتہ لوگ کرتے ہیں وہ ڈرامہ ہے۔ والدین اعلان کرتے ہیں کہ بچے ایک گاڑی ہیں۔ ہوائی جہاز کہہ لیجیے اور بچے کمرے کے چاروں طرف اپنے بازوؤں کو کھول کر اڑتے ہوئے اور اترتے ہوئے انداز میں جہاز کی سی آواز نکالتے ہیں۔ تصور سے کام لیجیے کیونکہ اس گیم کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں جیسا آپ کے بچے پسند کریں۔ جیسے کہ وہ موٹر سائیکل کا، پانی کا جہاز ہوسکتے ہیں اور یہاں تک کہ ہاتھی اور اونٹ بھی۔
ایک ماں بچوں کے ساتھ کھیلنے کے اپنے تجربے کو اس طرح بیان کرتی ہیں: ’’جس وقت آپ اپنے بچے کے ساتھ کھیلتے ہیں تو وہ ان کے لیے اور زیادہ پرلطف ہوجاتا ہے۔ جب میں ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ والدین کا بچوں کے ساتھ کھیلنا، بچوں کو ٹی وی اور ویڈیو گیم سے دور رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اپنے بچوں سے باہر آکر کھیلنے کے لیے نہ کہیں بلکہ خود جائیں اور ان کے ساتھ کھیلیں۔ ویڈیو گیم کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ یہ بچوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کھیل چکے ہیں اور مقابلہ کرکے جیت بھی چکے ہیں حالانکہ ان کے جسم نے ذرا بھی حرکت نہیں کی ہے، ٹی وی دیکھتے وقت بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ اسے دیکھتے دیکھتے بور اور سست ہوجاتے ہیں جس کے دوران چپس اور دوسری غیر صحت مند چیزیں کھاکر ختم کردیتے ہیں۔‘‘
ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ بچوں کو دوڑ بھاگ، سائیکل چلانے اور گھر سے باہر میدان میں جاکر کھیلنے کی تلقین کریں اور اگر بچے اس کے لیے ازخود آمادہ نہ ہوں تو ان کے ساتھ کھیلنے کا پروگرام بنائیں۔ مناسب اور صحت مند کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی فٹنس کی فکر انہیں مستقبل میں بہت سارے مسائل سے بچا سکتی ہے۔
بچوں کی نفسیات کے ماہرین سات سال کی عمر کے بعد بچوں کو اڈوانچر پروگراموں میں بھیجنے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔ جن میں چٹانوں پر چڑھنا، یوگا، برف پر چلنا، خود حفاظتی کے طریقے، ادا کاری کرنا، جیسی چیزیں سیکھتے ہیں۔ یہ پروگرام ہلکی پھلکی ٹیکنالوجی پر کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد بچوں میں مناظرِ فطرت اور طبعی مناظر میں دلچسپی بڑھانا ہے۔ بعض والدین خطرات اور اندیشوں کے سبب اس طرح کے پروگراموں میں اپنے بچوں کو بھیجنا پسند نہیں کرتے، اس طرح وہ بعض اہم چیزیں سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں، حالانکہ اگر بچے ان فطری مناظر اور حرکات کا تجربہ کرلیں تو ان کو ا س کا فائدہ ملے گا۔ عام طور پر اس طرح کے کیمپ مختلف سرگرمیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے یوگا، سیلف ڈیفینس، چٹانوں پر چڑھنا، آرٹ بنانا اور کچھ تخلیقی مشاغل جیسے ادا کاری اور دستکاری وغیرہ۔ اب تو شہری علاقوں میں مختلف تنظیمیں ایسی ہیں جو ایڈوانچر پروگرام چلاتی ہیں۔ اس سلسلہ کا لازمی کام یہ ہے کہ جس کیمپ کا آپ نے اپنے بچے کے لیے انتخاب کیا ہے اس کا حفاظت سے متعلق ریکارڈ اور دورانِ ایڈوانچر استعمال ہونے والی احتیاط اور حفاظت سے متعلق اطمینان کرلیجیے اور دیکھ لیجیے کہ کیمپ کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ڈاکٹر کو رکھا گیا ہے یا نہیں۔
کیمپ بچوں کے ذہن ودماغ میں کشادگی پیدا کرتا ہے۔ ان کے دائرۂ فکر کو وسیع کرتا ہے۔ نئی معلومات فراہم کرتا ہے اور بچے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو گیم سے آگے بھی کوئی دنیا ہے۔
۱۲؍سال تک زیادہ تر بچے خاص کھیل کے سلسلے میں اپنی پسند ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ چیز ان کی ورزش کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ اور ان کی صحت کی ضامن بھی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے بچے کھیل میں یکساں دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر ایسا ہے تو انہیں کسی خاص کھیل کے لیے مجبور کرنا مناسب نہیں ہاں اتنا کافی ہے کہ وہ چستی پھرتی رکھتے ہوں، غیرضروری موٹاپے کا شکار نہ ہوں اور طبیعت میں سستی و کاہلی نہ ہو۔ البتہ انہیں ہر کام میں اچھی کارکردگی کے لیے اکسایا جائے اور یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی جائے کہ ایک طالب علم کے لیے جہاں لکھنا پڑھنا اور اچھے نمبرحاصل کرنا ضروری ہے وہیں کھیل کود اور جسمانی فٹنس بھی اہم ہے۔ عملی طور پر اس عمر میں والدین جو خاص کام کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے کے لیے حد مقرر کردی جائے اور گیم اور کھیل میں شرکت کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
بچپن میں صحت کی فکر بیدار ہوجانا زندگی بھر کے لیے کھیل اور جسمانی سرگرمیوں کے تئیں محبت پیدا کردیتا ہے کھیل اور گیمس میں شرکت کے اصولوں کی پابندی جیت کے ساتھ ساتھ ہار کو برداشت کرنے کا حوصلہ کامیابی لگن اور ٹیم اسپرٹ پیدا ہوتی ہے۔