ایٹی

شبیب احمد کاف مرحوم

’’کون سا منہ لے کرجیوں سار؟ کس آس پر سانس لوں؟‘‘

بوڑھا ایٹی خون میں لت پت سڑک پر پڑا تھا اور میں گھٹنوں کے بل اس پر جھکا ہوا تھا۔

مجھے وہ دن یاد آیا جب پہلی بار میں نے ایٹی سے بات کی تھی۔ دوپہر کے تین بجے وہ میری دکان کے روبرو اپنی رکشہ کی سیٹ پر کہنی اور کہنی پر اپنا چہرہ رکھے سڑک کو گھورے جارہا تھا۔ کبھی لگتا وہ کسی سوچ میں غرق ہے۔ کبھی محسوس ہوتا یہی اس کا شغل ہے۔ میں اس کے جھریوں والے چہرے کو دیکھتا رہا۔

’’تم کتنے سالوں سے رکشہ کھینچ رہے ہو۔‘‘ میں نے اچانک اس سے پوچھ لیا۔

میرے سوال پر وہ چونکا، مجھے دیکھا، انگلیوں پر گنا اور کہا:

’’بیالیس سالوں سے سار! میرا نام ایٹی ہے۔‘‘ اس نے اونچے اونچے لوگوں کی طرح اپنا نام بتایا تھا۔ مجھے وہ اک دن پسند آگیا اور میں نے اس میں پوری دلچسپی دکھانی شروع کردی۔

’’اچھا! بیالیس سالوں سے یعنی آزادی سے بھی بہت پہلے سے تم یہ کام کررہے ہو؟‘‘

’’ہاں سار! بہت پہلے سے! جب اس مدراس میں ٹرامیںچلتی تھیں۔ یہ مونٹ روڈ ہے نا! اب چاہو تو دس منٹ لگیں گے اسے پار کرنے میں، پہلے ایسا نہیں تھا۔ دو چار فورڈ موٹریں آتی تھیں یا ملٹری کی تین چار لاریاں!‘‘

’’اتنی روشنی بھی نہیں تھی سار! — دور دور کھمبے تھے۔ آج کل کے رشتہ داروں کی طرح، کوئی مل جل کر رہنا نہیں چاہتا، پھر بہانہ یہ ہے کہ فاصلے میں محبت باقی رہتی ہے نا ۔ ڈھکوسلہ، کسی کو حصہ دار بنانا نہیں چاہتے خوشیوں میں۔ ایک ہی ماں، ایک ہی باپ کی اولاد ایک دوسرے سے دور بھاگتی ہے۔‘‘

ایک گاہک آگیا۔ میں دکان کے اندر پہنچ گیا ایٹی سے معذرت کے بغیر — گاہک کو نپٹا کر پندرہ بیس منٹوں بعد واپس ایٹی کے پاس آیا تو اس نے شکایت کی۔

’’میں آپ سے بول رہا تھا آپ چلے گئے سار۔‘‘ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

میں کھسیا گیا۔ اور کھسیاہٹ کو کم کرنے کے لیے پوچھا: ’’تم نے زندگی میں رکشہ چلانے کے علاوہ اور کوئی کام کیا ہے؟‘‘

’’ہاں، ہاں! آج سے پچپن سال پہلے میں نے نو سال ملٹری میں گزارے تھے۔‘‘

’’ملٹری میں۔‘‘ میں حیران تھا۔

’’ہاں سار! مدراس رجمنٹ بٹالین نمبر ایک میں میں ٹرک ڈرائیور تھا نو سال۔ برٹش لوگ اچھے تھے سار! بہت اچھے۔ ہم لوگوں کی طرح نہیں وہ ہر کام تہذیب سے کرتے تھے۔ ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ غلط کام بھی اس ڈھنگ سے کرتے کہ ہمارا جی بھی چاہتا کہ یہ غلط کام کریں۔ بڑا فن ہے سار!‘‘

’’تم پاگل تو نہیں ہو ایٹی… ‘‘ میری حیرانی عروج پر تھی۔ ’’ملٹری میں سروس کرکے تم رکشہ چلاتے ہو یا تم جھوٹ بول رہے ہو…‘‘

’’نو سر…‘‘ اچانک ایٹی تن کر کھڑا ہوگیا۔ لیکن وہ جسم کو سیدھا نہیں کرسکا تھا کہ کمر جھکی ہی رہی۔ اس نے دونوں پیر جوڑے، ہاتھ کو پیشانی تک لے گیا اور ایک زبردست سیلیوٹ مارا۔

میں ہنس پڑا ’’پھر تم ملٹری سے واپس کیوں آئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’مجھ میں ایک کمزوری تھی سار! گھر بہت یاد آتا تھا۔ میری اماں تھی، ابا تھے۔ بھائی اور بہنیں تھیں۔ پورے سات جان ہم۔ ایک میں اپنوں سے دور چلا گیا تھا۔ نو سال بعد ایک دن اچانک ہمارے لیفٹیننٹ جنرل نے سب کو کھڑا کیا اور پوچا تھا: ’’کون کون گھر جانا چاہتا ہے؟‘‘ میرے ساتھ بیس اور نے ہاتھ اٹھائے۔ ’’ٹھیک ہائے‘‘ لیفٹیننٹ بولا: ’’لیکن اب کی تم گھر جائے گا تو واپس نہیں آئے گا۔ منظور؟‘‘ میرے ساتھ پانچ اور کے علاوہ سبھوں نے ہاتھ نیچے گرادیے۔گھر آیا تو ماں نے بلائیں لیں اور دو مہینوں میں شادی کرڈالی اور پانچ سالوں بعد مر بھی گئی۔‘‘ مجھے احساس ہوا کہ ایٹی عام رکشے والوں کی طرح جو روازانہ شراب پیتے ہیں نشے میں بے سروپاکی ہانک رہا ہے۔ اس لیے میں نے پوچھا:

’’تم روزانہ کتنی شراب پیتے ہو؟‘‘

ایٹی نے مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا۔ اسے غصہ آگیا تھا۔ پر اس نے سر جھکالیا۔ چند لمحوں بعد اس نے کہا: ’’سار!قصور آپ کا نہیں ہے۔ ہم رکشے والوں کا ہے۔ آپ نے ٹھیک سوچا، لیکن سار! میں نے آج تک شراب نہیں پی؟ ملٹری کے وقت بھی نہیں۔ سرحدوں پر برف باری ہوتی تھی، سب پیتے تھے لیکن میں سگریٹ سے خود کو گرما لیتا تھا۔ آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ کوئی بات نہیں۔ آپ کی سوسائٹی کے لوگ ہم لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ بنگلوں، کاروں میں رہنے سے انسان بڑا ہوجاتا ہے، لیکن مجھے پتہ ہے، بنگلوں میں کیا ہوتا ہے، میں جاتا ہوں سار!‘‘

پھر وہ اپنی رکشہ بڑھا گیا تھا۔

مجھے افسوس ہوا کہ ایٹی کا دل دکھا ہے۔

دو چار دن وہ نظر نہیں آیا۔ اسے شاید غصہ آگیا تھا۔ روزانہ میری دکان کے روبرو کھڑا ہونے والا یوں غائب ہوجائے۔ زندگی میں پہلی بار میں نے نچلے طبقے والے ایک فرد سے ہمدردی محسوس کی تھی۔ میں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا کہ مجھ سے کم تر لوگ کس طور کی زندگی گزارتے ہیں۔ کتنے وقت کی کھاتے ہیں۔ ان کی سماجی زندگی کیسی ہے، وہ کس بات سے خوش ہوتے ہیں۔ کون سی چیز انھیں ناپسند ہے۔ ورنہ میرا تو معمول تھا کہ چھوٹی موٹی غلطیوں پر بھی ملازمین کو لتاڑتا رہتا۔ دو ایک تو روپڑتے تھے۔ اور انھیں روتا دیکھ کر میری تسکین ہوتی تھی۔ میں ایٹی کو تلاش کرتا رہا۔ ایک دن وہ مجھے چولا شیرئن کے پاس نظر آگیا۔ میں اس کے قریب گیا اور کہا:

’’ہیلو ایٹی! تم نظر نہیں آرہے ہو؟‘‘

میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔ وہ خوش تھا کہ میں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ اس نے کہا: کچھ نہیں سار! سواریاں ادھر ادھر کی مل رہی ہیں۔ خالی وقت بہت کم ملتا ہے۔‘‘

ایٹی جھوٹ بول رہا تھا۔ شاید مجھے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور پہلی بار مجھے یہ بھی لگا کہ ایٹی مجھ سے بڑا آدمی ہے۔ ’’آؤ دکان کے پاس، تم نے اپنی کہانی ادھوری چھوڑی ہے۔‘‘ میںنے کہا۔

’’ہاں سار! آؤ ںگا۔‘‘ ایٹی نے جواب دیا اور دوسری دوپہر میری دکان کے سامنے کھڑاتھا۔ میں نے اسے اندر بلالیا اور پوچھا: ’’کیا کھایا تم نے۔‘‘

’’دو بسکٹ اور چائے۔‘‘

’’بس اتنا ہی؟‘‘ میں متعجب تھا۔

’’ہاں سار! اتنا ہی۔ میں اتنا ہی کھاتا ہوں۔ آپ یہ بھی پوچھیں گے، پھر اتنی محنت کیسے کرلیتے ہو۔ ہمارے بچپن میں اماں جو کھلاتی تھیں۔ اس کا ہی اب تک چل رہا ہے۔ کھانے اصلی گھی کے، گھر سے باہر نکلتے وقت جیب میں بادام، سنا ہے آج کل ایک بادام میوزیم میں رکھا گیا ہے کہ آئندہ کی نسل دیکھے اور جانے بادام کیا ہوتا تھا۔‘‘

پھر وہ بات بھی تھی سار! ان دنوں کی غذا، بس غذا ہوتی تھی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ دو مہینوں میں فصل تیار، ایک ٹھوس بنیاد تھی، جس پر ہماری عمارت کھڑی ہوتی تھی۔ اپنا ہاتھ لائیے ادھر، میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے دھیرے سے دبایا، مجھے ایسا لگا کہ لوہا تھام لیا ہے میں نے۔

’’چائے پیوگے۔‘‘ ہاتھ چھڑاتے ہوئے میں نے پوچھا۔

’’پلائیے سار! اپنی جوانی میں ہم چائے کی جگہ دودھ پیتے تھے۔ صحیح معنوں میں دودھ، اب تو دودھ پینے کو جی نہیں چاہتا۔ دودھ پی کر خود کو دھوکہ کیوں دیں۔ خود کو پھسلائیں، چائے پی کر اطمینان تو رہتا ہے کہ اصلی چائے پی ہے۔‘‘

چائے کے دوران میں نے پوچھا: ’’ملٹری میں سروس کرنے کے بعد اچھی ملازمتیں مل جاتی ہیں۔ تمھیں نہیں ملی؟‘‘

ایٹی ہنسا ’’ملی تھی سار! بہت اچھی ملازمت۔ ٹرین کی پٹریوں کی جانچ کے لیے۔ ایک آفیسر چار پہیوں والی گاڑی میںبیٹھ جاتا ہے۔ چار آدمی اسے دھکیلتے جاتے ہیں، دور دور تک۔ یہی کام مجھے ملا تھا۔ یہ گاڑی دھکیلنے کا۔میں نے یہ ملازمت نہیں کی۔ رکشہ لے لیا۔ اب رکشہ پر بیٹھتا ہوں تو لگتا ہے میں آفیسر ہوں اور سڑک کی جانچ کررہا ہوں۔‘‘

لیکن ایٹی کیا تم نے یہ کام ٹھکرا کے بیوقوفی نہیں کی تھی۔ سرکاری ملازمت تھی۔ عمر گزرنے کے بعد پنشن ملتی۔ بڑھاپا آرام سے گزرتا۔ رکشہ چلاکے تم نے کیا پایا۔ بلکہ صرف گنوایا ہے۔ روپیہ بھی، عزت بھی، اپنا جسم بھی، برا مت مانو میری بات کا، میں سنبھل سنبھل کر بول رہا تھا۔

’’کیا بات کرتے ہو سار۔ وہ نوکری عزت کی تھی؟ غلامی تھی سار۔ پھر ریٹائرمنٹ پر حکومت کیا دیتی، آٹھ نو ہزار روپے۔ پنشن کتنی ملتی۔ سوسوا سے روپے۔ آپ کیا جانیں سار! آپ نہیں جانتے میں نے کتنی شاہانہ زندگی گزاری ہے۔ آپ اور آپ جیسے لوگ اوپر اوپر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ چند اچھے کپڑے، چند چکنے چہرے، اور آپ لوگ قربان ہوجاتے ہیں۔‘‘ میں دم بخود تھا۔ یہ ایٹی ہے۔ رکشہ والا، بوڑھا منحنی سا، ضعیف العمر۔

ایک دن ایٹی بلائے بغیر دکان کے اندر آگیا بولا: ’’چائے پلاؤ سار۔‘‘ پھر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں نے چائے منگوائی چائے پیتے پیتے اس نے کہا:

’’مجھے پانچ بچے ہوئے سار!‘‘ تین لڑکے اور دولڑکیاں۔ ایک لڑکی اور تین لڑکوں کی شادیاں کردی ہیں میں نے ، دو لڑکے بہت چالاک ہیں۔ پیتل کے برتنوں کی دکان میںکام کرتے کرتے انھوں نے الگ اپنی دکان کرلی۔ تیسرا لڑکا آفس میں کام کرتا ہے۔ میرا داماد ڈاکیہ ہے۔ آخری لڑکی…‘‘

میرا دماغ قلا بازیاں کھا رہا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ پہلے کبھی اس نے کہا تھا کہ راتوں میں وہ سڑک پر سوجاتا ہے۔ اب یہ دکان دار بیٹوں اور ڈاکیے داماد کی بات کررہا تھا۔ آج جھوٹ بول رہا ہے یا پہلے اڑا گیا تھا۔ سمجھ میں نہیںآیا ۔ میں نے پوچھا:’’لیکن ایٹی! پہلے تم نے کہا تھا تم گھر پر نہیں رہتے۔‘‘

’’ٹھیک ہی کہا تھا سار! آج بھی وہی کرتا ہوں۔ کوئی لڑکا مجھے گھر میں گھسنے نہیں دیتا۔ ان کی بیویوں پر الزام نہیں دوں گا۔ مہینے گزرجاتے، کبھی بیٹوں کو دیکھنے کا دل کرتا تو ان کے روبرو کھڑا ہوجاتا اور دیر تک دیکھتا رہتا۔ مجھے کھڑا پاکر وہ انجان بن جاتے۔ کبھی اندر نہیں بلاتے۔ پاس نہیں بٹھاتے۔ سوسائٹی اونچی ہوگئی ہے نا! انھوں نے کہا تھا کہ میں رکشہ چھوڑدوں۔ میں نے ان کی بات مانی، لیکن مجھے گھر میں باپ کی طرح نہیں، بیل کی مانند رکھا گیا تھا۔ بس ایک بار جو میں گھر سے نکلا پھر واپس نہیں ہوا۔ آج تک نہیں سار، آج تک نہیں … آج…‘‘

اس کی آواز رندھ گئی تھی۔وہ صوفے پر سرٹکائے، آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو اس کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔ کتنی دیر تک وہ یونہی بیٹھا رہا۔

’’ایٹی‘‘ میں نے اسے پکارا۔

’’ہاں سار! ساری سار!‘‘ وہ چونک پڑا۔ آنکھیں پونچھیںاور تھوڑی دیر بعد بولا: ’’کتنا بدل گیا ہے زمانہ۔ ہمارے وقتوں میں تعظیم ماں باپ پر ختم ہوتی تھی۔ آج … ماں باپ سے تذلیل کا آغاز کیا جاتا ہے…‘‘

وہ رکا، خود کو سنبھال رہا تھا وہ۔

’’کتنی خواہشی ہوتی ہے سار! گھر میں رہوں۔ پوتے پوتیوں سے کھیلوں، انھیں کاندھے پر بٹھاؤں۔ لیکن … میں نے اولاد نہیںکتّے جنے ہیں۔ کتنا ذلیل کیا انھوں نے مجھے۔

بڑی لڑکی کبھی کبھار ڈھونڈتی ہوئی آتی ہے میرے پاس۔ وہ بہت غریب ہے۔ آپ پوچھیں گے۔ بیٹی کے پاس کیوں نہیں رہتا میں۔ سار! بیٹی کے گھر میں رہنا عجب ہے نا…؟‘‘

وہ رک گیا، کچھ اور کہنا چاہتا تھا۔ شاید زندگی کا سارا بوجھ اتار دینا چاہتا تھا۔ پھر وہ یکایک دھاڑیں مار مار کہ رونے لگا۔ میں پریشان ہوگیا۔ میں نے اسے دلا سادیا۔

’’چپ ہوجاؤ ایٹی۔ تم اتنی عمر کے ہوکر بچوں کی طرح رو رہے ہو۔‘‘ وہ دھاڑوں کے درمیان بولا۔

’’نہیں سار! آپ لوگوں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ آپ لوگ بڑے ہیں۔‘‘ … وہ ہذیان بکتا رہا۔ میں پتھر کا چہرہ کیے اسے دیکھتا رہا۔ پھر وہ چپ ہوگیا۔

معاً مجھے یاد آیا کہ اپنی آخری بیٹی کے بارے میں اُس نے کچھ کہا نہیں تھا۔ میں نے سوچا اس کا ذکر شاید اسے کچھ تسلی دے جائے۔ سنبھل جائے۔ پوچھا: ’’تمہاری چھوٹی لڑکی کہاں ہے ایٹی؟‘‘

اور اس کے چہرے پر تھوڑی سی چمک آئی۔

’’سار! وہ آٹھویں جماعت میں تھی کہ کرسچین لوگ میرے پاس آئے۔ بولے اسے آگے پڑھائیں گے۔ انھوں نے کہا کھانا پینا مفت رہنا مفت۔ اور شادی بھی کرائیں گے۔ اس کے بدلے میں بچی کو کرسچین بنانا ہوگا۔ سار میں دسویں سے آگے اسے پڑھا نہیں سکتا۔ پھر اس کی حفاظت اور شادی؟ دو سوال تھے۔ میرے آگے بڑے بڑے سوال۔

میں نے بڑی بیٹی سے پوچھا جس کے پاس وہ رہ رہی تھی۔ اس نے تائید کی اور میںنے اسے کرسچین لوگوں کے حوالے کردیا۔اب وہ کوئن میری میں بی، اے کے دوسرے سال میں ہے۔ پندرہ روز میں ایک بار مل آتا ہوں۔ بہت خوبصورت ہوگئی ہے میری بچی۔‘‘ قدرے توقف کے بعد وہ بولا: ’’ایک سال کے بعد اس کی شادی ہوجائے گی سار! آپ کو بھی آنا ہوگا۔‘‘

’’ہاں! ایٹی ضرور آئیں گے۔‘ میں نے کہا۔ اپنی لڑکی کے اس ذکر سے شاید وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ اس نے مجھ سے اجازت لی۔

بعد کے کئی مہینے ایٹی مجھے نظر نہیں آیا۔ دو ایک بار کہیں ملتا۔ دور سے ہاتھ ہلاتا اور چل دیتا۔ ایک شام میری دکان کے سامنے دکھائی دیا۔ اپنی رکشہ میں بیٹھا تھا خود کو سمیٹے، سکیڑے آسمان کو تک رہا تھا۔ میں نے اسے آواز دی۔ پر وہ متوجہ نہیں ہوا۔ میں نے تالی بجائی۔ پھر بھی اس کا دھیان میری جانب نہیں ہوا۔ عجیب بات تھی۔ میں نے سڑک پار کی اور اس کے قریب پہنچا اور اس کا شانہ پکڑ کر ہلایا۔

’’کیا بات ہے ایٹی! کہاں تھے اتنے دن، اور ایسے کیوں لیٹے ہو۔ آؤ دکان میں آؤ۔‘‘ میں نے کہا۔

دو لمحوں کے لیے اس نے مجھے دیکھا۔ پھر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ کالا کالا ضرور تھا۔

’’بات کیا ہے! مجھے بتاؤ بھی۔ کیا ہوا ہے۔‘‘ میں نے اس کے دونوں شانے پکڑ کر اسے ہلا ڈالا۔ اور تب اس کے ہونٹوں کا قفل کھلا۔

’’سار! میری بیٹی کسی چھوکرے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔‘‘

آسمان سے اٹھا کر کسی نے مجھے زمین کی طرف پھینک دیا۔ میں قلا بازیاں کھاتا نیچے آگرا۔ مجھے چکر آنے لگے۔ بڑی مشکل سے اپنی دکان تک پہنچا۔ ایٹی سے آگے کچھ پوچھے بغیر۔ ابھی ذہن سنبھلا بھی نہیں تھا کہ سڑک پر کسی ہنگامے نے مجھے وہاں دیکھنے پر مجبور کیا جہاں تھوڑی دیر قبل ایٹی کو چھوڑ آیا تھا۔

ایٹی ایک ٹرک کے پہئے کی زد میں آگیا اور خون میں لت پت تھا۔ میں ایک ہی چھلانگ میں اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس کاخون آلود ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ’’یہ تم نے کیا کرلیا ایٹی۔‘‘

’’اب کون سا منہ لے کر جیوں سار! کس آس پر سانس لوں؟‘‘ پھر اس کے ہونٹ بند ہوگئے۔ میں کھڑا تھرتھر کانپتا سوچتا رہا، اپنی عزت مٹی میں ملنے کے بعد ایٹی نے خود کشی کرلی۔

اور ادھر

میری بیٹی بھی پچھلے اٹھارہ مہینوں سے گھر سے غائب تھی، میں نے خود کشی کیوں نہیں کی؟ لیکن پھر میں یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا، میرے پاس تو سب کچھ ہے، دولت ہے، گھر ہے، شہرت ہے، ایٹی کے پاس کیا تھا، سوائے عزت کے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146