نبیﷺ انقلابی تعلیمات کا اساسی نقطہ توحید تھا، یہ حیات بخش اور انسانیت ساز پیغام انبیاء کی وساطت سے انسانوں کو نصیب ہوتا رہا ہے آپ نے بھی یہی پیغام دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف ایک چوکھٹ پر سرنگوں ہو اور بے حس و حرکت اور بے جان مردہ چیزوں کے بجائے اس ذاتِ گرامی کے آگے جھکے جو زندہ و قائم ہے۔ اس کے سوا اور کوئی نہیں جو اپنے اندر معبودیت کی شان رکھتا ہو جو پوجے جانے اور اطاعت کیے جانے کا مستحق ہو جسے ولی اور کارساز سمجھا جائے، جس سے دعائیں مانگی جائیں، حاجتیں طلب کی جائیں، جس سے امیدیں وابستہ کی جائیں اور جس سے حقیقی محبت رکھی جائے۔ صرف وہی ہے جو نفع اور نقصان پہنچاسکتا ہے اور وہی ہے جو کسی کے لیے قانون بنانے اور اپنا حکم چلانے کا حق رکھتا ہے اور وہی ہے جس پر توکل کیا جائے۔ قرآن حکیم میں اللہ نے فرمایا:
’’لوگو!اپنے اس پروردگار کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا۔‘‘ (البقرۃ)
اہلِ کتاب سے کہا:
’’اے کتاب والو! آؤ ہم تم اس بات پر عملاً متحد ہوجائیں جس میں ہم تم عقیدہ میں متفق ہیں کہ ہم خدائے برحق کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں۔‘‘
(آل عمران)
نبوت محمدی کے اس پیغام نے دنیا کے تمام باطل معبودوں کو باہر نکال کر پھینک دیا، صرف اس ایک خدا کے سامنے خدا کی تمام مخلوقات کی گردنیں جھکا دیں۔ جو حقیقت میں پوری کائنات کا خالق ہے۔
اس خالص، بے آمیز اور حیات بخش عقیدہ توحید کی تعلیم نے انسانوں کو ایک نئی قوت، حوصلے اور اعتماد سے بھردیا۔ ان میں نئی شجاعت اور نئی وحدت پیدا ہوئی، وہ ہر طرح کے بے جا خوف ورجا اور ہر طرح کے انتشار سے محفوظ ہوگئے۔ اس عقیدہ نے انہیں وسعت فکرونظر عطا کی، خودداری اور عزتِ نفس کا ادراک پیدا کیا، عجزو انکساری کی خوبی سے نوازا، نفس کی پاکیزگی اور عمل کی نیکی سے آراستہ کیا۔ صبر و توکل کی زبردست قوت سے ہمکنار کیا۔
حضور نبی کریم ﷺ کا دوسرا انقلاب آفریں اقدام یہ ہے کہ انھوں نے وحدتِ انسانی کاعظیم تصور پیش کیا، انسانیت جو مختلف قبیلوں، برادریوں، قوموں اور گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ آقاؤں اور غلاموں کے فرق نے بندگانِ خدا کو ایک دردناک عذاب میں مبتلا کررکھا تھا۔ آپﷺ نے انسانی مساوات کا حیرت انگیز اعلان کرکے ان تمام تر تعصبات کے بتوں کو پاش پاش کردیا۔ فرمایا:
’’لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، تم سب اولادِ آدم ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ پاکباز ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔‘‘ (کنز الایمان)
رحمۃللعالمینﷺ کا انسانیت پر ایک اہم احسان یہ بھی ہے کہ آپؐ نے انسان کی قدروقیمت اور تکریم کا نہایت اعلیٰ تصور پیش کیا، ایک ایسے دور میں کہ جب انسانی وجود بے قیمت اور بے حقیقت ہوکر رہ گیا تھا۔ حیوانات و نباتات کو انسانوں پر فوقیت دی جارہی تھی اور ان کے خون اور گوشت کے چڑھاوے چڑھائے جارہے تھے اور انھیں غلام بناکر ظلم کا شکار بنایا جارہا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانوں کے دل و دماغ پر یہ نقش بٹھا دیا کہ انسان اس کائنات ہستی کا نہایت ہی قابلِ قدر اثاثہ ہے اللہ نے اسے خلافت کی قبا پہنائی ہے اور یہ اس کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور وہ اشرف المخلوقات ہے۔ قرآنِ حکیم نے کہا:
’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔‘‘ (الاسراء: ۷۰)
آپؐ نے فرمایا:’’پوری انسانیت خدا کا کنبہ ہے اور خدا کا اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس کو آرام پہنچائے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
بعثتِ محمدی کے وقت نوع انسانی کے اکثر افراد کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ وہ فطرتِ انسانی سے بدگمان اور اللہ کی رحمت سے مایوس تھے۔ آپؐ نے ایسے ماحول میں اعلان فرمایا کہ ہر آدمی اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اچھے یا برے عمل سے اپنی دنیا سنوارتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی ہے۔ ’’یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے، جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ (النجم:۳۸-۴۱)
حضور نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنی کوتاہ نظری اور نفس و شیطان کی تربیت سے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے مگر جب اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے ندامت کا اظہار کرتا ہے اور اپنے رب سے معافی چاہتا ہے تو اس کا رب اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے معاف کردیتا ہے:
آپؐ نے مایوس اور شکستہ دلوں کو تصور توبہ کے اعلان سے ایک سہارا دیا اور ان میں اعتماد کو بحال کیا۔ قرآن حکیم نے خدائے رحمان کی رحمتوں اور غفاریت کو بڑے دل نواز انداز میں اور بارباربیان کیا۔ فرمایا: ’’کہہ دیجیے! اے میرے وہ بندو جنھوں نے اپنے حق میں زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر: ۵۳)
محسنِ اعظم ﷺ کا نوع بشری پر ایک عظیم احسان یہ ہے کہ آپؐ نے دین و دنیا کی وحدت کا تصور پیش کیا اور دونوں کو ایک ایسی اکائی قرار دیا جن میں باہمی اختلاف نہیں۔ مولانا ابوالحسن ندویؒ کے الفاظ میں:
’’دین و شریعت کی زبان میں نہ کوئی چیز ’دنیا‘ ہے اور نہ کوئی چیز ’دین‘ اس کے نزدیک خدا کی رضا کی طلب اخلاص اور اس کے حکم کی تعمیل کے جذبہ و ارادہ سے بڑا سے بڑا دنیاوی عمل یہاں تک کہ حکومت، جنگ دنیاوی نعمتوں سے تمتع، نفس کے تقاضوں کی تکمیل، حصولِ معاش کی جدوجہد، جائز تفریح طبع کا سامان، ازدواجی و عائلی زندگی، سب اعلیٰ درجہ کی عبادت، تقرب الی اللہ کا ذریعہ، اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب ولایت تک پہنچنے کا وسیلہ اور خالص دین بن جاتی ہے اس کے برخلاف بڑی سے بڑی عبادت اور دینی کام جو رضائے الٰہی کے مقصد اور اطاعت کے جذبہ سے خالی ہو (حتیٰ کہ فرض عبادتیں، ہجرت و جہاد، قربانی اور سرفروشی اور ذکر و تسبیح) خالص دنیا او رایسا عمل شمار ہوگا جس پر کوئی ثواب اور اجر نہیں ہے۔‘‘ (نبی رحمت ، ص:۶۳۰)
زندگی کی ایک واضح سمت متعین کرنا اور نوعِ انسانی کو ان کی حقیقی منزل سے آگاہ کرنا حضور نبی کریم ﷺ کا ایک نہایت اہم کارنامہ ہے، تربیت و تزکیہ کے ایک مؤثر نظام کی تشکیل جس کے نتیجہ میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آیا آپؐ ہی کی مسلسل جدوجہد اور کاوشوں کا رہینِ منت ہے۔ حضورﷺ جس دور میں مبعوث ہوئے اس میں انسانوں کی تمام تر ذہانت و ذکاوت کا نقطہ کمال یہ تھا کہ مال و دولت کے انبار جمع کیے جائیں، زیادہ سے زیادہ رقبہ زمین پر قابض ہوا جائے اور قوت و طاقت اور اقتدار حاصل کیا جائے۔
نبی محترم نے انہیں خود شناسی، و خودنگری اور خدا شناسی کی معرفت عطا کی اور بتایا کہ آدمیت کا کمال، ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز ہونے اور اپنے بھائی بندوں کی خدمت اور ایثار و قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں ہے۔
سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اوراے پیغمبر! ہم نے تجھے نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہو۔‘‘ (الانبیا:۱۰۷)
یعنی نبی کریم ﷺ کی بعثت دراصل نوعِ انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے کیوں کہ آپؐ نے آکرغفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکا دیا اور اسے وہ علم دیا جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے اور بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتادیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کون سی ہے اور سلامتی کی راہ کون سی۔
حضور نبی مکرم کسی ایک ٹکڑے، گوشے، گروہ اور قوم کے لیے ہی رحمت بناکر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ تمام نوعِ انسانی کے لیے، مشرق و مغرب کے لیے اور اسود و احمر کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمائے گئے تھے۔ سورۃ الاعراف میں اس ذاتِ اقدس کی رحمۃ للعالمینی کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:
’’وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا، پسندیدہ چیزوں کو حلال کرے گا، گندی چیزوں کو حرام ٹھہرائے گا، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے۔ اور ان پھندوں سے نکالے گا جس میں گرفتار ہوں گے۔‘‘ (الاعراف)
اس آیتِ کریمہ کے ضمن میں مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں:
’’قبل بعثت کیا انسانی گردنوں میں طرح طرح کے پھندے، ان کے پاؤں میں قسم قسم کی بیڑیاں نہیں پڑتی ہوئی تھیں، نسلِ انسانی کیا رنگ برنگ کی جکڑ بندیوںمیں جکڑی ہوئی نہ تھی، ایسی کہ ان کی کمریں دو تہہ ہوئی جاتی تھیں اور اس وقت انسانی کاندھوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے کیا انھوں نے ان کی زندگی کو تلخ نہیں بناڈالا تھا، قانون کے جو پھندے ان کی گردنوں میں یا مذہبی آستانوں کے جو حلقے ان کے جسموں میں لپٹے ہوئے تھے کیا ان سے ان کی جسمانی و روحانی تشکیل پامال نہیں ہورہی تھی؟ ہاں ایسا ہی تھا اس وقت کی صدہا اقسام کی مذہبی جکڑ بندیاں ایک لعنت بن کر نسلِ انسانی و نوع بشری کے ساتھ چپک گئی تھیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کا خون ہورہا تھا۔ اس عالم یاس و آہ میں سرزمینِ مکہ سے ایک آواز بلند ہوتی ہے جو طالبانِ نجات کے لیے وجہ نجات ثابت ہوتی ہے