رسولؐ سے محبت کا تقاضہ

ماہ رخ بنت محمد یونس

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ نبیؐ کی ذات اقدس نہ صرف یہ کہ عالم کی تمام برگزیدہ شخصیتوں سے افضل ہے، بلکہ رسولؐ کی شخصیت ہی وہ واحد شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ لائقِ احترام، قابلِ اتباع اور مرکزِ عقیدت و محبت ہے۔ نوعِ انسانی پر سب سے زیادہ رحمتوں کا نزول آپؐ ہی کے باعث ہوا۔ آپؐ کی ذاتِ گرامی سے ہی انسانیت کے لٹے ہوئے قافلہ کو اخلاق و کردار کا اعلیٰ پیمانہ ملا۔ نوعِ انسانی کے نجات دہندہ کی حیثیت سے رسولؐ نے وہ عظیم اور گراں بار ذمہ داریاں اور فرائض انجام دیے ہیں کہ انسانیت تا قیامت آپؐ کی مرہونِ منت رہے گی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ رسولؐ سے محبت کا جو تقاضا ہے اس امت کی اکثریت اس سے غافل ہے۔ دعویِ محبت کے ساتھ دلیل محبت یعنی اتباعِ سنت ناپید ہے۔ محض چند ظاہری حرکات و سکنات کو حتیٰ کہ بدعات کو بھی دین اور شریعت کا منشا اور محبت کا تقاضا سمجھ لیا گیا ہے۔ شریعت کی حقیقی ذمہ داریوں سے صرف نظر کرکے مبالغہ آمیز اور جاہلانہ عقیدت پر محبت کو مرتکز کرلیا گیا ہے۔ عجوبہ پسندی کے باعث آپؐ کی بعثت کے اصل مقصد کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ حالانکہ محبت رسولؐ کا فطری تقاضا آپؐ کی اتباع و پیروی ہے۔ آپؐ کے تمام احکام کی پیروی اور زندگی کے تمام مراحل میں آپؐ کے نقوش قدم کو دلیلِ راہ بنانا ہی ایمان و محبت کاعین تقاضاہے۔ وہ محبت ہی کیا جو اطاعات کے قالب میں نہ ڈھل جائے۔ دین میں حبِ رسولؐ یہی ہے کہ دل و زبان کے ساتھ ہی کردار و عمل بھی اس کا ثبوت بہم پہنچائے جس کی بنیاد عقل پر ہو طبعی یا جذباتی نہ ہو۔ مثلاً رسولؐ کا ذکر سن کر جھومنا انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگا لینا ذرا سا سر کو خم کردینا کندھے ڈھیلے چھوڑ دینا وغیرہ۔ اگر سر کے ساتھ دل کو بھی سنتِ رسولؐ کے آگے خم نہ کردیا جائے تو یہ سب بے معنی ہے۔

’’جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ (ترمذی، انس)

ایک دوسری حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محبت کا اصل مقصود یہی ہے کہ آپؐ کی سنت کو پیش نظر رکھا جائے اگر یہ نکتہ نظر انداز کردیا گیا تو یہ رویہ آپؐ سے قطع تعلق کے مترادف ہے۔

’’نبیﷺنے فرمایا: جس کی نگاہ میں میری سنت کی وقعت نہیں، جو میری سنت سے بے رخی برتے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (مسلم، انسؓ)

اس سے بھی زیادہ سخت وعید اس حدیث میں بیان ہوئی ہے:

’’رسولؐ نے فرمایا: میری امت کے تمام لوگ جنت میں داخل ہوں گے بجز اس شخص کے جو انکار کردے (صحابہؓ نے) دریافت کیا: یا رسولؐ انکار کون کرتا ہے؟ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک اس نے انکار کیا۔‘‘ (بخاری، ابوہریرہؓ)

معلوم ہوا کہ آپؐ سے تعلق کا تمام تر انحصار آپؐ کی اطاعت و پیروی پر ہے۔ اس کے بغیر محبت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حبِ رسولؐ کا تقاضا تو یہ ہے کہ خود کو ظاہر و باطن کے اعتبار سے مکمل طور پر فرماں برداری کا پیکر بنالیا جائے۔

’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوگا جب تک اس کی خواہش اس (شریعت) کے تابع نہ ہوجائے جسے لے کر میں آیا ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃ، عبداللہ ابنِ عمر)

محبت جبھی تکمیل کو پہنچتی ہے، جب اپنی تمام خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں کو اتباعِ سنت میں ضم کردیا جائے،پھر یہ بھی لازمی ہے کہ محبت پر پھر کسی اور کی محبت کو ترجیح نہ دی جائے، کسی طرح کی مزاحمت کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ وہ معاشرے کے اصول و ضوابط، وقتی دشواریاں، خاندانی پیچیدگیاں ہوں یا پھر خود اپنے نفس کی مخالفانہ تحریک ہو کوئی چیز ایسی نہیں ہونی چاہیے جسے اس محبت پر قربان نہ کیا جاسکے۔

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ (متفق علیہ)

حب رسولؐ جب ہی مکمل ہوتی ہے، جب مکمل طور پر خود کو سنت کی سپردگی میں دے دیا جائے اور تمام چیزوں سے زیادہ آپؐ کی محبت یعنی ترک و اختیار میں آپؐ کی مرضی کو مقدم رکھا جائے۔ رسولؐ کی واضح تعلیمات اور قرآن کی بیّن آیات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ رسولؐ جس چیز کا حکم دیں ،اسے فوراً اختیار کیا جائے اور جس سے روک دیں لازماًرک جایا جائے، چو نکہ آپؐ کا کوئی حکم خیروبرکت اور مصلحت سے خالی نہیںہے جو حکم بھی آپؐ دیتے ہیں، اذنِ الٰہی کی بنا پر دیتے ہیں اور اسی میں انسان کی بھلائی مضمر ہے۔

’’جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ روک دے اس سے رک جاؤ۔‘‘ (الحشر)

آپ کا ارشادِ گرامی ہے:

’’جس چیز کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اسے اختیار کرلو اور جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جاؤ۔‘‘

(کنزالعمال، ح۸۸۶)

کوئی ولولہ ہو نہ حوصلہ یہی مسئلہ یہی فیصلہ

جو وہ حکم دے تو حلال ہے جو وہ روک دے توحرام ہے

قرآن ہمیں رسولؐ سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل لینے کا حکم دیتا ہے:

’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (احزاب: ۲۱)

رسالت کی غرض وغایت ہی اللہ پاک یہ بتاتا ہے کہ رسولؐ کی اطاعت ہی اس کی بعثت کا اصل مقصد ہے۔ جب بھی اللہ نے اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجا وہ اسی مقصد کے پیشِ نظر تھا کہ نوعِ انسانی ان کے نقوش قدم پر چل کر اپنے رب کی رضا اور خوشنودی اور کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور یہ کہ وہ رسولؐ ناواقف لوگوں تک پیغام نجات و کامیابی پہنچادے۔

’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

(النساء: ۶۴)

زبانی دعویٰ محبت کھوکھلا اور لچر ہے اگر اطاعت و اتباع ناپید ہو، درج ذیل آیات کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے، یہ آیات نہایت اہم معاملات میں آپؐ کی اطاعت اور آپ کی مرضی کو مقدم رکھنے کا حکم دیتی ہیں کہ تمام معاملے، مسئلے، قضیے آپ کے احکام و پیش کردہ تعلیمات کی روشنی میں حل کیے جائیں اور جو اس کے سوا کوئی اور طریقۂ کار اختیار کرے تو اس کا ایمان معتبر نہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس اطاعت و پیروی میں محبت کا عنصر غالب ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی عمل اخلاص سے مزین ہی نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محبت اس کیفیت کا نام ہے جس میں دل کے کسی گوشے میں پس و پیش کا کوئی شائبہ موجود نہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب محبت اپنی پوری تشریح و تعبیر کے ساتھ ذہن و دل میں پیوست و جاگزیں ہو اور یہ محبت شعوری، عقلی و اصولی ہو۔ مثلاً قرآن مومنین کی اس حیثیت کو واضح کرتا ہے کہ جس معاملے میں آپؐ کوئی فیصلہ فرمادیں اس میں ترک و اختیار کی کوئی گنجائش اہلِ ایمان کے لیے باقی نہیں رہتی۔

’’کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کافیصلہ کردیں تو اپنے اس معاملے میں ان کے لیے کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔‘‘ (الاحزاب:۳۶)

رسولﷺ کی محبت پر کسی اور محبت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی اگر کسی محبت کو آپ کی محبت پر فوقیت دی جائے تو یہ روش اللہ کی نظر میں موجب عذاب اور ناپسندیدہ ومبغوض ہے۔

’’(اے نبی!) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے … اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہارے لیے زیادہ محبوب ہوں تو ٹھہرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے۔‘‘ (توبہ: ۲۴)

اس روش کو ایمان کے منافی قرار دیا گیاہے۔ اگر عملاً آپؐ کی اتباع و سنت کو اختیار نہ کرلیا جائے۔ آپ سے اختلاف ایمانی روش کے منافی ہے اور یہ مومنین کا طرزِ عمل نہیں ہوسکتا۔

’’اور جو کوئی رسولؐ سے اختلاف کرے جب کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی ہو اور ایمان لانے والوں کی روش چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے اسے ہم اسی طرف پھیردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اس کو جہنم میں جھونکیں گے۔‘‘ (النساء:۱۱۵)

آپؐ کی اتباع واطاعت سے اعراض محبت ہی کیا ایمان کے بھی منافی ہے۔ قرآن اس کو بار بار واضح کرتا ہے کہ اہلِ ایمان کا یہ شیوہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دعویٰ ایمان کے ساتھ خود کو مرضیٔ الٰہی اور حکمِ رسولؐ کے تابع نہ کردیں:

’’یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں اور جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق منہ موڑ جاتا ہے۔‘‘ (النور: ۴۷، ۴۸)

مومنانہ طرزِ عمل تو یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات میں شریعت کی طرف رجوع کیا جائے اور صرف زبانی اقرار کی حد تک ہی اپنی محبت کو محدود نہ کردیا جائے بلکہ اطاعت مومنین کا وطیرہ ہونا چاہیے۔

’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

(النور:۵۱)

یہ مکمل خود سپردگی تب تک ناممکن ہے جب تک ایمان تکمیل کو نہ پہنچ جائے جب تک دل زبان کا تابع نہ ہوجائے، محبت شعوری کیفیت کو نہ پہنچ جائے، عمل اس کی توثیق نہ کردے اور کسی طرح کا پس و پیش، کسی طرح کی تنگی و کجی بھی دل میں نہ ہو۔

’’پس نہیں تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ (اے نبی) وہ تجھے اپنے باہمی اختلاف میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کریں۔‘‘ (النساء: ۶۵)

اس واضح مرکزی مقصد کے بغیر اگر محض آپؐ سے زبانی محبت کا دعویٰ ہے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے اور آپؐ کے ساتھ تعلق سے دست برداری کا اعلان ہے۔ اہلِ کتاب کی اس روش کو قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نسبت سے دست بردار کرنے کی وجہ بتایا گیا ہے۔ وہ محض زبانی تعلق کے علمبردار تھے، انھیںاطاعت و پیروی سے کوئی واسطہ نہ تھا، اور اب نسبت کایہ حق امتِ محمدیہؐ کی طرف منتقل ہوتا ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:

’’ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو جنھوں نے اس کی پیروی کی۔ اب یہ نبیؐ اور ان کے ماننے والے اس کے زیادہ مستحق ہیں اور اللہ انہی کا ولی ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔‘‘ (آل عمران: ۶۷)

آج امت مسلمہ کی اکثریت ایمان کے دعویٰ محبت کے اقرار کے باوجود آپؐ کی پیروی و اتباع سے منحرف ہے، رسولؐ کو محض قابلِ احترام ہستی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اور محض حمیت و عصبیت کا جذبہ بھی اس اندھی، بہری، جامد محبت و عقیدت میں کارفرما ہوتا ہے۔ اظہارِ عقیدت و محبت میں ہر جائز و ناجائز فعل کو سرانجام دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ طریقہ آپؐ کی تعلیمات و ہدایات سے صریح بغاوت ہی کیوں نہ ہو، حالانکہ قرآن و حدیث سے واضح تعلیم یہ ملتی ہے کہ آپؐ کی اتباع و اطاعت اور پیروی کو ہی اختیار کرکے محبت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے اور تبھی محبت کا دعویٰ قابلِ قبول ہے:

حبِ رسول اصل میں تعمیل دین ہے

گر یہ نہیں تو دعویٰ الفت فضول ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146