وہ پرانے مریض، جو کسی مرض کی طویل پریکٹس کے بعد، ہجوم کی صورت میری یادوں میں محفوظ ہوجاتے ہیں، ان کی رفاقت بہت انوکھی ہوتی ہے۔ ان میں سے کتنے ہی افراد ہیں جو دنیا سے اٹھ چکے ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہیں جن سے سالہا سال سے آمنا سامنا نہیں ہوا اور ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، اس کے باوجود وہ ذہن میں محفوظ ہیں۔ ان کی یادیں بے اختیار انہیں برسوں کے بعد بھی زندہ کرکے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں۔ ایسے ہی ناقابلِ فراموش سابق مریضوں میں سے ایک کی کہانی میں آج سنارہا ہوں۔
جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اس خاتون کو دیکھے تیس برس سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس کے خدوخال آج بھی یوں یاد ہیں جیسے میں اس سے کل ملا تھا۔ اس کے آداب و اطوار، گفتگو کا لہجہ اور الفاظ تک میرے ذہن نے محفوظ کررکھے ہیں۔
اس خاتون کی عمر اٹھائیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ نازک اور چھوٹی سی … لیکن بہت خوبصورت۔ اس کا چہرہ بیضوی تھا، جلد ملائم اور پرکشش۔ ان نگاہوں میں وہ محبت اور حیرت پائی جاتی تھی، جو عموماً بچوں کی آنکھوں سے مخصوص کی جاتی ہے۔ اس کا منہ چھوٹااور حساس تھا، تاہم اس کے پرعزم ہونے کی غمازی کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ میں مگن اور پرسکون دکھائی دیتی تھی۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ اس کا اندازِ گفتگو دھیما تھا، کبھی کبھی لگتا جیسے اس میں تھکن گھل مل گئی ہو۔
اسے میرے کمرے میں اس وقت لایا گیا جبکہ عموماً میں کسی مریض سے نہیں ملتا۔ وہ وقت مقرر کیے بغیر آگئی تھی اور اس کے پاس کسی ڈاکٹر کا تعارفی خط بھی نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا کوئی معالج نہیں اور وہ انگلستان کے کسی دور افتادہ شمالی علاقے سے آئی ہے، تاہم اسے اندازہ سا ہے کہ اسے کیا تکلیف ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں اس کا ضرور آپریشن کروں۔ اس کا طبی معائنہ کرنے کے بعد میں فی الفور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے جسم میں ایک آنت ایسے انداز میں بڑھ رہی ہے کہ اگر اس کافوری آپریشن نہ کیا گیا تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ اس کا کیس بہت پیچیدہ اور خطرناک ہوچکا تھا۔ اس لیے مجھے اسے بتانا پڑا کہ آپریشن خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور اس کی کامیابی کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپریشن کامیاب ہوجانے کی صورت میں اس کا مرض ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
اس خاتون نے مجھ سے کہا کہ میں فوری طور پر اس کا آپریشن کردوں اور جس نرسنگ ہوم میں اسے بھجوانا ضروری ہو، بھجوادیا جائے۔
خاتون کا رویہ بڑا حیران کن تھا۔ اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، اس کے باوجود اس کے چہرے بشرے اور گفتگو سے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ اپنے آپریشن کے بارے میں وہ سنجیدہ دلچسپی بھی نہیں لے رہی تھی، تاہم وہ آپریشن کرانے کا عزم کرچکی تھی۔
اس نے کہا: ’’جہاں تک زندگی اور موت کا تعلق ہے، اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو ہونا ہوگا وہی ہوگا…‘‘
اس نے مجھے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے لیکن اس کا کوئی بچہ نہیں۔ میں نے اس کے والدین کے بارے میں استفسار کیاتو اس نے جواب دیا: ’’میں بچپن میں یتیم ہوگئی تھی۔‘‘
میں نے کہا کہ اسے اپنے اس آپریشن کے بارے میں تفصیل سے اپنے ذاتی معالج اور خاوند کو اطلاع دینی ہوگی۔ اس نے پہلے کی طرح بڑے سادہ انداز میں کہا: ’’میرا کوئی ذاتی معالج نہیں، اس لیے میں کسی بھی اجنبی ڈاکٹر کو اپنے آپریشن کی تفصیلات لکھ کر پریشان کیوں کروں؟ اگر کوئی، کسی ڈاکٹر کے زیرِ علاج ہی نہیں رہا وہ اسے اپنی تکلیف کے بارے میں کچھ بھی لکھنے کا حق نہیں رکھتا۔‘‘
جب میں نے اصرار کیا کہ اسے کم از کم اپنے خاوند کو آپریشن کے بارے میں ضرور مطلع کرنا چاہیے تو اس نے جواب دیا: ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
میں نے کہا کہ اگر وہ اجازت دے تو میں خود بذریعہ خط اس کے شوہر کو اس آپریشن کے متعلق مطلع کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میرے خیال میں اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے یقین سے کہا۔
’’اس کی ضرورت ہے۔ میرا یا تمہارا خط پڑھتے ہی تمہارا خاوند تمہاری دیکھ بھال کے لیے لندن چلا آئے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ دھیمے اور بے پروائی کے لہجے میں کہنے لگی: ’’میں اس کی موجودگی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ اس کے اپنے کئی مسائل ہیں، بہت سی الجھنیں ہیں۔ اسے کیوں پریشان کیا جائے؟ آپریشن کا تعلق تو صرف مجھ سے ہے۔ کسی اور کو کیوں ملوث اور پریشان کیا جائے؟‘‘
میں نے اس سے پوچھا کہ جب وہ اپنے شوہر کو بلوانا نہیں چاہتی تو پھر آپریشن کے بعد، اس کا کون سا عزیز یا دوست اس کی دیکھ بھال اور تیمار داری کرے گا۔
’’کوئی بھی نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’میرا کوئی ایسا عزیز نہیں جسے میں یہ تکلیف دوں اور نہ میرے ایسے دوست ہیں۔ میں اس آپریشن کو لوگوں کی گپ شپ کا موضوع نہیں بنانا چاہتی۔‘‘
میں اس کی حالت سے واقف ہوچکا تھا۔ اگر اس کا آپریشن فوری طور پر نہ کیا جاتا تو وہ مرسکتی تھی۔ آپریشن کی کامیابی بھی یقینی نہیں تھی، لیکن یہ آپریشن اس خاتون کے لیے ناگزیر ہوچکا تھا۔ اس کی گفتگو زچ کرنے والی تھی۔ اس کے باوجود میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت نہیں برت سکتا تھا۔ ایک بالغ عورت ہونے کے ناطے اسے یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی کو بھی اطلاع دیے بغیر اپنا آپریشن کراسکے، لیکن عام طور پر ایسا ہوتا نہیں۔ ایسے نازک اور خطرناک آپریشن کے وقت اس کے کسی نہ کسی عزیز یا لواحقین کا ہونا ضروری تھا، چنانچہ میں نے دو ٹوک لہجے میںکہا: ’’ایسے حالات میں کوئی بھی سرجن تمہارے آپریشن کے لیے آمادہ نہ ہوگا۔ آپریشن اور اس کے بعد کسی نہ کسی کا تمہاری دیکھ بھال کے لیے یہاں موجود ہونا ضروری ہے۔‘‘
آخر کار وہ اس بات پر راضی ہوگئی کہ اس کی ایک جاننے والی معمر خاتون ہے، جسے وہ اپنی دیکھ بھال کے لیے بلواسکتی ہے۔
بلاشبہ وہ خاتون بہت پراسرار تھی، بھیدوں سے لدی ہوئی۔ لیکن میں اس کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دے سکتا تھا۔ میرا فرض یہ تھا کہ میں آپریشن کرکے اس کی جان بچانے کی کوشش کروں۔ اس کے رویے سے جہاں عزم جھلکتا تھا، وہاں انتہائی مایوسی کا اظہار بھی ہورہا تھا، جسے اس نے چھپا رکھا تھا۔ جب وہ میری میز کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی تو اس نے اپنے ہاتھ باندھ کر اپنی گود میں رکھے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران جو زندگی اور موت سے تعلق رکھتی تھی، وہ انتہائی بے پروائی کا اظہار کررہی تھی۔ اسے اس انداز میں بیٹھے دیکھ کر دنیا کا کوئی شخص اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس کی زندگی خطرے میں گھری ہوئی ہے۔ وہ انتہائی غیر جذباتی دکھائی دے رہی تھی، تاہم گفتگو کے دوران میں نے ایک خاص بات نوٹ کی۔
اس کی قمیص کے کالر میں ایک بروچ لگا ہوا تھا۔ وہ بار بار گردن کے قریب لگے اس بروچ کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے چھوتی، پھر ہاتھ نیچے کرلیتی۔ کچھ منٹوں کے بعد وہ پھر یہی حرکت کرتی۔ جب تک وہ بیٹھی رہی وقفے وقفے سے اس بروچ کو مسلسل چھوتی رہی۔ یہ سونے کا سادہ سا بروچ تھا، جسے محض چھوکر وہ تسکین یا قدرے اعتماد حاصل کرلیتی تھی۔
٭٭
خاتون کا آپریشن کسی پیچیدگی کے بغیر کامیاب رہا۔ طبی نقطۂ نگاہ سے یہ ایک سو فیصد کامیاب آپریشن تھا۔ زخم فطری انداز میں مندمل ہونے لگا۔ اس دوران نہ اس کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا نہ کسی قسم کی کوئی سرجیکل پیچیدگی پیدا ہوئی۔ اس کے باوجود مریضہ کی بے چینی میں ہر روز اضافہ ہونے لگا۔ وہ بے آرامی محسوس کرنے لگی۔ اس کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ اسے ایک چپ سی لگ گئی۔ ضروری سوالوں کا جواب بھی وہ بڑبڑاہٹ سے دینے لگی۔ کوئی اندرونی بے چینی تھی، جس نے اسے نیم جاں کردیا تھا۔ وہ بہت کاہل ہوگئی۔ جو دوا دی جاتی وہ بے پروائی سے پی لیتی۔ اس کے اندر کی خود اعتماد کمزور پڑنے لگی تھی۔ ایسے کامیاب آپریشن کے بعد اس کی صحت کا یوں بگڑنا بے حد تشویشناک تھا۔ وہ کون سا غم تھا جو اسے کھائے جارہا تھا۔ اس کا علم بھی جلد ہی ہوگیا۔
ایک عجیب طرح کی انوکھی اور گہری فکر مندی نے اسے جکڑ لیا تھا۔ یہ پریشانی اس کی ایک امید، ایک توقع اور ایک چیز کے انتظار سے تعلق رکھتی تھی۔
اسے ایک خط کا انتظار تھا۔ انتہائی بے چینی سے وہ کسی خط کا انتظارکررہی تھی۔ وہ گھنٹوں دروازے کی طرف دیکھتی رہتی۔ دن گزرتے رہے لیکن اس کا انتظارختم نہ ہوا۔ بلکہ شدت اختیا رکرتا چلا گیا۔ دروازے کی طرف وہ یوں تکتی جیسے کوئی بھوکا کتا انتظار میں ہو کہ کوئی آئے گا اور اس کے سامنے گوشت یا روٹی کا ٹکڑا ڈال دے گا۔
اس کے آپریشن کو تین دن ہوچکے تھے۔ آپریشن سو فیصدی کامیاب تھا، لیکن اس کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ تیسرے دن جب میں اس کا معائنہ کرنے گیا تو اس نے ایک عجیب بات پوچھی: ’’کیا آپ نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ میرا کوئی خط مجھے پہنچایا نہ جائے؟‘‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور میں ایسا کوئی حکم بھلا کیوں دوں گا۔ اس کا اگر کوئی خط آیا تو اسی لمحے اسے پہنچا دیا جائے گا۔ لیکن اس کا کوئی خط نہ آیا۔
جب بھی میں اس کے طبی معائنے کے لیے جاتا تو وہ پہلا سوال یہی پوچھتی: ’’کیا میرا کوئی خط نہیں آیا۔‘‘
میں اس کے علاوہ کیا جواب دے سکتا تھا کہ ’’نہیں!‘‘
یہ جواب سن کر وہ مجھ پر سوالوں کی بوچھار کردیتی:
’’ڈاکیہ کب آتا ہے؟‘‘
’’ایک دن میں ڈاک کتنی بار تقسیم ہوتی ہے؟‘‘
’’کیا وہ کبھی تاخیر نہیں کرتا؟‘‘
’’ایسا تو نہیں کہ خط گم ہوجاتے ہوں؟‘‘
جب بھی کوئی اس کے پاس آتا، وہ اس کی طرف پُراشتیاق اور بے قرار نگاہوں سے دیکھتی کہ اس کے ہاتھ میں کوئی خط ہے یا نہیں؟ اگر کمرے کے بند دروازے پر دستک ہوتی تو وہ فوراً پکارتی: ’’پوسٹ مین! اندر آجاؤ…‘‘
اور جب کوئی دوسرا شخص اندر داخل ہوتا تو اس کے لیے اپنی مایوسی چھپانا مشکل ہوجاتا۔
اسپتال کی نرسیں، ملازم اور دوسرے ڈاکٹر سب جان چکے تھے کہ اس مریضہ کو کسی خط کا انتظار ہے۔ ایسا انتظار جس کا اضطراب اور کرب الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے نام کوئی خط نہ آیا…
خط کے انتظار نے اس خاتون کے وجود کو جکڑ لیا۔ ایک خط جس کا اسے انتظار تھا، وہ اس کے حواس پر سوار ہوگیا۔ ایک خط… جو نہ آیا اور اس کے انتظار نے اس کی جان کو گھلادیا۔
میں نے نرسوں سے استفسار کیا تو ایک نرس نے بتایا کہ جس روز مریضہ کا آپریشن ہونے والا تھا، اس نے ایک خط لکھا تھا۔ اگرچہ اسے سخت تاکید کی گئی تھی کہ وہ بستر سے حرکت نہ کرے، اس کے باوجود وہ خود خط پوسٹ کرنے گئی تھی۔
اس خط کے جواب کا انتظار اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بن گیا تھا۔
اس کے نام کوئی خط نہ آیا…
وہ تیزی سے کمزور ہونے لگی۔ زیادہ بے چین اور بے آرام دکھائی دینے لگی۔
وہ مایوسی کی تصویر بن گئی۔ اس کا کھانا پینا چھوٹ گیا۔ وہ فطری نیند سے محروم ہوگئی۔ نیند کی گولیوں کے بغیر وہ سو ہی نہ سکتی تھی۔ نقاہت، کمزوری، بے خوابی اور تیزی سے گرتی صحت کے باوجود خط کے انتظار کی شدت میں کوئی کمی نہ آئی۔
میں دیکھ رہا تھا کہ کامیاب آپریشن کے باوجود وہ مررہی ہے… کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ مررہی تھی… لیکن وہ کیوں مررہی تھی؟ وہ خود مررہی تھی… ایک خط کے انتظار میں جو آہی نہیں رہا تھا…
وہ رنج و اندوہ کی ایک تصویر بن چکی تھی، جسے دیکھ کر دل بھر آتا تھا۔ اس کی آنکھیں دو گڑھے بن چکی تھیں، رخسار مرجھا گئے تھے، پیشانی پر شکنیں پڑچکی تھیں اور اس کے ہونٹ ہر وقت کچھ بڑبڑاتے رہتے لیکن آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
آج بھی اس کا مرتا ہوا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ تکئے پر سر رکھے وہ دروازے کی طرف نگاہیں جمائے لیٹی ہے۔ وہ بروچ جو اس کے کالر میں لگا تھا اور جو میںنے پہلی ملاقات میں دیکھا تھا، اب تکئے کے ساتھ پن کردیا گیا تھا۔ اس بروچ کو وہ کبھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی۔ اپنی نیم مردہ کمزور پتلی پتلی انگلیوں سے اسے مسلسل چھوتی رہتی۔
٭٭
میں اس کی زندگی کے آخری لمحوں میں اس کے قریب تھا۔
جب مجھے اطلاع دی گئی کہ وہ موت کی دہلیز پر کھڑی ہے تو میں اس کے کمرے میں پہنچا، جونہی کمرے میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ اس کی نگاہیں اب بھی دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔ اس کے سپید اور خشک ہونٹوں کو جنبش ہوئی، لیکن الفاظ نہ نکلے۔ وہ زبانِ حال سے پوچھ رہی تھی: ’’کیا میرا خط آگیا؟‘‘
اب اسے’’نہ‘‘ میں جواب دینے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنی بچی کھچی قوت جمع کرکے کروٹ بدلی اور پھر قدرے اونچی آواز میں بولی … خط … فرینک…
اس کے چند لمحوں بعد وہ مرچکی تھی … اس کی موت کا سبب دل کا دورہ بنا… اس کا دل جانے کب کا بجھ چکا تھا…
اور پھر سارے بھید اور سارے راز ایک دن چھوٹی چھوٹی تفصیلات لیے جزئیات کے ساتھ بے نقاب ہونے لگے۔ اس کے ساتھ سب سے بڑا راز بھی منکشف ہوگیا کہ وہ مریضہ خود مرنا چاہتی تھی…
وہ محبت کی بھوکی اور متلاشی تھی۔ چھوٹی تھی کہ والدین یکے بعد دیگرے مرگئے۔ عزیزوں نے رکھائی سے پالا۔ جوان ہونے پر اس کی شادی ہوگئی جو ناکام رہی۔ خاوند، تندخو، بے وفا اور ظالم تھا۔ اس نے ہر طرح سے شادی کو کامیاب بنانے کی کوشش کی لیکن اس کا خاوند پتھر دل اور سفاک تھا…
یہی دن تھے جب ایک روز فرینک سے اس خاتون کا تعارف ہوا۔ فرینک نے اس کے غم کو سمجھا اور اس کی دلجوئی کرنے لگا۔ وہ اس کا سچا غم گسار بن گیا۔ اس نے اپنی دوستی اور غم گساری کے اظہار کے لیے سونے کا وہ سادہ بروچ اس خاتون کو پیش کیا جو اس کے لیے متاعِ عزیز بن گیا۔ فرینک ایک شریف النفس ہمدرد انسان تھا لیکن اس خاتون کے خاوند کو اپنی بیوی کے ساتھ اس کے مخلصانہ، بے ریا مراسم ایک آنکھ نہ بھائے، اور وہ اپنی بیوی کو طنزو دشنام کا نشانہ بنانے لگا۔
مغربی معاشرے میں اس مریضہ خاتون اور فرینک کے بے ریا تعلقات کا اندازہ ذرا مشکل ہی سے لگایا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں عورت مرد کے تعلقات میں غیر اخلاقی عوامل بھی عموماً حائل ہوتے ہیں اور مظلوم عورت کے شوہر نے اپنے گھٹیا پن کو تسکین پہنچانے کے لیے خود ہی جھوٹے الزام تراشنے شروع کردیے۔
وہ خاتون زندگی کے ایک ایسے موڑ پر آکھڑی ہوئی جب اس کے پاس زادِ راہ قسم کی کوئی چیز نہ تھی۔ فرینک نے اس سے ایک دن کہا: ’’آج سے ہم نہیں ملیں گے۔ ہمارے بے ریا مراسم کو غلط رنگ دیا جارہا ہے۔ ہماری پاکیزہ دوستی کا یہی تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو بھول جائیں۔ نہ میں تمھیں کبھی خط لکھوں گا نہ تم ہی مجھے کبھی کوئی خط لکھنا۔ اگر کبھی جذبات میں آکر ہم میں سے کسی ایک نے، دوسرے کو خط لکھ بھی دیا تو وہ اس کا جواب نہیں دے گا۔‘‘
وہ عورت جو بچپن میں یتیم ہوگئی، جسے ماں باپ کی محبت اورشفقت نہ ملی، جس کی عمر کا ایک حصہ سخت گیر رشتے داروں کی نگرانی میں گزرا، جسے ایک شکی اور سفاک خاوند ملا، اسے زندگی میں صرف اور صرف ایک ہمدرد انسان ملا تھا اور یہی انسان اس کی زندگی کا سہارا بن گیا تھا۔ اور اب وہ سہارا بھی چھن گیا تھا۔
اسے محبت، ہمدردی اور شفقت کی طلب تھی۔ آپریشن سے چند گھنٹے پہلے اس نے فرینک کے نام خط لکھا…
وہ سمجھتی تھی کہ فرینک اس کے آپریشن کے بارے میں پڑھ کر اسے ہمدردی کا خط ضرور لکھے گا۔ لیکن فرینک نے جو قسم کھائی تھی، جو پیمان اپنے ساتھ باندھا تھا، اسے نبھایا اور اس کے خط کا جواب نہ دیا… اور وہ شفقت اور ہمدردی کی پیاسی عورت خطرناک آپریشن سے تو بچ نکلی مگر خط کے انتظار کا روگ لگا کر مرگئی…!
(مرسلہ : اقبال احمد ریاض
اردو ڈائجسٹ لاہور سے ماخوذ