حضرت تمیم دارمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیرخواہی کا نام ہے۔‘‘ پوچھا گیا کس کے لیے؟ فرمایا: ’’اللہ کے لیے۔‘‘ اس کے رسول ﷺ کے لیے مسلمان حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ (مسند احمد)
ابوحاتم کہتے ہیں کہ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے لیے اپنے اوپر خیرخواہی کو لازم سمجھے۔ ان سے خیانت کا دل میں خیال نہ لائے۔ اور نہ ہی قولاً اور عملاً ان سے خیانت کرے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ جب کسی سے بیعت لیتے تو نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ اسے مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کی بھی تلقین فرماتے۔
حضرت علیؓ نے کہا دھوکا نہ دو۔ یہ کمینوں کی خصلت ہے۔ اپنے بھائی کے لیے خیرخواہی کو خالص کرو۔ وہ اچھی ہو یا بظاہر ناپسندیدہ لگے۔ جہاں وہ رہے اسی کے ساتھ رہو۔
اچھا دوست
ابوحاتم کہتے ہیں کہ بہترین دوست وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ خیرخواہی کی سوچے۔ جیسا کہ بہترین عمل وہ ہے جو انجام اور اخلاص کے اعتبار سے اچھا ہو اور خیرخواہی کا وار بغض رکھنے والے کے سلام سے بہتر ہے۔ اور لازم ہے کہ عاقل اپنی ذات کی نمائش کیے بغیر خیرخواہی کو ہر عام و خاص کے لیے عام رکھے۔ اور ممکن ہے کہ نصیحت کرنے والا نصیحت کا اس شخص سے زیادہ حقدار ہو جس کو نصیحت کی جارہی ہے۔
حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کا حصہ ہے۔ اور اسی طرح ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہے۔ اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اس کو صحیح کرتا ہے اور کھلے اور چھپے ہر حالت میں اس کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
علی بن محمد بسامی نے کہا، جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’میں نے اپنی خلوتوں کا امین ایسے شخص کو بنایا ہے جو اگرچہ مضبوط نہیں ہے۔ لیکن اس کی خیرخواہی میں کوئی شک نہیں۔ خیرخواہی کے ساتھ لوگوں میں وہ ایسے مشہور ہوا جیسا کہ اس پر شمعیں جل رہی ہوں۔ لازمی نہیں ہے کہ ہر عقلمند تجھے نصیحت کرنے والا ہو اور نہ ہی ہر نصیحت کرنے والا عقلمند ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر یہ دونوں خصلتیں کسی میں جمع ہوجائیں تو پھر اس کا حق یہ ہے کہ اسے طاعت میں سے وافر حصہ دیا جائے۔
نصیحت
ابوحاتم کہتے ہیںکہ خیرخواہی عام مسلمانوں پر لازم ہے لیکن اس کو تنہائی میں کیا جانا چاہیے، کیونکہ جو اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرے گا وہ اس کے لیے باعث زینت ہوگا اور جو لوگوں کے سامنے کرے گا تو وہ اس کے لیے باعثِ عار ہوگا تو تم اپنی محنت کو ایسے کام میں لگانا جو مسلمانوں کے لیے باعثِ زینت ہو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو ایسے کام میں لگایا جائے کہ اس کے لیے باعثِ عار ہو۔
علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سفیان نے مسعر سے کہا کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہیں کوئی تمہارے عیوب بتلانے والا شخص ہو۔ انھوں نے کہا اگر کوئی آکر مجھے میرے عیوب کی وجہ سے ڈانٹے تو ’’نہیں‘‘ اور اگر کوئی مجھے نصیحت کرنے آئے تو پھر صحیح ہے۔
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پہلے اگر کوئی شخص اپنے بھائی میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتا تو اسے تنہائی میں حکم کرتا اور تنہائی میں ہی روکتا تھا اور اس کو پردہ پوشی اور برے کام سے روکنے کا دونو ںکو اجر ملتا۔ لیکن آج کل اگر کوئی شخص دوسرے میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے تو اس کوغصہ دلاتا ہے۔ اور اس کی پردہ دری کرتا ہے۔
اندازِ نصیحت
سفیان کہتے ہیں کہ طلحہ، جبار بن وائل کے پاس آئے۔ ان کے پاس کچھ لوگ تھے تو طلحہ ان سے سرگوشی کرکے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد عبدالجبار نے لوگوں سے کہا تم جانتے ہو کہ انھوں نے مجھ سے کیا سرگوشی کی؟ وہ میرے کان میں یہ کہہ کر گئے ہیں کہ تم کل نماز میں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
ابوحاتم کہتے ہیں کہ نصیحت جب ایسے طریقے سے کی جائے جیسا ہم نے بیان کیا تو وہ الفت پیدا کرتی ہے اور اخوت کا حق ادا کرتی ہے۔ وہ نصیحت کرنے والا جو کسی کی زینت چاہتا ہو اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ تنہائی میں نصیحت کرتا ہے اور وہ نصیحت کرنے والا جو دوسرے کو عار دلانا چاہتا ہو اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نصیحت کرتا ہے۔ اس لیے عقل مند ناصح کو چاہیے کہ وہ نصیحت کرنے کے سلسلے میں حساس اور چوکنا رہے کہ اس کا تعلق خراب نہ ہونے پائے اور نہ ہی مخاطب ردِ عمل کا شکار ہو۔