پھول اور پودے قدرت کا وہ حسین شاہکار ہیں کہ ان کو دیکھ کر بیمار انسان کی مضمحل طبیعت خوشگوار ہوجاتی ہے۔ قدرت نے بھی انسانوں کو رنگ برنگے پھولوں اور پودوں کی انواع و اقسام سے نواز رکھا ہے اور آج کے انسان کا دماغ بھی اس قدر تیزی سے کام کرتا ہے کہ اس نے پہلے زمانے میں جھاڑی دار سمجھے جانے والے پودوں کو ایک نئی شکل دے کر باغوں اور گھروں کے لانوں سے لے کر کمروں تک کو خوبصورت بنادیا ہے اور نت نئی تحقیقات ان کو ایک نئی جلا بخشتی ہیں۔
یہ تو آپ جانتی ہیں کہ کیکٹس کو کچھ عرصہ قبل تک محض خود رو جھاڑی دار پودا سمجھا جاتا تھا جس کی بدرنگی اور اس پر لگے کانٹوں کی وجہ سے کوئی بھی اسے گھر میں لگانا پسند نہیں کرتا تھا لیکن اس پودے پر جیسے جیسے تحقیق کی گئی اس کی خوبصورتی، رنگت اور دیگر خوبیاں اجاگر ہونا شروع ہوگئیں۔
یہ پودا اس حیثیت سے کافی اچھا ہے کہ اسے چھوٹے گھروں میں، فلیٹ کی بالکنی میں اور گھروں کی چھت وغیرہ پر بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لوگ جو چھوٹے چھوٹے فلیٹس میں رہتے ہیں اس پودے کے ذریعے گھر کی سجاوٹ بھی کرسکتے ہیں اور صحت مند ماحول بھی پیداکرسکتے ہیں۔ کیونکہ دوسرے پودوں کی بہ نسبت یہ پودا زیادہ آکسیجن خارج کرتا ہے۔ اور دیکھ بھال کے اعتبار سے نہایت آسان بھی ہے۔
یورپ میں اب کیکٹس کو سجاوٹ کی غرض سے گھروں، لان اور دیگر مقامات پر بکثرت لگایا جاتا ہے۔ اپنے مختلف رنگوں، ورائٹی اور انوکھے پن کی وجہ سے اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کیکٹس کی سات سو سے زائد اقسام دریافت کی جاچکی ہیں۔ یہ پودا گملوں میں بھی لگایا جاسکتا ہے جبکہ چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں بھی تیزی سے پھلتا پھولتا ہے۔ علمِ نباتات کے ماہرین نے اب کیکٹس کے حوالے سے ایک اور دریافت کی ہے کہ گھر میں کیکٹس کے پودے لگانے سے اردگرد کا ماحول خوشگوار ہوسکتا ہے۔
ہالینڈ کے ادارے ’’کیکٹی سرچ‘‘ نے ڈاکٹروں کی مدد سے کیکٹس کے پودے پر تحقیق کی جس سے پتہ چلا کہ بعض اقسام دیگر پودوں کی نسبت آکسیجن کا اخراج بہت زیادہ کرتی ہیں۔ ان اقسام میں گولڈن، بیرل کیکٹی، ورول کیکٹی اورا سپائیڈر کیکٹی شامل ہیں، جن کے تنے نسبتاً موٹے اور گول ہوتے ہیں۔
تحقیق کرنے والے ڈاکٹر بیرن پال کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایک پودا جس پر سبز پتے نہ ہونے کے برابر ہوں یادیگر پودوں کی نسبت بہت کم ہوں وہ آکسیجن کی اتنی زیادہ مقدار خارج کرے‘‘ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا شاید کیکٹس کے موٹے تنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے یا پھر اس کی جلد میں چھوٹے چھوٹے مساموں کی تعداد و دیگر پودوں پر لگے پتوں کے مساموں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر گھر میں کیکٹس کے ۱۵ سے ۲۰؍ پودے لگے ہوں تو اس گھر کے مجموعی ماحول میں بہتری آتی ہے۔ اس سے ہوا میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ یہ دیگر پودوں کی نسبت کاربن ڈائی آکسائڈ کو بھی زیادہ جذب کرتا ہے۔ کمرے کے درجۂ حرارت اور ماحول میں کیکٹس تروتازہ نہیں رہتے لیکن اگر انہیں دن میں دو سے چار گھنٹے کے لیے دھوپ میں رکھ دیا جائے تو پھر انہیں کمرے میں سجایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹروں کی آراء کے مطابق گولڈن بیرل کیکٹس کے پھولوں سے جو خوشبو نکلتی ہے وہ دمہ کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کمرے میں یہ خوشبو کسی حد تک موجود ہو تو دمہ کے حملے کے خطرات میں ۱۵؍فیصد تک کمی کی جاسکتی ہے۔ ہندوستان میں کیکٹس کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں جنھیں گملوں میں یا چھوٹے برتنوں اور کیاریوں میں اگاکر گھر کو خوبصورت اور ماحول کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔