شاید مجھے میلے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کاش کسی سیانے آدمی نے مجھ جیسے طفل العقل بچے کو اس میلے میں نہ آنے کی نصیحت کی ہوتی۔ ممکن ہے سبھی لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ میں اپنے والدین اور آباء و اجداد کی تقلید کرتے ہوئے میلے میں آنے سے خود ہی گریز کروں گا، انھوں نے مجھے اس سلسلے میں کسی قسم کی تنبیہ کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ لیکن مجھے یاد ہے ہمارے محلے کے اس چیتھڑے پہنے پاگل نما فقیر نے مجھے ایک دن پاس بلا کر کہا تھا: ’’اللہ ہو … اللہ ہو… بچہ میلے میں کبھی نہ جانا کیوں کہ آج تک تمہارے خاندان میں سے کوئی بھی اس میلے میں نہیں گیا ہے، گرچہ وہ میلے کے قریب سے روز گرزتے تھے… یہ سلسلہ پیڑھی در پیڑھی چلتا آرہا ہے۔ تم اسے توڑنا نہیں۔ کئی میلے ایسے ہوتے ہیں جنھیں دور سے ہی دیکھنا اچھا ہوتا ہے… بچہ! میرے کہنے پر عمل کرو گے تو خوش رہو گے … نہیں تو … اللہ ہو … اللہ ہو…‘‘ اور یوں کہہ کر اس نے اپنے گال پر تھپڑ مارا شاید یہ بھانپ کرکہ میں نے بچہ ہوکے بھی اس کی باتوں کو اس کے پاگل پن کی علامت قرار دے کر من ہی من مسترد کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
نہ جانے کس کالے کوے نے کاٹا تھا مجھے کہ میں چلا آیا میلہ دیکھنے۔ ہاتھ میں تختی لیے جس کے ایک طرف لکھا تھا کہ میلے میں کبھی نہیں جانا،جسے کہ میں نے دانستہ طور پر نیچے کیا تاکہ پڑھنے کی نوبت ہی نہ آئے … عمل کرنا تو دور کی بات … اور یہ سب شاید اس لیے کہ یہ پریوں کا میلہ تھا… خالص بچوں کے لیے۔ رنگ برنگے، ہلکے سفید یا چمکیلے کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں پریاں فرشتوں کی بجائی جارہی میٹھی موسیقی کی دھنوں پر محوِ رقص ہوکر میلے میں چار چاند لگا رہی تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک پری دلکش سے دلکش انداز میں میلے میں آئے بچوں کا دل جیتنے کے لیے جی جان سے مصروف تھی۔ میں دورکھڑا ان کا یہ دلفریب تماشا بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک ایسی پری پر پڑی جو دیکھنے میں باقی سبھی پریوں سے مختلف تھی… دودھ سے نہلائی جس کی ہر ادا اوروں سے بالکل الگ اور سب سے زیادہ حسین… اس کی نظر بھی میرے اوپر ایسے پڑی کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ سارا میلہ اس کے بغیر بیکار ہے۔ لیکن تختی پر لکھی تحریر کو ذہن نشین کرکے میں ایک دم وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا… مگر صرف چند قدم چل کر ہی میرے پیر جواب دینے لگے اور خود بخود رک گئے اور میں لگاتار اسی پری کی جانب تکتا گیا… وہ مسکرائی اور اپنے برف جیسے سفید پنکھ اس طرح پھڑپھڑائے جیسے مجھے میلے میں آنے کے لیے دعوت دے رہی ہو… لیکن اب کی بار مجھے پاگل فقیر کے وہ الفاظ یاد آگئے اور میں اپنی راہ پر اپنی منزل کی جانب گامنزن ہوگیا… پری کے چہرے پر افسردگی کے آثار چھا گئے اور اس کی پلکوں پر موتی جیسے آنسوؤں کی دو بوندیں بھی نمودار ہوئیں، جس سے میرے قدم پھر لڑکھڑائے۔ پری شاید میری اندرونی کیفیت تاڑ گئی اور مجھے دونوں ہاتھوں سے پاس آنے کا اشارہ کیا اور میں اپنی تختی وہیں چھوڑ میلے میں دوڑا دوڑا چلا آیا…
جنت سے اتری اُس پری جس کے چہرے سے ہزاروں آفتابوں کی روشنی سے سارے کائنات کو منور کرنے کا گمان ہوتا تھا… جس کے سنگ مرمر جیسے بدن او رکالی گھٹا جیسی زلفوں کی خوشبو دور دور تک ہوا کو معطر کررہی تھی … جس کے غنچۂ دہن سے نکلتا ایک ایک لفظ ترنم کی حدود کو پار کرکے کوئل اور عندلیب کو بھی مات دینے کے لیے مؤثر تھا… اسی نے مجھے گود میں اٹھا کر سارے میلے کی سیر کرائی… مجھے طرح طرح کے میٹھے، لذت دار اور رسیلے پھل کھلائے اور ایسے ایسے اچھے کھیل و کرتب دکھلائے جو میں نے اب تک کہیں بھی کبھی بھی دیکھے ہی نہ تھے۔ میں خوشی سے پھولا نہ سمایا اور زور زور سے قہقہے بلند کرتا گیا، یہاں تک کہ ہم اس جگہ آپہنچے جہاں پر والا ایک آسمانی گھوڑا پرواز کررہا تھا۔ میں نے پری سے اسی گھوڑے پر سواری کرنے کی فرمائش کی جس پر وہ بولی کہ آسمانی گھوڑے کی سواری سارے میلے کی سیر ختم کرکے سب سے آخر میں کرائے گی اور میں چپ ہوگیا… اور پھر جب میلے میں کچھ اور دیکھنے کو باقی رہا ہی نہیں تو میں نے آسمانی گھوڑے کی سواری کا مطالبہ پھر دہرایا جس پر وہ پری بڑی اداس ہوگئی اور بولی کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ گھوڑا فرشتوں کا ہے اور ان کے بغیر اس پر کوئی بھی سوار نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا میں بھی تو فرشتہ ہوں … میلے میں آیا ہوا ہر بچہ تو فرشتہ ہی ہے۔ کیونکہ میری ماں کہا کرتی تھی کہ بچے فرشتوں کا ہی روپ ہوا کرتے ہیں تو پھر میں اس آسمانی گھوڑے پر کیوں نہیں اڑ سکتا … پر وہ مسلسل انکار کرتی رہی اور میں اپنی ضد پر اڑا رہا… میں گِڑگڑایا اور زاروقطار رویا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی… میں اتنا رویا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک دریا سا امڈ پڑا اور پھر ایک سیلاب میں تبدیل ہوگیا، دیکھتے ہی دیکھتے جس میں ہر ایک شئے ڈوبتی گئی … سارا میلہ تہس نہس ہوگیا، کہیں کچھ بھی نہ بچا… اور پھر میری پری مجھے یہ دِلاسا دے کر کہ وہ اڑنے والے آسمانی گھوڑے کو ڈھونڈ کے لائے گی وہ بھی غائب ہوگئی… مجھے تنہا یہاں چھوڑ کر … اُسی جگہ جہاں ایک وقت پر رونق میلہ لگا کرتا تھا… میرے دماغ میں کبھی بھی یہ خیال نہیںآیا کہ اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہوگا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ پریاں کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتیں… اس طرح روتے روتے میں سوگیا اور جب جاگ پڑا تو میں کھوگیا تھا… اُسی جیسے میلے کی بھیڑ میں … پر اس وقت نئے چہرے، نئی پریاں تھیں مگر کھیل وہی پرانے، کرتب وہی پرانے… اور ایک میں بھی وہی پرانا … گمشدہ… اپنی تلاش میں … اپنے وجود کی تلاش میں …۔