بے درد دنیا

تحریم اعظم

شام کو آفس سے آتے ہوئے وہ بچے اکثر مجھے دکھائی دیتے۔ چار سے چھ سال کے لگ بھگ تین بچے۔ دبلے پتلے، کالے چہرے، جو شاید دھوپ کی تپش سے اور بھی زیادہ سیاہ ہوگئے تھے۔ اسٹاپ پر آنے والی ہر بس میں چڑھ کر پیسے مانگا کرتے۔ اکثر مجھے ان بچوں کی آنکھوں میں حسرت اور غربت دیکھ کر تر س آجاتا اور میں اپنی جیب سے کچھ سکے نکال کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا۔ کبھی نہیں ہوتے تو نظر اندازکردیتا۔

آفس سے واپسی پر گھر پہنچتا تو میرے بچے ’’پپا… پپا‘‘ کہہ کر والہانہ استقبال کرتے۔ آتے ہی میرے گلے سے لٹک جاتے اور ہٹنے کانام نہ لیتے۔ فاطمہ کے زبردستی اتارنے پر کہ ’’بچو! پپا کو جوتے تو اتارنے دو۔‘‘ وہ خود ہی میرے جوتے اتارنے لگ جاتے۔

یہ تھی میری چھوٹی سی دنیا… مریم، علی اور میری پیاری بیوی فاطمہ۔ فاطمہ اکثر مجھ سے شکایت کرتی کہ آپ آفس کو بہت زیادہ وقت دیتے ہیں، آپ کے آتے آتے مغرب ہوجاتی ہے۔ بچوں کو کہیں گھمانے پھرانے کا وقت نہیں ملتا۔

میرا جواب یہی ہوتا: ’’فاطمہ! یہ سب میں تمہارے اور بچوں ہی کے لیے تو کررہا ہوں۔ دعا کرو ترقی ہوجائے تو پھر وقت پر آنے کا امکان ہے۔‘‘

میرا جواب سن کر فاطمہ مطمئن ہوجاتی اور کبھی خاموش۔ میرا اور فاطمہ کا شروع ہی سے خواب تھا کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں اور ہر آرام اور سہولت فراہم کریں۔ سواسی جدوجہد میں زندگی گزررہی تھی۔

آج گھر واپس آتے ہوئے میں جونہی اس اسٹاپ پر رکا، انہی بچوں میں سے ایک بچہ میری طرف مسکین سی صورت بناکر آیا اس نے ہاتھ سے منہ کی طرف اشارہ کیا، گویا کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا ہو۔

میرے منہ سے نکلا: ’’کیا تم بول نہیں سکتے؟‘‘

اس پر برابر والے آدمی نے ایک زور دار تھپڑ اُس کے منہ پر رسید کیا اور گالی دیتے ہوئے کہا: ’’مانگنے کے لیے گونگا بن رہا ہے۔‘‘

اس پر آس پاس والوں نے بھی بڑبڑانا شروع کردیا ’’ہاں محنت کریں گے نہیں، مانگنے کے لیے الٹے سیدھے ہتھکنڈے ڈھونڈلیے ہیں۔‘‘ بے چارہ تھپڑ کھاکر گال پر ہاتھ رکھتا ہوا اتنی تیزی سے بس سے نیچے اترا کہ شاید لڑکھڑا کر گرجاتا۔

میں نے فکر مندی سے اس کی طرف دیکھا۔ میرا دل دکھا لیکن میں خاموش رہا کہ ’’وہ میرا مانگنے والا تھا۔‘‘ میں نے بس کے دروازے میں سے دیکھا کہ وہ اسٹاپ سے ذرا فاصلے پر جاکر ایک عورت کے پاس بیٹھ گیا۔ شاید وہ اس کی ماں تھی۔ ٹانگوں سے محروم، بیساکھی لیے ہوئے۔ اس نے بچے کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ اس منظر نے دل اور دکھا دیا۔

گھر پہنچ کر میں نے یہ قصہ فاطمہ کو سنایا۔ وہ بھی رنجیدہ سی ہوگئی۔ پھر تھوڑی دیر میں بھول بھال کر ہم کھانا کھانے لگے اور بچوں میں مصروف ہوگئے۔

آج آفس میں کچھ زیادہ ہی مصروفیت رہی تھی۔ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ جلدی جلدی کام سمیٹا اور گھر کی طرف روزانہ ہوگیا۔ بس میرے اسٹاپ سے کچھ پہلے ہی رک گئی۔ آس پاس کچھ ہنگامہ ہورہا تھا۔ میں نے سوچا خدا خیر کرے آج کیا ہوگیا؟

پولیس بھی کھڑی نظر آرہی تھی، جو سڑک کے ایک طرف جھونپڑے نما گھر کو گھیرے میں لیے کھڑی تھی۔ کچھ مشتعل لوگ حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ بس کو خالی کرالیا گیا۔

میرا گھر تھوڑے ہی فاصلے پر تھا، میں نے سوچا پیدل ہی چلا جاتا ہوں۔ پھر خیال آیا دیکھوں تو ہوا کیا ہے؟

لوگوں کی کافی بھیڑ تھی۔ ذرا کوشش کے بعد اندر کی طرف پہنچا تو دل کو ایک دھچکا سا لگا۔

وہی تین معصوم بھکاری بچے اور ان کی ماں کی لاش گھر کے کچے فرش پر بکھری تھیں۔ چہروں پر افلاس کی دھند تھی جو معاشرے کے ہر فرد سے شکوہ کررہی تھی کہ ہم کو بے زبان سمجھ کر ہی اس بے رحم دنیا نے کبھی ہمارے درد کو سمجھا ہوتا۔ غربت کی ماری ماں فاقوں سے تنگ آکر اپنے تینوں بچوں سمیت زہر کھاکر رخصت ہوگئی تھی۔

ایک پولیس والے نے لوگوں کو پیچھے ہٹا کر گھر کے کونے سے ایک میلی سی چادر ان کے اوپر ڈال دی۔

میرے ذہن میں کل والا واقعہ گردش کررہا تھا۔ وہ ماں جس کی محبت بھری آغوش میں بچے پناہ لیتے تھے، وہ ہاتھ جو پیار سے ان کو بوسہ دینے کے لیے بلاتے تھے، انھوں نے کیسے انہیں زہر کھلایاہوگا!

چھٹی کا دن آیا تو بچوں کے اصرار پر انہیں گھمانے لے گیا، لیکن ان بچوں کے چہرے ابھی بھی میرے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ میں پارک میں یونہی گم صم بیٹھا تھا۔ کاروبارِ زندگی جاری تھا۔ لوگ کھانے پینے، شاپنگ کرنے اور گھومنے پھرنے میں مگن تھے۔ میں سوچ رہا تھا ’’اُف خدایا! کتنی بے حس دنیا ہے۔ کتنے بے حس ہم لوگ ہیں۔ ایک گھرانا افلاس کے ہاتھوں ختم ہوجاتا ہے لیکن ہم اسی طرح مگن ہیں

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146