انھوں نے اپنی اس بہو کے لیے بہت پاپڑ بیلے تھے، وہ جگہ جگہ جاکر لڑکیاں دیکھتی تھیں۔ انہیں ایک بہت ہی دبلی پتلی (slim) سی لڑکی درکار تھی جس کا حسن چاند کو بھی مات کرتا ہو۔ نیز اس کا قد بھی لمبا ہو اور وہ کم از کم ڈاکٹر یا انجینئر ہو۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے کہاں کہاں ناشتے نہیں کیے۔ دو تین جگہ ایسا بھی ہوا کہ لڑکی والوں کے گھر میںانہیں لڑکی پسند آگئی اور انھوں نے والدین کو اپنی منظوری سے بھی مطلع کردیا لیکن گھر جاکرانہیں نہ جانے کیا ہوا کہ ان کے ارادے بدل گئے اور انھوں نے فون کرکے لڑکی والوں کو مطلع کیا کہ وہ ابھی ایک دو گھر اور دیکھ رہی ہیں۔ لڑکا ان کا لمبے قد کا اور MBAتھا، تاہم اس کارنگ نسبتاً دبا ہوا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے کی بہو آئے تو وہ دراز قد ہو، کوہ قاف کی پریوں جیسی ہو، انجینئر یا ڈاکٹر ہو اور بالکل دبلی پتلی ہو۔ یوں بہت جدوجہد کرکے آخر کار انہیں اپنی موجودہ بہو پسند آگئی تھی۔ لیکن قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ جس لڑکی کو slimہونے کے لحاظ سے وہ پسند کرکے لائی تھیں، شادی کے بعد اس کے جسم نے از خود پھیلنا شروع کردیا جیسا کہ عام طور پر شادی کے بعد لڑکیوں کا معاملہ ہوا کرتا ہے۔ شادی سے پہلے ان کی بہو محض ۴۵ کلو کی تھی لیکن شادی کے ایک ڈیڑھ سال بعد وہ بڑھ کر ۶۰ کلو کی ہوگئی۔ یوں اس کا slimاور اسمارٹ سا بدن گول مٹول بدن میں تبدیل ہوگیا۔ شوہر اور ساس نے بہت ڈائٹنگ کروائی مگر اس کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور یوں محض ڈیڑھ سال کے بعد ساس صاحبہ کی ساری جدوجہد اکارت گئی۔ جس موٹی لڑکی کو وہ اپنے گھر سے دور رکھنا چاہتی تھیں، وہ خود ان کے گھر میں مستقل طور پر آکر بیٹھ گئی۔
٭٭
یہ ایک دوسرے گھرانے کا قصہ ہے۔ انھیں اپنی بہو کے لیے بہت ساری شرائط تو نہیں چاہیے تھیںتاہم حسن پر سمجھوتہ کرنے پر وہ ہرگز تیار نہ تھے۔ تین چار لڑکیاں انہی نے ایسی چھوڑی تھیں جن میں اگرچہ چمکدار حسن تو نہ تھا لیکن سیرت میں وہ دوسری بہت سی لڑکیوں سے آگے تھیں۔ خود ان کے محلے والے کہا کرتے تھے کہ جن گھروں میں یہ لڑکیاں جائیں گی، اپنے حسن کردار سے وہ ان گھروں میں اجالا کردیں گی۔ لیکن اس گھرانے کو حسنِ کردار کی نہیں، حسنِ رخسار کی تلاش تھی۔ یوں بالآخر انھوں نے ایک مہ جبیں پر ہاتھ رکھ ہی دیا۔ یہ بیٹی واقعی ہمارے بیٹے کی دلہن بننے کے لائق ہے۔ لڑکے کی والدہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ادھر وہ اپنی بہو کو شادی کرکے لائیں اور ادھر محض ایک سال کے عرصے میں ’’مہ جبیں‘‘ کے پیروں پر سفید داغ پڑنے لگے۔ انہیں بہت تشویش ہوئی اور اس کا علاج بھی انھوں نے بہتیرا کرایا لیکن سفید داغ رکنے کے بجائے مزید بڑھنے لگے۔ لڑکے کے گھر میں برص کا یہ مرض پہلے کسی کو نہ تھا لیکن ہونے والی بات تو ہوکے ہی رہتی ہے۔ داغ بڑھتا رہا اور پہلے اس نے ہاتھوں کی انگلیوں پر اپنا اثر چھوڑا اور بعد میں پورا چہرہ برص کی رنگت میں تبدیل ہوگیا۔ یہ لڑکی حسین سے مزید حسین تر ہوئی لیکن اس طرح کہ اس کی کشش داغ دھبوں میں کہیں دب گئی۔ حسین سے حسین تر کئی گھرانے کی تمام جدوجہد ایک سال بعد آخر کار اکارت گئی۔
٭٭
یہ ایک تیسرے گھرانے کی الم ناک داستان ہے۔ لڑکا انجینئر تھا لیکن اسے ایک ایسی کمانے والی لڑکی درکار تھی، جس کی آمدنی کم از کم بیس ہزار روپے ماہانہ ہو۔ لڑکے کی فرمائش پر ماں باپ ایک کے بعد دوسرے، اور دوسرے کے بعد تیسرے گھر کے چکر لگاتے رہے۔ انہیں لڑکیاں ملتی رہیں کیونکہ آج کل لڑکیوں کے ملازمت کرنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن جو بھی ملازمت پیشہ لڑکی ملتی، اس کی تنخواہ آٹھ دس ہزار روپے سے زیادہ نہ ہوتی۔ ان کابیٹا ایسی لڑکیوں کو فوراً نامنظور کردیتا۔ آخر کار اس کے والدین کو ایک پرسنل سکریٹری لڑکی مل ہی گئی۔ تنخواہ بھی اس کی بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ علاوہ ازیں اسے کمپنی کی دیگر سہولیات بھی حاصل تھیں۔ لڑکے کی تو گویا چاندی ہوگئی۔ اسے ایسی ہی شاندار کماؤ بیوی کی تلاش تھی۔ اب ہم دونوں کی تنخواہیں مل کر ایک شاندار رقم بن جائے گی جس کے بعد ہم ایک چھوٹی سی خوب صورت کار لیں گے اور چند سالوں کے بعد ایک حسین سا مکان لیں گے۔ لڑکا تصورات ہی تصورات میں اپنے تابناک مستقبل پر ناز کرتا۔
لیکن جب وہ لڑکی اس کی بیوی بن گئی تو اس کے اصل جوہر کھلنے لگے۔ میں اس تنخواہ میں تمہیں حصے دار نہیں بننے دوں گی۔ یہ آمدنی میری ذاتی ہے۔ لڑکی اپنے شوہر سے کہتی۔ ’’بیوی بچوں کا خرچہ اٹھانا شوہر کے ذمے ہے نہ کہ بیوی کے ذمے۔‘‘ لڑکی دلائل دیتی۔
یوں اس گھر میں تنخواہوں کے مسئلے پر کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ آئے دن میاں بیوی میں جھگڑا رہنے لگا۔ لڑکا کہتا کہ اگر تم اپنے پیسے نہیں ملاؤ گی تو میں بھی اپنی تنخواہ تم پر خرچ نہیں کروں گا۔ آج ان کا یہ حال ہے کہ دونوں کے دلوں کا سکون لٹ گیا ہے۔ لڑکی آئے دن اپنے میکے جاتی رہتی ہے اور لڑکے کی مذمت اکثر و بیشتر اس کے والدین ہی کرتے رہتے ہیں۔ ’تابناک مستقبل اور حسین و جمیل گھر‘ کا لڑکے کا خواب ابتدا ہی میں چور چور ہوکے رہ گیا۔
٭٭
مسز زید کو اپنی بیٹی کے لیے حسب و نسب کی تلاش تھی۔ ’’لڑکے کا تعلق ہمارے ہی علاقے اور ہماری ہی ذات سے ہو۔ علاقہ اور ذات نہ ہو تو اس شادی کا کیا فائدہ؟‘‘ مسز زید دوسروں کو سمجھاتیں۔ حسب و نسب دیکھنا بہت ضروری ہے۔ چھ سات رشتے انھوں نے محض اسی وجہ سے رد کردیے کہ یا تو مذکورہ لڑکے ان کے خاص علاقے سے تعلق نہ رکھتے تھے، اور اگر ان کا تعلق تھا بھی، تب بھی وہ ان کی ذات سے بہت دور تھے۔ حسب و نسب کی اسی تلاش نے ان کی بیٹی کی عمر بہت بڑھا دی تھی۔ وہ بائیس سے چوبیس اور چوبیس سے چھبیس سال کی ہوگئی تھی۔ لڑکیاں بے چاری اللہ میاں کی گائے ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں وہ چپ چاپ اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر آمادہ عمل رہتی ہیں۔ لوگوں نے مسز زید کو بہت سمجھایا کہ آپ ذات اور علاقے پر زیادہ اصرار نہ کریں لیکن وہ کہا کرتی تھیں کہ جدوجہد سے انسان کو منزل مل ہی جاتی ہے۔ ’’میں اپنی پیاری بیٹی کو غیروں کے ہاتھوں میں کیوں کرے دے دوں؟‘‘ وہ سمجھانے والے سے سوال کرتیں۔
تاہم بڑی تگ ودو کے بعد انہیں ایک گھرانا ہاتھ آہی گیا جو حسب و نسب میں بالکل ان کا ہم پلہ اور علاقے کے لحاظ سے بھی انہی کا تھا۔ اگرچہ لڑکے کی عمر ۴۰؍سال کی تھی لیکن مسز زید اس رشتے سے بہت خوش تھیں۔ چنانچہ ایک تاریخ کو انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ کو اپنے داماد کے ہاتھوں میں دے کر اسے گھر سے رخصت کردیا۔
لیکن یہ کیا؟ لڑکا تو بہت سخت گیر اور آوارہ منش نکلا۔ بے شمار لڑکیوں سے اس کے تعلقات تھے اور آئے دن کوئی نہ کوئی لڑکی اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر نظر آتی۔جب اس کی بیوی دریافت کرتی تو وہ اسے جھڑک دیتا۔ میں صرف اپنا دل بہلاتا ہوں۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ پھر اگر اس کی بیوی زیادہ اصرار کرتی تو وہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتا۔ یوں لڑکیاں اور ’’تشدد‘‘ اس گھر کا روز کا معمول بن گئے۔ لڑکے کا حسب و نسب آن واحد میں فاش ہوگیا۔ وہ اچھے نسب کا ہوکر بھی بدترین کردار کا ثابت ہوا۔ مسز زید کا پسند کردہ حسب و نسب ان کی بیٹی کے کچھ بھی کام نہ آیا۔ بلکہ یہ الٹا اس کے لیے دکھوں کا سبب بن گیا۔
رشتوں ناطوں کی تلاش میں اوپر ہم نے چند عملی مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ مثالیں ہماری روز مرہ زندگی میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور آئے دن ان سے ہمارا سابقہ پیش آتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود رشتے کی تلاش میں خود ساختہ معیارات کی ہماری طلب کم نہیں ہوتی۔
ان خود ساختہ مادی معیارات نے ہمارے گھرانوں میں کتنا زہر گھولا ہے، یہ ہم سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ لیکن ہم ان ’’معیارات‘‘ سے پیچھے ہٹنے کو تیار بھی نہیں ہیں۔
اسی لیے ہمارے پیغمبر نبی کریم ﷺ نے واضح ہدایت فرمادی کہ ’’لوگ حسن، مال و دولت اور حسب نسب کے رشتے تلاش کرتے ہیں، لیکن تم دین کی بنیاد پر رشتے تلاش کیا کرو۔ اللہ تمہارا بھلا کرے۔‘‘ آپ ﷺ کی یہ حدیث دوسری تمام بیسیوں نصیحتوں کا خوبصورت نچوڑ ہے۔ کاش ہم رشتوں کی تلاش میں ایک بار پھر دین کو بنیاد بنانے لگ جائیں۔ یہ حدیث ہمیں ہمارا دین بھی لوٹا تی ہے اور ہمارے گھروں کا سکون بھی