’’قرآن اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے دنیا کے تمام انسانو کے نام‘‘ جب یہ بات ایک غیر مسلم کو بتائی گئی تو اس کا ردِ عمل تھا کہ ’’یہ بات آپ کو بہت دیر سے معلوم ہوئی؟‘‘ ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا ’’کیا قرآن ہر کوئی پڑھ سکتا ہے؟‘‘ جی ہاں! کیا کوئی دلت بھی قرآن پڑھ سکتا ہے؟ کیوں نہیں؟ ارے میں تو سمجھتا تھا کہ اسے برہمنوں اور اونچی ذات والوں کی طرح صرف ’مولانا‘ اور اونچی ذات کے لوگ ہی پڑھ سکتے ہوں گے۔ بڑے دنوں سے خواہش تھی اور آج یہ خواہش پوری ہوگئی۔‘‘ یہ احساسات ایک دلت کے تھے جو یوپی کے انتہائی پسماندہ ضلع باندہ سے آیا تھا۔ وہ مختلف دھارمک کتابوں کی تلاش میں دہلی میں منعقد ہونے والے عالمی کتاب میلے میں گھوم رہا تھا۔
اعداد و شمار تو بعد میں شائع ہوں گے لیکن اتنا طے ہے دہلی کے پرگتی میدان میں ۳۰؍جنوری سے ۷؍فروری تک منعقد ہونے والے عالمی کتاب میلے میں سب سے زیادہ حاصل کی جانے والی کتاب قرآن مجید رہی ہوگی۔ مولانا وحید الدین خاں کے ادارے گڈورڈ پبلیکیشنز، مدھر سندیش سنگم، مرکزی مکتبہ اسلامی اور الحسنات کے علاوہ کئی پبلشرز ایسے تھے جہاں ہندی و انگریزی قرآن دستیاب تھا۔مدھر سندیش سنگم اہل وطن کو بہت معمولی ہدیے پر ہندی قرآن فراہم کررہا تھا۔
مدھر سندیش سنگم کے منیجر ناظر الدین کا خیال ہے کہ اس بار عالمی کتاب میلے میں جو کتاب سب سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی وہ قرآن ہو ہوگا۔ کیونکہ میری معلومات کے مطابق ۱۵؍ہزار سے زیادہ نسخے غیر مسلم افراد نے حاصل کیے۔ ان میں دس ہزار سے زائد نسخے سلام سینٹر کے اسٹال سے حاصل کیے گئے۔
ان تمام نسخوں میں سب سے زیادہ نسخے بنگلور کے سلام سینٹر سے حاصل کیے گئے جو ہندی اور انگریزی زبانوں میں برادرانِ وطن کے درمیان قرآن مجید دعوتی مقصد سے ہدیتاً تقسیم کررہا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق سلام سینٹر سے لوگوں نے تین ہزار سے زائد DVD’sاور دس ہزار سے بھی زیادہ انگریزی و ہندی میں قرآن کے نسخے حاصل کیے۔ سلام سینٹر نے لوگوں سے ایک فارم بھی بھروایا تھا،جس میں قرآن حاصل کرنے والوں کا پورا ڈاٹا موجود ہے۔
وہ ایسا کیوں کررہے تھے؟ اس کے جواب میںاسٹال پر موجود ذمہ دار عبدالملک نے بتایا کہ ’’ہم مستقبل میں ان تمام افراد سے ربط رکھنے اور پڑھنے کے بعد ان کے اشکالات کا جواب دینے اور فالو اپ کرنے کا ادارہ رکھتے ہیں۔‘‘ اور یہ یقینا دعوتی نقطۂ نظر سے مناسب اور ضروری ہے۔
سلام سینٹر پر قرآن حاصل کرنے کے لیے آئے غیر مسلم شائقین کی بھیڑ جہاں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی وہیں حاملینِ قرآن کے لیے لمحۂ غوروفکر بھی تھی۔ غیر مسلم برادرانِ وطن میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد نظر آئی جنھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ کئی سالوں سے ہندی زبان میں قرآن پڑھنے کے خواہش مند تھے مگر کوشش کے باوجود ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوسکا کہ وہ قرآن حاصل کرسکیں۔
ایک غیر مسلم چپل اتار کر اسٹال میں داخل ہوا۔ جب اس سے کہا گیا کہ چپل اتارنے کی ضرورت نہیں تو اس کا جواب تھا: ’’قرآن ایشور کی پوتر واڑی ہے، اور جس جگہ سے مجھے یہ حاصل ہورہی ہے میں وہاں چپل پہن کر کیسے جاسکتا ہوں۔‘‘ سلام سینٹر کے اسٹال پر شائقین قرآن کی یوں تو تمام ہی دس روز دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بھیڑ نظر آتی تھی مگر ۷؍جنوری اتوار کے روز جو میلے کا آخری دن تھا یہ بھیڑ ایسی امڈی کہ اسٹال پر موجود ۱۴؍افراد کے عملے کے لیے بھی سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ یہ صورت حال دوپہر دو بجے سے شام چھ بجے تک جاری رہی۔
سلام سینٹر پر کام کررہے ایک رضا کار سے جب اس کا تاثر معلوم کیا گیا تو اس کا کہنا تھا۔ ’’اس دوران غیر مسلموں کے سلسلہ میں میرا نظریہ ہی تبدیل ہوگیا۔ پہلے میں ہر سادھو، سادھو نما اور اونچی ذات کے شرما اور مشرا کو اسلام مخالف، مسلم مخالف اور قرآن مخالف ہی سمجھتا تھا۔ مگر یہا ںان کے تاثرات اور قرآن کے لیے ان کی خواہش اور احترام کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ برادرانِ وطن میں اس ایشور واڑی کو جاننے اور سمجھنے کی زبردست چاہت اور خواہش ہے۔ یہ دن جو میں نے یہاں گزارے میرے علم، تجربے اور دعوتی جذبے کو مہمیز کرنے والے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ایک بڑا مارکیٹ ہے وہیں داعیانِ دین کے لیے بھی ایک انتہائی وسیع میدان دعوت ہے۔ اور دعوت کے میدان میں قرآن کریم ایسا کار گر اور دھاردار ہتھیار ہے جو اسلام دشمنی کے جذبے کا قلعہ قمع بھی کرسکتا ہے اور نفرت کی دھار کو کند بھی کرسکتا ہے۔ اس کا اندازہ مختلف مواقع پر مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے تعارف قرآن کی مہمات کے دوران ہوتا رہا ہے۔
قرآن کریم اپنے آپ میں ایسا پرتاثیر کلام ہے، جس نے عہد رسالت میں بھی اسلام دشمنی کا سرقلم کیا ہے اور آج بھی کرسکتا ہے۔ حضرت عمر فاروق پر آیاتِ الٰہی کی تلوار ہی پڑی جس نے ان کے کفر کی گردن کاٹ دی اور قتل کے ارادے سے نکلے مگر انقلاب سے ہمکنار ہوئے۔ کفار و مشرکین کا عالم یہ تھا کہ وہ دن میں اسلام، رسول اور قرآن کی مخالفت کرتے مگر رات میں چھپ چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے۔ جب اس کی تاثیر اس حد تک لوگوں میں دیکھی گئی تو مشرکین مکہ نے یہ اسکیم بنائی کہ جب اور جہاں قرآن پڑھا جارہا ہوں وہاں خوب شوروہنگامہ کرو تاکہ لوگ اسے سن نہ سکیں۔
موجودہ عالمی سیاسی تناظرمیں اگر دیکھیں تو ہر جگہ کفار و مشرکین کی یہی اسکیم روبہ عمل ہے البتہ اس کی شکل تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ اس وقت وہ کہیں قرآنی تعلیمات پر اعتراضات کی صورت میں ہے تو کہیں اسے دہشت گردی کا داعی بتانے کی صورت میں، کہیں خواتین کے معاملات کو لے کر اعتراضات کی صورت میں ہے تو کہیں قرآن کے حکم حجاب کو لے کر۔ لیکن مقصد ایک ہے اور وہ ہے کہ کسی طرح لوگوں کو قرآن اور اسلام کی طرف آنے سے روکا جائے۔
امت مسلمہ اگر اس اسکیم کو سمجھ جائے اور قرآن اور اس کے پیغام کے ساتھ دعوت کے اس ’’مارکیٹ‘‘ میں قدم رکھے تو ’خریداروں‘ کی بڑی تعداد اسے حاصل ہوسکتی ہے اور اس اقدام کے نتیجہ میں نہ صرف اسلام دشمنی کی دھار کو ڈھایا جاسکتا ہے بلکہ حقیقت میں ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو نورِ الٰہی سے منور کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے باشعور لوگوں، اہلِ ثروت افراد اور داعیان دین کے اندر اس کی اہمیت اور اس کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس و شعور بیدار ہو۔
ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے، جہاں تعارف قرآن کی ایک مجلس میں امیر جماعت کے خطاب کے بعد ایک اسّی سالہ بوڑھا لاٹھی ٹیکتا ہوا موٹا سا چشمہ درست کرتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ آپ اب تک کہاں تھے۔ اب میں اسّی کی دہائی پار کرچکا ہوں، نہ پڑھ سکتا ہوں اور نہ بنا سہارے کے چل سکتا ہوں ایسے میں یہ ایشور کا سندیش آپ مجھ تک پہنچا رہے ہیں۔ میری ساری زندگی اندھیرے میں گزری اور اب میں روشنی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ مسلمان لوگ۔‘‘
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک سلام سینٹر نہیں بلکہ اس جیسے سیکڑوں سنٹرس قائم کیے جائیں اور امت توجہ، فراخ دلی اور تن دہی کے ساتھ لوگوں تک قرآن کی تعلیمات کو پہنچانے میں لگ جائے۔