جہنم ایک ایسا ہولناک ٹھکانہ ہے، جس کے تصور سے بھی لرزہ طاری ہوتا ہے اس کے باوجود کبھی کبھی جہنم کا تصور کرنا چاہیے تاکہ انسان گناہوں سے بچتا رہے اور اس پر ہمیشہ خشیتِ الٰہی طاری رہے۔ کیونکہ جب انسان قبر کے منظر کو یاد کرتا ہے اور دوزخ کی ہولناکیوں کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل پر اثر ہوتا ہے اور وہ گناہوں سے تائب ہوتا ہے اور اچھے کاموں کی طرف بڑھتا ہے مگر جو شخص موت، جہنم اور قبر کو یاد نہیں کرتا، وہ اکثر سنگین گناہوں کا مرتکب ہوجاتا ہے کیونکہ اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ ایک دن اسے اپنے کیے ہوئے برے کاموں کا جواب دینا پڑے گا اور اسے اس کی سزابھگتنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بکثرت موت کو یاد کرتے، قبر اور جہنم کا ذکر آتا یا قرآن کی آیات پڑھتے تو روتے روتے برا حال ہوجاتا۔
جہنم ایسا برا ٹھکانہ ہے جہاں انسان کو مسلسل سخت تکلیف ملے گی اور وہاں راحت کا کوئی تصور بھی نہ ہوگا۔جہنم میں کیسی کیسی پریشانیاں اور ہولناکیاں ہوں گی، اس کا تفصیل کے ساتھ قرآن میں ذکرموجود ہے۔ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ جو (بدن کو چھوتے ہی) دلوں تک جاپہنچے گی۔ لاریب اس میں وہ بند کردیے جائیں گے۔ وہ آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (الہمزۃ)
جہنم میں سخت قسم کی آگ ہوگی اور اس کا ایندھن انسان ہوں گے، اس میں ایسے انسانوں کو جھونکا جائے گا، جو اللہ کی نافرمانی کی زندگی میں مگن رہے۔ اس لیے انسان کو اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، نہ صرف خود اس سے محفوظ رہنے کی فکر کرنی چاہیے، بلکہ اپنے رشتہ داروں، قریبی اعزہ اور اور بالآخر تمام انسانوں کو اس سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، اس پرتند خو، سخت مزاج فرشتے نگراں ہیں، وہ کبھی خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا خدا کی طرف سے انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ (التحریم :۶)
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو آگ دوزخ میں بھڑکتی ہوئی ہوگی، اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور اس سے راہ فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ دیکھ بھال کے لیے سخت مزاج فرشتوں کو نگراں مقرر کیا جائے گا جو اللہ کے حکم کے مکمل تابعدار ہیں۔
جہنم گناہ گاروں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے جس انسان کو بھی اس میں ڈال دیا گیا وہ کبھی اس سے نہ نکالا جائے گا۔ چاہے وہ اس میں کتنی ہی چیخ و پکار کریں یا مددگار کو پکاریں، نہ ان کی چیخ و پکار کام آئے گی اور نہ ان کی مدد کو کوئی آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ انھیں موت آئے گی کہ مرہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، کوئی کافر ہو ہم اس کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں اور یہ لوگ دوزخ میں چیخ پکار مچائیں گے۔ اے ہمارے پروردگار! ہمیں (یہاں سے) نکال لے ہم اچھے اچھے کام کریں گے، نہ وہ جو پہلے کرتے تھے، (کہا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جو سمجھنا چاہتا، سمجھ سکتا تھا اور تمہارے پاس آگاہ کرنے والا بھی آچکا تھا اب مزہ چکھو، ظالموں کا یہاں اب کوئی مدد گار نہیں۔‘‘
(الفاطر:۳۶-۳۷)
جہنم کے مکینوں کے لیے کھانے کا تصور بھی بڑا لرزہ خیز ہے۔ دنیا کی زندگی میں لذیذ اور اعلیٰ درجہ کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے والے انسان ذرا سوچیں کہ جب انھیں کھانے میں خاردار جھاڑیاں دی جائیں گی تو ان کا کیا حال ہوگا۔ ارشاد باری ہے:
’’اور کھانے کے لیے ان کو خاردار جھاڑی کے علاوہ کچھ نہ ملے گا جس سے نہ بدن کو قوت ملے گی اور نہ بھوک ہی رفع ہوگی۔‘‘ (الغاشیہ: ۶-۷)
ایسے ہی جب وہ پانی مانگیں گے تو ان کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہوگا جو ان کے منہ بھون ڈالے گا۔‘‘ (الکہف: ۲۹)
غور کرنے کا مقام ہے کہ دنیا میں انسان قدرے گرم پانی پینا نہیں چاہتا، بلکہ ہر شخص ٹھنڈے پانی کا خواہش مند ہوتا ہے اور بہت سے لوگ تو برف کا ٹھنڈا پانی پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ پھر جہنم میں اس قدر کھولتا ہوا پانی کیسے پیا جائے گا اور اس کو پیتے ہوئے کتنی تکلیف ہوگی۔ غور وفکر کا مقام ہے۔
دنیا کی زندگی میں نرم اور آرام دہ لباس کی خواہش رکھنے والے اور ریشم و کمخواب اور سونے چاندی کے تاروں سے آراستہ خوبصورت لباس زیب تن کرنے والے کیا جہنم کے اس تکلیف دہ لباس کا تصور کرسکتے ہیں جس کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا ہے کہ:
’’پس کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جاچکے ہیں، ان کے سروں پر کھولتا پانی انڈیلا جائے گا، جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں، پیٹ کے اندر تک کے حصے گل جائیں گے اور ان کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گرزہوں گے جب وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھتے رہو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔‘‘ (الحج:۱۹-۲۲)
جہنم میں موت بھی نہیں آئے گی چاہے کوئی کتنا بھی موت کا مطالبہ کرے یا مرنے کی کوشش کرے، وہاں موت نہ آئے گی اور دوزخ کا عذاب یوں ہی سہنا پڑے گا۔ ارشاد باری ہے:
’’یہ حقیقت ہے کہ جو بھی اپنے رب کے حضور مجرم بن کر حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے، جس میں وہ نہ جیے گا اور نہ مرے گا۔‘‘ (طٰہٰ: ۷۴)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم سے محفوظ فرمائے۔