قومی ترانہ حب الوطنی سے بھر پور گیت کو کہا جاتا ہے، جو قومی جھنڈے کی طرح اہلِ وطن کے غیر مشروط احترام کا مستحق ہوتا ہے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں صدی سے پہلے قومی ترانوں کے وجود کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ یہ درست ہے کہ ہر ملک میں بعض قومی گیت بے حد مقبول رہے ہیں لیکن ان کی حیثیت باقاعدہ قومی ترانے کی نہیں تھی۔
کم و بیش ایک ہزار سال پہلے جاپان میں شہنشاہ کی تعریف میں ایک گیت بہت مشہور تھا جسے کسی حد تک قومی ترانے کی حیثیت حاصل رہی
’’ہمارا فرمانروا ہزاروں سال جئے
حتیٰ کہ کنکریاں چٹان کی شکل اختیار کرلیں
اور ان پر کائی جم جائے۔‘‘
برطانیہ کا قومی ترانہ قدیم ترین ترانہ شمار ہوتا ہے۔ اسے اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط سے حبِ وطن کے گیت کے طور پر شاہی تقریبات میں گایا جاتا تھا لیکن باقاعدہ طور پر اس کو ۱۸۲۵ء میں قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ چونکہ اس کا آغاز God save the King یعنی ’’یا رب رہے سلامت فرمانروا ہمارا‘‘ سے ہوتا ہے اس لیے اگربادشاہ کے بجائے ملکہ حکمران ہو تو یہ God save the Queen میں بدل جاتا ہے۔ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کا اصل مصنف جان بل تھا، البتہ بعد میں دوسرے لوگوں نے اس میں اضافے کیے۔
انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں بیشتر یورپی ممالک نے برطانوی مثال پر عمل کرتے ہوئے قومی ترانے ترتیب دیے۔ یہ ضروری نہیں کہ ترانے کی موسیقی یا الفاظ متعلقہ ملک کے کسی باشندے ہی نے ترتیب دیے ہوں۔ مثلاً سوویت یونین میں ۱۹۴۴ء تک کمیونسٹ انٹرنیشنل کا ترانہ استعمال ہوتا تھا جس کے الفاظ اور موسیقی انیسویں صدی میں دو فرانسیسی باشندوں نے ترتیب دئے تھے۔
پرانے ترانوں میں کولمبیا کا ترانہ ’’ہیل کولمبیا‘‘ ہے، جسے ۱۷۶۸ء میں رائج کیا گیا۔ فرانس کا قومی ترانہ ’’مارسیلز‘‘ ۱۷۹۲ء میں رائج ہوا۔ کئی ملکوں نے استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی کچھ مدت ترانے کے بغیر گزاری۔ ان میں ولایات متحدہ امریکہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ نومبر ۱۹۲۹ء میں رابرٹ ریلے نے Believe it or notکے طور پر ایک کارٹون شائع کیا جس میں ایک شرابی کو گانا گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کا عنوان تھا: ’’امریکہ کا کوئی قومی ترانہ نہیں‘‘ اور اس کی تفصیل خاصی دلچسپ تھی:
’’ولایات متحدہ امریکہ جو اصل میں شراب نوشی کا مخالف ملک ہے، بغیر کسی حق اور اختیار کے مدتوں سے برطانوی میخواروں کے ایک پرانے بازاری گیت To Anacreon in Heaven کو قومی ترانے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔‘‘
اس کارٹون کے شائع ہوتے ہی امریکہ میں ایک طوفان برپا ہوگیا، پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے امریکی کانگریس کو درخواستیں بھیجیں، ان میں ہر شعبے کے لوگ شامل تھے۔ سبھی نے Believe it or notکے کارٹون کا حوالہ دے کر پوچھا: ’’کیا یہ خبر درست ہے؟ اور اب تک قومی ترانہ کیوں نہیں ترتیب دیا گیا؟‘‘ چنانچہ ۳؍مارچ ۱۹۳۱ء کو کانگریس نے Star spangled Bannerوالے ترانے کو قومی ترانہ قرار دے دیا جسے ۱۹۱۴ء میں کانگریس نے نامنظور کردیا تھا۔ آج کل یہی امریکہ کا قومی ترانہ ہے۔
آسٹریا کا ترانہ ۱۷۹۷ء سے اور بلیجیم کاترانہ ’’برینکون‘‘ ۱۸۳۰ء سے زیرِ استعمال ہے۔ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۴ء تک سوویت یونین کا قومی ترانہ ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل‘‘ رہا۔ اسے یوجین پوٹیر نے لکھا اور پائرڈی گنیز نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ۱۹۴۴ء میں روس نے نیا قومی ترانہ اپنایا جو ’’آزاد جمہوریتوں کا کبھی نہ ٹوٹنے والااتحاد‘‘ کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ دسمبر ۱۹۹۱ء میں ’’اتحاد‘‘ ٹوٹ گیا۔
چین کا قومی ترانہ انسانی محنت اور عظمت کے اعتراف سے شروع ہوتا ہے۔
آسٹریلیا ، برطانوی دولت مشترکہ کا اہم رکن ہے۔ مشہور مصنف جان گنتھر اپنی کتاب Inside Australiaمیں لکھتے ہیں کہ آسٹریلیاکا بھی اپنا کوئی قومی ترانہ نہیں۔
سعودی عرب میں بادشاہت قائم ہے لیکن سرکاری مذہب اسلام ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے مثبت اثرات بھی اس ملک میں نمایاں ہیں۔ سعودی عرب کا ترانہ گو مختصر ہے لیکن اسلامی ذہن کا آئینہ دار ہے:
’’دوڑو (کوشش کرو) بزرگی اور بلندی کی طرف
خالق سما ء کی بزرگی بیان کرو
سبز پرچم کو بلند رکھو اور اونچا لہراؤ
(جو) حاصل ہے چھا جانے والے نور کا
اے میرے ہم وطنو! بار بار اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو
میرے وطن تو زندہ و قائم رہے
مسلمانوں کے لیے فخر کے طور پر
زندہ رہے بادشاہ
علم اور وطن کے لیے۔‘‘
چونکہ سعودی عرب کے پرچم پر کلمہ طیبہ درج ہے، اس لیے اسے کسی موقع پر بھی سرنگوں نہیں کیا جاتا۔ ایران نے بھی اپنے پرچم پر ’’اللہ‘‘ لکھنے کے بعد اسے سرنگوں کرنے کی روایت ترک کردی ہے۔
بعض ملکوں نے قومی ترانے کی اہمیت اس وقت تک محسوس نہیں کی جب تک کسی ہنگامی صورتِ حال میں اس کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اس سلسلے میں کوسٹاریکا کی مثال دلچسپ ہے۔ ۱۸۵۳ء میں برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں کو کوسٹاریکا میں آمد متوقع تھی۔ وہاں کی انقلابی حکومت کے کارپردازوں کو یہ جان کر پریشانی ہوئی کہ ان کے ملک کا تو کوئی قومی ترانہ ہی نہیں۔ صدر نے کوسٹاریکا کے مشہور موسیقار ہینول ماریا گوٹیرز کو محل میں طلب کیا۔ اسے خوش آمدید کہنے کے بعد صدر نے قومی ترانہ ترتیب دینے کا حکم دیا۔ جب موسیقار نے احتجاج کیا کہ وہ ہمیشہ اپنی یادداشت سے گاتا بجاتا ہے اور اس نے کبھی موسیقی کی دھنیں تحریر نہیں کیں تو صدر نے غصے میں آکر اسے قید خانے میںبھیج دیا۔ بچارے موسیقار نے چار دن میں فوجی مارچ کی ایک خوبصورت دھن ترتیب دے کر اپنی جان چھڑائی۔ یہی دھن سفیروں کے استقبال کے لیے بجائی گئی اور اب تک یہی کوسٹاریکا کا قومی ترانہ ہے۔
پڑوسی ملک پاکستان کے قومی ترانے کے بارے میں محمو دفیضانی نے اردو ڈائجسٹ کے ایک شمارے میں تفصیلات لکھی تھیں اس کا کچھ حصہ یقینا قارئین کے لیے دلچسپ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’برصغیر کی تقسیم کے بعد کئی برسوں تک پاکستان کا کوئی باقاعدہ قومی ترانہ نہیں تھا۔ متعدد شعراء نے ترانے لکھے، مگر انہیں قومی ترانے کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ اس عبوری دور میں بیرونِ ملک حاضر دماغ قسم کے لوگوں نے پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر بعض مضحکہ خیز گیت وغیرہ پیش کرکے وقت کو ٹالا، البتہ ملک کے اندر اس قسم کی شرارتیں نہ چل سکتی تھیں۔ پاکستان سے مختلف کھیلوں میں شرکت کے لیے جو کھلاڑی باہر جاتے تھے، انھیں بھی بعض اوقات ایسی صورت حال میں کسی گیت کو قومی ترانے کے طور پر پیش کرنا پڑتا تھا۔ دروغ برگردن راوی ایک اسی قسم کے موقع پر اس مشہور پنجابی گیت پیش کیا گیا ؎
دڑ، وٹ، دم رکھ
دم رکھ، دڑ وٹ
ایک شخص یہ گیت گاتا تھا اور باقی ساتھی وقفے وقفے سے ٹیپ کے بند کے طور پر کہتے تھے:
’’اسبغول تے کچھ نہ پھول‘‘
پاکستانیوں نے اس گیت کو اس قدر سنجیدگی سے گایا کہ بعض غیر ملکی سامعین نے اسے بہترین قومی نغمہ قرار دے دیا۔
فیملی میگزین لاہور کے ایک مراسلہ نگار کی روایت ہے کہ بیرون ملک ایک دفعہ یہ مزاحیہ نظم بھی قومی ترانے کے طور پر کورس کی شکل میں گائی گئی:
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا
وہ تو گھاس چرن کو جاتی تھی
وہ توپیٹ بھرن کو جاتی تھی
اس مزاحیہ نظم کا تعلق اصل میں علی گڑھ سے تھا، جہاں یہ طالب علموں میں خاصی مقبول تھی، لیکن ہمارے فاضل دوست پروفیسر صفدر علی شاہ نے اسے ایک مزاحیہ قوالی کی شکل دی اور قوالوں کے انداز میں اس میں دلچسپ ٹکڑے جوڑ کر اسے دو آتشہ کردیا۔ یہ قوالی اسلامیہ کالج پشاور میں بہت مشہور ہوئی بلکہ ایک وقت آیا کہ یہ سید موصوف کی پہچان بن گئی اور اسے ریڈیو اور مختلف تقاریب میں بھی پیش کیا گیا:
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا
وہ تو گھاس چرن کو جاتی تھی
وہ تو پیٹ بھرن کو جاتی تھی
اس کے پیٹ کا بچہ مرجاتا
تو بتا تیرے باپ کا کیا جاتا
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا
٭
درد و غم، رنج و الم، ہجر کا مارا میں آج
بحر الفت میں نہ پاتا تھا کنارا میں آج
اور پھر اس پہ بھی ہمت کو نہ ہارا میں آج
کوچۂ یار میں جاکر کے پکارا میں آج
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا
٭
مرنے کے بعد قبر پہ آیا وہ دلربا
پھولوں کو جو چڑھانے لگا پڑھ کے فاتحہ
میں نے درون قبر سے چلا کے یوں کہا
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا
زاہد چودھری روزنامہ نوائے وقت سے منسلک تھے، انہیں چینی اسکولوں میں جانے کا بھی موقع ملا۔ ایک اسکول میں بچوں نے چین کا قومی ترانہ سنایا اور پھر ان سے فرمائش کی کہ وہ بھی اپنا قومی ترانہ سنائیں جو ابھی وجود میں نہیں آیا تھا، چنانچہ زاہد چودھری اور ان کے ساتھیوں نے چینی بچوں میں اپنے ملک کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ایک پنجابی گیت کے بول سنا دیے جو کچھ یوں تھے:
لارا لپا، لارا لپا لائی رکھنا
اڈی ٹپا اڈی ٹپا لائی رکھنا‘‘
پاکستان کا قومی ترانہ
اس کی موسیقی احمد چھاگلہ نے ترتیب دی تھی جو بہت عمدہ کمپوزیشن شمار ہوئی۔ بعد میں اس دھن پر ابوالاثر حفیظ جالندھری نے جو ترانہ لکھا اسے منظور کیا گیا۔ یہ زیادہ تر عربی اور فارسی الفاظ پر مشتمل ہے۔ خالص اردو کا صرف ایک لفظ ’’کا‘‘ اس میں شامل ہے لیکن اس کے عام فہم اور بامعنی ہونے میں کلام نہیں۔