اپنے کمرے کی دیوار پر میں نے دو تصویریں لگا رکھی ہیں۔ ایک مسلم عورت کی تصویر ہے جو مکمل طور پر برقعے میں ہے۔ اس کے بالکل برابر ہی مقابلۂ حسن میں شریک ایک امریکی عورت کی تصویر ہے، جس کے جسم پر بکنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ان میں ایک عورت عام نظروں سے مکمل طور پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دوسری کا کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، ہر چیز بالکل عیاں ہے۔ عورت کی یہ دو انتہائیں نام نہاد تہذیبی تصادم کے سلسلے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔
کسی بھی تہذیب میں عورت کا کردار مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ کا مقصد عربوں کے تیل ذخائر پر قبضہ جمانے کے علاوہ مسلمانوں کو ان کے دین اور تہذیب سے الگ کرنا اور برقعے کی جگہ بکنی کو عام کرنا بھی ہے۔
میں مسلم خواتین کے امور کا ماہر نہیں ہوں، اس مضمون میں برقعے کی وکالت سے زیادہ مجھے نسوانی خوبصورتی بھاتی ہے۔ تاہم یہاں میں ان اقدار کا دفاع کرنا چاہتا ہوں جن کی میرے نزدیک برقع نمائندگی کرتا ہے۔
میرے نزدیک برقع کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر اور خاندان کو مقدس سمجھتی ہے۔ اس کو صرف اس کا شوہر اور اہلِ خانہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ حق اس نے صرف اپنے شوہر یا اہلِ خانہ کو ہی دے رکھا ہے۔ یعنی برقع پرائیویسی اور خود کو کسی کے لیے خاص کردینے کا یقینی مظہر ہے۔
مسلم عورت کا مرکزِ توجہ اس کا گھر، وہ ’’گھونسلہ‘‘ ہوتا ہے، جہاں اس کے بچے جنم لیتے ہیں۔ اور پروان چڑھتے ہیں۔ وہ ایک خانہ ساز ہوتی ہے، گھر اور خاندان کی اصل بنیاد ہوتی ہے، جو خاندان کی روحانی زندگی کو سہارا دیتی اور اسے تقویت بخشتی ہے۔ اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کرتی ہے اور اپنے شوہر کو پناہ اور سہارا دیتی ہے۔
اس کے بالکل برعکس، بکنی پہنے ہوئے امریکی ملکۂ حسن لاکھوں لوگو ںکے سامنے ٹی وی پر ناز و ادا کے ساتھ اتراتی ہوئی برہنہ نظر آتی ہے۔ یہ عورت مغربی تحریکِ نسواں کی حامی ہے۔ اور ’’اپنی پراپرٹی آپ‘‘ ہے، کوئی اس کا مالک نہیں، وہ خود اپنی مالک ہے۔ پھر بھی وہ عوام کی پراپرٹی ہوتی ہے۔ وہ کسی کی نہ ہوکر بھی سب کی ہوتی ہے، وہ خود کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کے ہاتھوں بیچ ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت خود کو نیلام کرتی رہتی ہے۔
امریکہ میں عورت کی تہذیبی قدرومنزلت کا پیمانہ اس کی جنسی جاذبیت (sex appeal) ہے۔ (کیونکہ اس کی کشش اورجاذبیت کی قیمت بازار میں جلد ہی گھٹ جاتی ہے، اس لیے وہ اعصابی امراض کا شکار ہوکر جسمانی صحت اور وزن کے مسائل سے دوچار ہوجاتی ہے)
بالی عمر کی امریکی لڑکی کی ہیرو (Role Model) اسٹرپ ٹیزStripteas کی ماہر امریکہ کی مشہور گلوکارہ برٹنی اسپر س(Britney Spears) ہے۔ برٹنی اسپرس سے ہی امریکی لڑکی یہ سیکھتی ہے کہ اگر وہ اپنے بازارِ جنس کو گرم رکھے گی تو، لوگ اسے چاہیں گے، ورنہ کوئی اسے نہیں پوچھے گا۔انہی جیسی رول ماڈلوں سے ان نوجوان لڑکیوں کو یہ سبق ملا ہے کہ وہ محبت، شادی یا محتاط معاشقے کے بجائے چوری چھپے خود کو کسی مرد سے ’’چپکا‘‘ لیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شوہر کے زندگی میں آنے سے پہلے ہی درجنوں مرد ان لڑکیوں کے واقف کار اور شناسا بن جاتے ہیں۔ معصومیت، جو عورت کی نسوانی دلکشی کا ایک جز ہے، اسے وہ ضائع کردیتی ہے۔ ضدی اور چالاک بن جاتی ہے، پیار اور محبت کرنے کے لائق نہیں رہتی اور نہ ہی اس میں اتنی صلاحیت رہتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے تخم کی پرورش کرسکے۔
نسوانی شخصیت ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے جذباتی رشتے کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں بچے کی پرورش و نگہداشت اور اس کے لیے خود کو قربان تک کردینے کا مادہ شامل ہوتا ہے۔ مرد کی فطرت شکاری اور شکار کے درمیان پائے جانے والے رشتے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کی شخصیت میں جارحیت اور عقلیت کا مادہ غالب ہوتا ہے۔
فیمینزم (تحریکِ نسوانیت) عورت کو فریب دے کر اسے یہ باور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ نسائیت ایک جبر کی شکل میں نمودار ہوئی ہے اور اس جبر کا ماحصل یہ ہے کہ انھیں بہرحال مرد کے رویے کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس خیال کے نتیجے میں ایک جارح اور زود رنج عورت نے جنم لیا جس میں بیوی یا ماں بننے کی صلاحیت قطعاً نہیں ہوتی۔
نئے عالمی نظام کے سماجی انجینئروں کا مقصد یہی ہے کہ جنسی شناخت کو ختم کرکے خاندانی نظام کو نیست و نابود کردیا جائے، سماجی و انفرادی سطح پر بے اعتدالی پیدا کردی جائے اور آبادی کو کم سے کم کیا جائے۔ جدید نظام کی حامل اس دنیا میں عورت کو نہ تو ایک ماں کا درجہ حاصل ہے اور نہ ہی وہ اپنی نسل کی وارث تصور کی جاتی ہے۔ اس کے متعلق تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے جنسیت سے عاری کرکے ایک آزاد جنسی اثاثہ (sex object) بنادیا جائے۔
افغان جنگ کے سلسلے میں اکثر یہ صفائی دی جاتی ہے کہ یہ افغانی مسلمان مردوں کے چنگل سے وہاں کی عورتوں کو آزادی دلانے کی جنگ ہے۔ لیکن انھیں آزادی دلا کر کہاں لے جایا جائے گا؟ کیا انھیں برٹنی اسپیرس بنایاجائے گا؟ انھیں کمر سے نیچے سر ک جانے والی پینٹ پہنائی جائے گی، جو زبانِ حال سے یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ ’’لو میرا زیرِ جامہ دیکھو؟‘‘ کیا افغان سماج سے انھیں آزادی دلاکر مرد و عورت کی باہمی شہوت خیزی اور جنسی بازاریت کی راہ پر ڈالا جائے گا جو امریکہ میں عورت کی پہچان بن چکی ہے؟ اگر وہ واقعی عورتوں کے تعلق سے ایسا کرپائے تو شاید وہ جنگ کو یہیں ختم کردیں گے۔
مرد و عورت کا والدین ہونا (Parenthood) انسانی ارتقا کی معراج ہے۔ انسانی زندگی کایہ وہ مرحلہ ہے جب انسان باپ یا ماں بننے کے بعد اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اولاد کے لیے خدا کا بدل بن جاتا ہے اور ایک نئی زندگی کو نہ صرف جنم دیتا ہے بلکہ اس کی پرورش و پرداخت بھی کرتا ہے۔ نیا عالمی نظام ہمیں انسانی ارتقا کے اس مقام تک پہنچنے ہی نہیں دینا چاہتا ہے۔ اس نظام میں عریانیت شادی کا بدل ہے۔ یعنی ہمیں مجرد اور تنہا رہنا پڑے گا، اپنے جذبات کو کچل کر اور جنسی بے مائیگی کے ساتھ۔
ہمارے لیے کسی مستقل پرائیویٹ زندگی کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔
بلکہ ہم ایسے ماحول میں ، جہاں متواتر معاشقے بازی کے مواقع ہوں گے، تنہا اور ایک دوسرے سے جدا ہوکر رہیں گے اور اپنی شناخت کے لیے ہمیں اشیائے صرف پر انحصار کرنا پڑے گا۔
یہ چیز خاص طور سے عورت کے لیے تباہ کن ہوگی۔ اس کی جنسی کشش اس کی زرخیزیت کا حصہ ہے۔ جب اس کی فرٹیلٹی ہی ختم ہوجائے گی تو اس کی جنسی جاذبیت بھی ماند پڑجائے گی۔ اگرایک عورت اپنی زندگی کے اہم ترین سال ’’آزاد روی‘‘ کی نذر کردیتی ہے تو اسے کبھی بھی کوئی مستقل شریکِ حیات نہیں مل سکتا۔
عورت کو دیرپا آسودگی اور خوشی اسی صورت میں میسر آسکتی ہے کہ وہ شادی اور گھر کو اپنی اولین ترجیح بنالے۔
فیمینزم بھی نئے عالمی نظام کا ایک انتہائی سنگین فریب ہے۔ جس نے امریکی عورت کو اخلاقی بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا ہے اور مغربی تہذیب کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک نے اب تک لاکھوں زندگیاں تباہ کردی ہیں اور اسلام کے لیے مہلک خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔
میں برقعے کی وکالت نہیں کررہا ہوں بلکہ ان چند اقدار کی وکالت کررہا ہوں جن کی نمائندگی برقع کرتا ہے۔ خاص طور سے اس بات کی وکالت کہ مسلم عورت اپنے مستقبل، اپنے شوہر اور اپنے گھر اور خاندان کو انتہائی تقدس کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس شرم و حیا اور وقار و سنجیدگی کی وکالت بھی کررہا ہوں جس کے زیور سے مسلم عورت آراستہ ہے اور جو اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔
——