ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔
ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوگا۔
لیکن اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا …تو؟
تو پھر کیا ہوگا؟
دانیال کا ذہن بڑی تیزی کے ساتھ اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ تب کیا ہوگا؟ تقدیرِ اُمم کیا ہوگی؟
جو کچھ دانیال کے گھر میں ہوا تھا، وہی کچھ اس کے اڑوس پڑوس میں ہوا تھا۔ جو کچھ اس کے اڑوس پڑوس میںہوا تھا وہی کچھ پورے محلے میں ہوا تھا، جو کچھ اس کے محلے میں ہوا تھا، وہی کچھ محلہ در محلہ پورے شہر میں ہوا تھا۔ جو کچھ اس کے شہر میں ہوا تھا، وہی کچھ شہر در شہر پورے ضلع میں ہوا تھا، اور جو کچھ ایک ضلع میں ہوا تھا وہی کچھ ضلع در ضلع پورے صوبے میں ہوا تھا۔ جو کچھ ایک صوبے میں ہوا تھا، وہی کچھ ملک کے باقی صوبوں میں ہوا تھا۔ جو کچھ ایک ملک میں ہوا تھا، وہی کچھ ملک در ملک ہوا تھا۔ جو کچھ ملک درد ملک ہوا تھا، وہی کچھ پورے براعظم میں ہوا تھا اور جو کچھ ایک براعظم میں ہوا تھا وہی کچھ جملہ براعظموںمیں ہوا تھا۔
جو کچھ ہوا تھا، اس نے بچوں کو بوڑھا اور بوڑھوں کو بچہ کردیا تھا۔ عامۃ الناس کی تو مت ماری گئی تھی۔ کسی سیانے، فرزانے، یا دیوانے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس پیش پا افتادہ حقیقت کو کیا نام دے۔ کیا عنوان دے لوگ ایسی باتیں کرتے تھے:
’’یہ تو اپنے ڈھب کی ایک دہری قیامت ہے۔‘‘
’’یہ تو آدم کا ہبوطِ ثانی ہے۔‘‘
’’تاریخ نے ایک ایسا موڑکاٹا ہے، جس نے علم، سائنس اور تہذیب کو کفنادیا ہے۔‘‘
’’اس نے انسان اور حیوان کے فرق کو مٹا دیا ہے۔‘‘
’’معلوم نہیں کہ اب کبھی تمدن، تصوف، شریعت، کلام کی تجدید ہوسکتی ہے یا نہیں۔‘‘
’’اب معلوم ہوا ہے کہ ایک نہایت معمولی سی چیز کس قدر غیر معمولی تھی۔‘‘
’’یہ تو ایسے لگتا ہے کہ بغیر پانی کی ایک بوند برسے، طوفانِ نوح آگیا ہے۔‘‘
’’دنیا کی کسی زبان کی لغت میں بھی کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ہے جو اس واردات، المیے یا عذاب کو کما حقہٗ بیان کرسکتا ہو۔‘‘
’’جو ایک شب بھر میں ہوا ہے اس کے اثرات اور عواقب تو صدیوں کے لیے گرہن بنے رہیں گے۔‘‘
اور ایک شب بھر میں جملہ براعظموں میں کیا ہوا تھا؟
ہوا تو یہ تھا کہ اس روز دانیال نے فجر کی نماز سے فراغت کے بعد حسبِ معمول تلاوت کی غرض سے قرآن کریم نکالنے کے لیے کتابوں والی الماری کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا تو ہاتھ میں قرآن حکیم کی بجائے کاغذ کا بھربھرا سا مواد آگیا۔ اس سے دانیال دہشت زدہ ہوگیا۔ اس نے دہشت زدہ ہوکر بتی جلائی تو اس کی دہشت، حیرت، سراسیمگی اور خوف میں لامتناہی اضافہ ہوگیا۔
کتابوں والی الماری میں قرآن مجید تو کیا، سرے سے کوئی کتاب ہی موجود نہیں تھی۔
الماری کے ہر خانے میں کتابوںکے بجائے کاغذوں کا بھربھرا سا مواد رکھا ہوا تھا۔
اس گھڑی دانیالحیرت میں پڑ گیا کہ آیا وہ خوابیدہ ہے یا بیدار۔ زندہ یا مردہ، جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ حقیت ہے یا واہمہ؟ وہ انسانوں کی دنیا میں ہے یا کسی سحر زدہ دنیا میں۔ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے ، اس کو مان لے یا جھٹلا دے؟ اس گھڑی تو اس کے ذہن میں چٹانیں ریزہ ریزہ ہورہی تھیں اور اس کی قوتِ فہم و ادراک تو جیسے بھاپ بن کر اڑگئی تھی اور وہ یہ جاننے سے عاجز ہوگیا تھا کہ یہ سب کیا ہے، یہ سب کیا ہوا ہے؟
جو کچھ دانیال کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہی کچھ اس کے گھر والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا، اور جو کچھ اس کے گھر والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہی کچھ اس کے ہمسایوں کی سمجھ میںنہیں آرہا تھا، اور یوں بات پھیلتی جارہی تھی اور ایک ہی بات پھیلتی جارہی تھی کہ کاغذ کو کیا ہوا ہے؟
کاغذ کو یہ ہوا تھاکہ شب بھر میں دیمک نے اس کو چاٹ کر غائب کردیا تھا۔
دن کے روشن سفیدے میں دانیال کو علم ہوا کہ اس کے پورے گھر میں ہر شے اپنی جگہ پرموجود تھی، لیکن کاغذ کی بنی ہوئی جملہ اشیاء موجود نہیں تھیں، کتابیں نہیں تھیں، اخبارات نہیں تھے، رسالے نہیں تھے، فائلیں نہیں تھیں، مکانوں او رزمینوں کی رجسٹریاں نہیں تھیں۔ نئے اورپرانے خطوط نہیں تھے۔ کاپیاں نہیں تھیں، لفافے نہیں تھے، کاغذ کی بنی ہوئی کوئی چیز گھر میں ڈھونڈنے سے نہیں مل رہی تھی اور جو کچھ دانیال کو اپنے گھر میں نہیں مل رہاتھا وہی کچھ کسی دانیال کو اپنے گھر میں نہیں مل رہا تھا، دیوار گیر کلینڈر تک غائب غلّہ ہوگئے تھے، لوگوں کو تاریخ کے بارے میں بھی شکوک نے گھیر لیا تھا۔
جیسے جیسے آفتاب بلند ہورہا تھا روشن ہوتا جارہا تھا، گلیاں، کوچے روشن ہورہے تھے۔ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ٹھنڈا، تاریک اور ویران کن اندھیرا مسلّط ہورہا تھا۔ جو بچے اسکول گئے تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے واپس آگئے تھے۔ اسکولوں میں نہ کتابیں تھیں، نہ کاپیاں، نہ حاضریوں کے رجسٹر تھے، نہ کسی قسم کے ریکارڈ تھے۔ اسکولوں کی لائبریریوں میں کتابوں کی بجائے دیمک خوردہ کاغذ کا بھربھرا سا مواد رکھا ہوا تھا، معلّمین اور متعلّمین کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔
بے چین، بولائے ہوئے اور سراپا سائل و سوال بنے لوگ، اخباروں کے ہاکروں کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ہاکروں نے بھی یہی اطلاع دی تھی کہ اخبارات نہیں چھپے، اخبارات کے دفاتر میں ماسوا کاغذ کے ہر شے موجود تھی۔ ان کے کاغذ کے گودام دیمک کے بے پناہ حملے نے ایک ہی رات میں ختم کردیے تھے۔ اخبارات کے ملازمین دیمک خوردہ کاغذ کے بھربھرے مواد کو گوداموں سے باہر نکال کر اسے سڑکوں پر ڈھیر کررہے تھے اور اس پر تیل چھڑ ک کر اس کو آگ لگا رہے تھے۔
لڑکے تو اسکولوں، کالجوں اور مدارس سے واپس ہوکر کھیل کود میں لگ گئے تھے، لیکن جو لوگ اپنے کاموں سے گئے تھے وہ دفتروں، عدالتوں، بینکوں، دکانوں، کارخانوں، لائبریریوں اور تحقیقی اداروں میں اسی طلسم ہوش ربا کے زیرِ اثر سکتے میں آگئے تھے اور ان کے حواس معطل ہوگئے تھے۔ یہ واردات، واقعہ، المیہ گزرتے وقت مزید سے مزید پراسرار اور دقیق پہیلی اور معمہ، حیرت اور خوف بنتا چلا جارہا تھا اور وہی جادو تھا جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
ہر ایک یہی پوچھتا دکھائی دیتا تھا کہ کاغذ کو کیا ہوا ہے، کاغذ دیمک کی خوراک کیوں بن گیا ہے؟
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
ریڈیو کی نشریات نے اپنی اولین نشریات میں بتایا تھا کہ کچھ ایسی گڑبڑ ہوگئی ہے کہ کاغذ غائب ہوگیا ہے اور وہ مجبور ہے کہ اس کے اناؤنسر زبانی خبریں سنادیں، لیکن اب دن چڑھے ریڈیو اور ٹیلی ویژن والے بھی اعتراف کررہے تھے کہ چہار سو سے ایسی خبریں آرہی ہیں جو بتا رہی ہیں کہ دیمک کے کسی بے پناہ حملے کی بدولت کاغذ عنقا ہوگیا ہے۔ اس لیے ہم بھی مجبور ہیں کہ سنی سنائی خبروں کی تلخیص سنادی جائے۔ کاغذ کے غیاب نے روئے زمین پر ایک عدیم المثال انارکی، کہرام، انتشار، خوف اور حیرت کو پھیلا دیا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دکانوں کے آگے لوگوں کے جمِ غفیر جمے ہوئے تھے اور تسلسل کے ساتھ ایک جیسی نشریات سن رہے تھے کہ کاغذ عنقا ہوگیا ہے۔
ان نشریات کے حوالے سے ہی عامۃ الناس کو یہ معلوم ہورہا تھا کہ یہ بھیانکتا کوئی مقامی بھیانکتا نہیں ہے کوئی صوبائی معاملہ بھی نہیں، کوئی ملکی مسئلہ بھی نہیں ہے، کوئی چند ملکی سلسلہ بھی نہیں بلکہ یہ سلسلہ، مسئلہ، معاملہ اور بھیانکتا ایک عالمگیر المیہ اور سانحہ ہے۔
ان نشریات سے لوگوں کو اس عالمگیر المیہ اور بھیانکتا کے بارے میں یہ بھی معلوم ہورہا تھا کہ شمال، اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ جنوب میں کاغذ کے ذخائر موجود ہیں اور جنوب اس واہمے میں گرفتار ہے کہ شمال میں کاغذ کے ذخائر موجود ہیں، اور صرف یہی وہ سرزمین ہے کہ جہاں کوئی کاغذ نہیں ہے۔
اسی خیال کے پیشِ نظر ایشیائی، یورپ سے کاغذ طلب کررہے ہیں۔ اہلِ یورپ، امریکہ سے فریاد کررہے تھے کہ کاغذ بھیجو، امریکہ اور کاغذ سے تہی دست امریکہ آسٹریلیا سے کہہ رہا تھا کہ کاغذ لاؤ۔ آسٹریلیا لاطینی امریکہ سے اور لاطینی امریکہ کاغذ کے لیے افریقہ میں قسمت آزمائی کررہا تھا لیکن پورے کے پورے کرئہ ارض پر جہاں ہر قسم کی اشیاء دستیاب تھیں اور فراوانی کے ساتھ دستیاب تھیں وہاں کہیں رتی برابر کاغذ نہیں تھا۔
اس امر کی آگاہی نے لوگوں کو مزید بدحواس کردیا تھا کہ کاغذ کا غیاب عالمگیر پیمانے کا ہے، اس آگاہی نے ایک شام و سحر کی گردش میں ان کے اذہان، سوچ اور نقطہ نظر کو بدل دیا تھا، ان کے اذہان میں یہ نقش سا ہوگیا تھا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے، کوئی المیہ نہیں ہے، بلکہ ان کے اعمال کی سزا کا ایک منضبط الوہی منصوبہ ہے اور جس پیمانے پر ان کے اعمال بد اور بدترین تھے، اسی پیمانے پر ان کی سزا بھی ان پر مسلط کردی گئی ہے۔
اس پر مستزاد یہ خبر بھی تھی کہ روئے زمین پر کاغذ کے کل اسٹاک کے نابود ہونے پر کاغذ کے کارخانوں نے دوگنی چوگنی رفتار سے کاغذ بنانا شروع کردیا تھا ادھر کاغذ کے ڈھیروں کے ڈھیر بن کر باہر آئے تو ادھر دیمک کی یورش نے انہیں نیست و نابود کردیا۔
حکومتوں کی حکومتیں دیمک مار مہم میں جٹ گئیں، دیمک مار ادویات کی ضرورت بڑھ گئی، پیداوار بڑھ گئی، کھپت بڑھ گئی، لیکن یہ مہم بھی صفر ہوگئی۔ جہاں بھی من بھر دیمک ملیا میٹ کردی گئی وہیں دومن دیمک کی کمک پہنچ گئی۔ اس پر حکومتوں کی حکومتیں بے بس اور لاچار ہوکر، سراسیمہ اور خوف زدہ ہوکر منقار زیرِ پر ہوگئیں۔
ایسی خبروں اور آگاہیوں نے اس نقطۂ نظر کو مزید گہرا اور مستحکم کردیا کہ دیمک از خود نہیں آئی بلکہ لائی گئی ہے۔ جیسے کعبہ شکن ابرہہ کے ہاتھیوں کے لیے کنکر برسانے والے ابابیل لائے گئے تھے، وہ بھی ایک الوہی منصوبہ تھا، یہ بھی ایک الوہی منصوبہ ہے۔
دانیال کا تجزیہ اور نقطۂ نظر بھی یہی تھا۔
ایسے افراد اور ادارے بھی تھے جن کا نقطۂ نظر اس سے مختلف تھا۔ ان کے خیال کے مطابق یہ سانحہ بھی عام بڑے سانحوں کی طرح محض ایک عالمگیر وبا ہی تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس عالمگیر المیے کے عالمگیر اثرات اور عواقب اپنا رنگ دکھانے لگے، جو مشرق مشرق اور مغرب مغرب کم و بیش یکساںنوعیت کے تھے۔
٭جملہ درس گاہیں مقفل ہوگئیں۔ سلسلہ ہائے تعلیم و تدریس ختم ہوگئے۔
٭تحقیقی ادارے صفر ہوگئے۔
٭اخبار رسالے اور کتابیں چھپنی بند ہوگئیں۔
٭کاغذ کی صنعت اور کارخانے بند ہوگئے۔
٭کاغذ کے جملہ کاروبار اجڑ گئے۔
٭میدان ہائے جنگ کے نقشے ختم ہوگئے۔ چھوٹی بڑی جنگیں ٹھس ہوگئیں۔
٭جملہ سائنسی اور تحقیقی ادارے ٹھپ ہوگئے۔
٭حکومتوں کے وظائف میں کھنڈتیں بڑھنے لگیں۔
٭حکومتوں کے اپنے عوام سے فاصلے بڑھنے لگے۔
٭جملہ صحائف سماوی قصۂ پارینہ ہوگئے۔
٭ہر قسم کی ڈاک کی آمدو رفت بند ہوگئی۔ محکمۂ ڈاک بے مصرف ہوگیا۔
٭بحری، بری اور ہوائی اسفار میں ہمواری ختم ہوگئی۔
٭عدالتوں میں الّو بولنے لگے۔
٭جملہ مالی محکمے ہاتھ پر ہاتھ رکھے نظر آنے لگے۔
٭فلم انڈسٹریاں بیٹھ گئیں۔
٭ہر قسم کے ترقیاتی ادارے رک گئے۔
٭سراغ رسانی کے سرکاری اور غیر سرکاری سلسلے بھی زندہ در گور ہوگئے۔
٭لین دین اور خرید وفروخت میں چخ چخ بڑھ گئی۔
٭بین الاقوامی سیاحت، تجارت اورتعلقات میں سرد مہری آگئی۔
٭سفیر اور سفارت خانے عضو معطل ہوگئے۔
٭ہسپتالوں میں مریضوں کے ریکارڈ تلف ہوگئے، علاج کی مشکلات بڑھ گئیں۔
٭جیلوں میں قیدیوں کے کوائف کے ریکارڈ ضائع ہوگئے۔
٭پولیس کے دفاتر سے مجرمین کے ریکارڈ غائب ہوگئے۔
٭لائبریریوں میں تو جیسے جھاڑو پھرگئی، دو ورقی پمفلٹوں سے لے کر انسائیکلو پیڈیا تک جیسی کتابیں تک ناپید ہوگئیں۔
٭مصوری اور خطاطی کے شاہکار تلف ہوگئے۔
٭مقروض اور ترقی پذیر ملکوں کے ریکارڈ غتر بود ہوگئے۔
٭ترقی یافتہ ملکوں کی پیش قدمی، قیادت اورسیادت کے لیے لاینحل چیلنج نمودار ہوگئے۔
٭ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون جیسے اداروں کی مصروفیات میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
آہستہ آہستہ لوگوں کے اس تلخ احساس میں اضافہ ہوتا گیا کہ کاغذ کاعنقا ہونا، جہاں ایک بے پناہ کاروباری نقصان ہے، وہاں ایک علمی اور تہذیبی آشوب ہے، ایک تاریخی اُلٹی زقند ہے۔ تعلیمی اور تدریسی عجز اور بے دست و پائی ہے۔ سول اور فوجی گھاٹا ہے، صنعتی اور سائنسی تباہی ہے۔ ایک معمولی سی چیز کے غیاب نے ایک غیر معمولی اور ہمہ پہلو تاریخی، علمی، تہذیبی، سائنسی اور ایجاداتی بحران اور سنگین بحران پیدا کردیا ہے۔
کیا قانون دان اور کیا سیاست دان ، کیا متصوفین اور کیا موجدین، کیا اہلِ سائنس اور کیا علمائے اہلِ کتاب، کیا مبلّغین اور کیا مقررین، کیا فلاسفہ اور کیا شعراء، سب کے سب دم سادھے پڑے ہیں اور اس تہذیبی بحران اور آشوب کے خاموش اور بے کس تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
لوگ جو کچھ اہلِ علم اور اصحابِ بصیرت کے پاس پوچھنے کے لیے آتے تھے وہ کاغذ کی باز آمد اور بازیافت ہی کی بابت ہوتا تھا اور اُن کے پاس اس کا کوئی شافی جواب بھی کاغذ ہی کے مثل عنقا ہوتاتھا۔
٭ لکھنے پڑھنے کی ضرورت علیٰ حالہٖ قائم تھی لیکن اس کے وسائل غائب تھے۔
٭ کاغذ کے متبادل، کپڑا، لوہے، پتھر اور لکڑی کی تختیاں ہی تھیں اور وہ ایک ناکافی اور ناکارہ متبادل تھیں۔
٭ مستقبل کا حال اور ماضی کے ساتھ رشتہ کٹ رہا تھا۔
٭ روزگار کے وسائل میں تخفیف ہورہی تھی۔
٭ انسانوں کی تخلیقی سرگرمیاں بھی سمٹنے اور مرجھانے لگی تھیں۔
٭ اب یہ رائے ذہنوں میں جگہ پکڑ چکی تھی کہ کاغذ، تو روٹی، کپڑے اور مکان سے بھی برتر تھا۔
٭ جہاں اہل علم و بصیرت پٹ گئے تھے، وہیں نجومیوں، جو تشیوں اور ماہرینِ فلکیات کی شنوائی بڑھ گئی تھیں، وہ اپنی ٹامک ٹوئیوں کو مستند علم بنا بنا کر لوگوں کو طفل تسلیاں دے رہے تھے، لیکن ایک بات سن کر ان کے چہرے بھی لٹک جاتے تھے کہ اتنے بڑے تہذیبی آشوب کی ایسی پیش گوئی کیوں نہیں کی گئی؟
ایسی پیش گوئیاں بھی پھیل رہی تھیں کہ یہ سب کچھ کسی بے پنا ہ انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ اہلِ علم حقیقت شناس اور دور اندیش لوگ، ایسی پیشین گوئیاں سن کر نجومیوں کے فن کو لال بجھکڑازم قرار دیتے یا پھر اسے خود فریبی کا ایک بے ڈھنگا، ڈھنگ کہتے اور وہ بھی کہتے کہ اب کوئی اور انقلاب کیا آئے گا۔ ہمارے سامنے تو یہ ہورہا ہے کہ کئی ہزار سالہ علمی، ادبی، فکری، قانونی، سائنسی، تمدنی، معاشی، صنعتی، تجارتی اور زراعتی انقلاب ملیا میٹ ہورہا ہے۔ اس کی جگہ لینے والا انقلاب بھی تو اتنی ہی مدت نہیں لے گا کیا؟ آخر کس الہ دین کے پاس ایسا چراغ ہے کہ جو چشم زدن میں چشم کشا انقلاب برپا کردے گا۔ ابھی ہم اتنے کور چشم نہیں ہوئے ہیں کہ جھوٹ اور سچ میں فرق نہ کرسکیں۔
قانون دان پوچھتے ہیں کہ اب قانون کہاں سے آئے گا، جو تھاو ہ تو ملیا میٹ ہوگیا ہے۔
سائنس داں پوچھتے ہیں کہ سائنسی علوم کہاں سے آئیں گے؟
سپہ سالار پوچھتے کہ اب عسکری علوم و ضوابط کون مرتب کرے گا۔
مورخین پوچھتے کہ اب ملکوں کی، قوموں کی اور تہذیبوں کی سرگزشت کا سراغ کیسے ملے گا؟
پھر اس نالہ و فریاد اور واویلے میں متصوفین، فلاسفہ، متکلّمین، معاشیئن، سیاسیئن، صنعتی اور زراعتی علوم کے ماہرین ادباء، شعراء، ماہرینِ نفسیات، عارفین وغیرہم سب شامل ہوجاتے اور یوں ایک طویل اور متنوع علمی کارواں بھی یہی فریاد کرتا کہ ایامِ علم تو گزرگئے ہیں، اب ایامِ جہل کی ہمہ گیر اور ہمہ جہت حکومت اور بالا دستی جڑ پکڑ رہی ہے۔
کچھ ٹھٹھے باز ان ماہرینِ علوم و فنون سے کہتے کہ کیا تم اور کیا تمہارے کمالات، کیا تمہارے علوم اور کیا تمہارے فنون کہ معمولی سے کیڑے کو نیست و نابود نہیں کرسکے اور ان کے ہاتھوں اپنا سب کچھ نیست و نابود کروا بیٹھے اور تمہاری ہزارہا قسم کی کیڑے مار ادویات اپنا منہ دیکھتی رہ گئیں۔
ایسی باتیں سن کر ماہرینِ علوم و فنون بھی اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے اور ایک خلا میں معلّق ہوجاتے۔ ایسے میں بھی نجومی، باز نہیں آرہے تھے، چپ نہیں رہتے تھے، وہ کبھی دھیمے سروں میں اور کبھی بلند سروں میں کہتے کہ قریب ہے کہ کوئی ایسی چیز چھپے جو انسان آفریں ہوگی، تاریخ آفریں ہوگی، عہد آفریں ہوگی اور جو کچھ انسان سے چھن گیا ہے اسے مقطر کرکے اُسے لوٹا دے گی۔
ایسی باتوں پر دانیال اور دانیال جیسے لوگ تڑپ تڑپ کر کہتے، آمین ثم آمین۔ اگرچہ وہ بھی محسوس کرتے کہ کاغذ کی باز آمد نشاۃِ ثانیہ، علوم و فنون کی معجزاتی باز آمد اور نشاۃِ ثانیہ تو نہیں ہوگی۔ دانیال محسوس کررہا تھا کہ جو کچھ دیمک نے عالمِ انسانی سے چھین لیا ہے، ایک عشرے میں اس کے جلو میں ایک ایسی پود نمودار ہوجائے گی جو پوچھے گی کہ بزرگو! یہ جو آپ کاغذ کاغذ کرتے رہتے ہیں وہ کس چڑیا کا نام ہے؟ ہمیں اس عجائب گھر میں لے چلیں جہاں اس کے آثار ہم بھی دیکھ سکیں۔ تب کاغذ کاغذ کی گردان کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جائیں گے۔
یہ ابھرنے والی نئی پود کاغذ کو، اخبار کو، رسالے کو، پمفلٹ کو، صحائفِ سماوی کو، نہ دیکھے گی، نہ پڑھے گی، نہ مانے گی، بلکہ اس حقیقت گزشتہ کو اپنے بزرگوں کا واہمہ قرار دے دے گی اور اس میں حق بجانب ہوگی۔
آہ، یہ بے کاغذپود، کیسی کیسی اشیاء کیسے کیسے حقائق، کیسے کیسے علوم و فنون سے محروم اور تہی دست ہوگی، جب اس پود کی محرومیوں کی پرچھائیاں، دانیال کا احاطہ کرلیتیں تو ان کی بھیانکتا اور دہشت اس کو زندہ در گور کردیتی تھی۔
ایسے میں دانیال کو شدت کے ساتھ ایامِ گزشتہ اور ایامِ مرحوم کا خیال آتا، احساس ہوتا کہ جب کاغذ تھا تو کیا کچھ تھا، علوم و فنون تھے، اخبارات اور کتابیں تھیں، خط و کتابت تھی، باہمی روابط تھے، ایجادات تھیں، ترقیاں تھیں، تحقیقات تھیں، انکشافات تھے، کائنات کے کائناتی راز کی ٹوہ جاری تھی، جو کچھ بھی تھا، اب وہ نہیں ہے۔ سب کچھ معدوم ہوگیا ہے۔ ملیا میٹ ہوگیا ہے۔
سب کچھ ملیا میٹ ہوا نہیں بلکہ سب کچھ ملیا میٹ کردیا گیا ہے۔
اور سب کچھ ملیا میٹ قدرت نے کیا ہے۔
کیا قدرت نے یہ سب کچھ ملیا میٹ کرکے انسان کو کوئی بے پناہ سزا دی ہے یا اس کے پردے میں اسے کسی اورنعمت سے سرفراز اور سرشار کرنا چاہ رہی ہے۔
یہ سوالات دانیال کے ذہن کو ایسے گھیر لیتے جیسے جزیرے کو سمندر کا پانی گھیر لیتا ہے۔ وہ تفکر اور تدبیر کی قیمت، ذہنی ریاضت کی شکل میں تو ادا کردیتا لیکن اس ضمن میں قدرت کا کوئی سرِ مکتوم اس پر فاش نہ ہوتا جو کچھ پردئہ اسرار میں تھا وہ پردئہ اسرار ہی میں رہتا۔ پھر یوں ہوا کہ ایسی نشریات سنی جانے لگیں کہ دنیا اب دیمک سے محفوظ ہوگئی ہے اور اس امر کی گنجائش ہے کہ کاغذ دوبارہ آجائے اور تاریخ پھر سے نیا موڑ کاٹے۔
یہ خبریں سن کر ایک نسل جھوم اٹھی۔ جبکہ نئی پود نے پوچھنا شروع کردیا کہ کاغذ کیا ہوتا ہے، کس لیے ہوتا ہے، کیسے بنتا ہے اور کیوں بنتا ہے؟
نئی پود کے ایسے سوالات نے بوڑھی پود کو آزردہ کردیا۔
ہوتے ہوتے کاغذ بھی بازار میں آگیا۔ دنیا نے ایک اور ہونی شدنی دیکھی۔ اب دانیال نوٹ کررہا تھا:
کاغذ آگیا، لیکن بائبل چھپی نہ تلمود۔
کاغذ آگیا، لیکن وید چھپے نہ بھگوت گیتا۔
کاغذ آگیا، لیکن کوئی سقراط چھپا نہ ارسطو۔
کاغذ آگیا، لیکن کوئی حمورابی چھپا نہ سولن۔
کاغذ آگیا،لیکن ’’سرمایہ‘‘ چھپا نہ ’’مکالماتِ افلاطون‘‘۔
کاغذ آگیا، لیکن کوئی فرائیڈ چھپا نہ ژونگ۔
کاغذ آگیا،لیکن جاوید نامہ چھپا نہ مثنوی مولانا روم۔
کاغذ آگیا،لیکن کوئی ڈارون چھپا نہ آئین اسٹائین۔
کاغذ آگیا،لیکن مقدمہ چھپا نہ مطالعہ تاریخ۔
کاغذ آگیا، لیکن کوئی لغت چھپی نہ انسائیکلوپیڈیا۔
کاغذ آگیا،لیکن تہذیبی آشوب اور بحران اپنی جگہ برقرار تھا۔
دنیا سمیت دانیال بھی اس کتاب کا منتظر تھا جو انسان کو انسان بنائے، قانون دے، تہذیب سکھائے، مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا لباس بنائے۔ انہیں پیراہن یوسفی پہننے کے اہل بنائے۔ انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے بچائے، چلے جائیں تو نکلنے کا راستہ بتائے۔ حکمرانوں کو ذاتی کام کے لیے سرکاری چراغ نہ جلانے دے، درّہ عمر کو شاہ غسان کے تعاقب میں رکھے، کاذب یمن کے لیے سیف اللہ کو بے نیام کردے، یمن کو سیلِ عرم سے بچائے، عیسیٰ کی قیمت پر برّابا قزّاق کو رہائی نہ دے، پہلا پتھر مارنے کی توفیق عام کردے کسی قریے کو سدوم کا ہم قسمت نہ ہونے دے۔
دانیال کو علم تھا کہ ایسی کتاب دنیا میں تھی، جس نے غربت، جہل، شرک، ظلم، اور عصیان کی گرم بازاری کو ختم کردیا تھا۔ جس نے مسلکِ ابراہیمی کو شیوئہ آذری کے خلاف کردیا تھا۔
کیا کتاب تھی کہ اُم الکتب بن گئی تھی۔
کتاب العلم تھی، علوم کی کسوٹی بن گئی تھی۔
کتاب الدین تھی، ادیان کی پرکھ بن گئی تھی۔
کتاب الایمان تھی، معراج الایمان بن گئی تھی۔
کتاب القانون تھی، قوانین کا ماخذ بن گئی تھی۔
کتاب التوحید تھی، شرک کو بے برگ و بار اور بے جڑ کردیا تھا۔
کتاب البشر تھی، وحدت البشر کا منشور بن گئی۔
کتاب القدیر تھی تقدیر الامم بن گئی تھی۔
کیا کتاب تھی کہ کتاب النور تھی، کیا کتاب تھی کہ کتاب الشفا تھی، کیاکتاب تھی کہ کتاب الشفاعت تھی۔
کیا کتاب تھی کہ کتاب اذکا رتھی، کتاب الافکار تھی۔
کیا کتاب تھی کہ از رفعت، براہِ رفعت اور برائے رفعت تھی۔
کیا کتاب تھی کہ از حق، براہِ حق اور برائے حق تھی۔
جو اس کو پڑھ لیتا تھا بجائے خود ایک کتاب بن جاتا تھا۔
دانیال یہی سوچتاتھا کہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا نقصان اس کتاب کا ضیاع تھا۔ نئی پود کو تو اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ برلبِ گور پود سے اس کا ذکر ہی اس نے سنا تھا۔
دانیال سوچتا تھا کہ یہی ایک کتاب آجائے تو گویا سب کچھ آجائے۔ علم، قانون، شریعت، تمدن، تہذیب، تاریخ، سائنس، علوم، فنون۔
لیکن یہ آئے کیسے؟
کاغذ آگیا تھا اور اس وقت تک تو بنی نوع انسان حرفِ تہجی بھی بھول چکے تھے۔
ایک دن دانیال کو اس کے ایک دوست نے بتایا:
’’قرآن کریم چھپ کر آگیا ہے، جبکہ کچھ نہیں چھپ رہا ، یہ کتاب مشرقین مشرقین، مغربین مغربین چھپتی ہی چھپتی چلی جارہی ہے۔‘‘
’’قرآن کریم کیسے چھپ گیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا
’’جن کے سینوں میں یہ محفوظ ہے وہ حافظ اسے پڑھ رہے ہیں۔ کاتب لکھ رہے ہیں اور چھاپہ خانے چھاپے جارہے ہیں۔‘‘
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ دانیال نے نعرہ لگایا۔
یہاں دانیال کی آنکھ کھل گئی، خواب ختم ہوگیا۔ اس کا جسم چکنا چور اور پسینے میں شرابور ہورہا تھا۔ وہ تڑپ اٹھا، بتی جلائی، الماری کھولی اور دیکھا تو قرآن حکیم اپنی جگہ پر رکھا ہوا تھا اور باقی کتابیں بھی۔
پھر اس کی زبان پر بے اختیا رآگیا
والعصرoان الانسان لفی خسرo