میں قد آدم آئینے میں اپنا عکس دیکھتا ہوں۔ سب کچھ دھندلا دھندلا نظر آتا ہے، مجھے اپنی ہیئت بدلی ہوئی نظر آتی ہے، میں سوچتا ہوں آج میں نے بہت عرصے کے بعد آئینہ کا سامنا کیا ہے، آئینے کا سامنا کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا، اس سے آنکھیں چار کرنے کا مطلب اپنے آپ سے آنکھیں چار کرنا ہوتا ہے اور اپنے آپ سے آنکھیں ملانا کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے خود کو پڑھا ہو۔
میں سب کچھ حیرت سے دیکھتا ہوں، ہر حصے کا جائزہ لیتا ہوں اور جس قدر میں بڑھتا جاتا ہوں حیرت کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں۔ میں بالکل بدل چکا ہوں۔
میں سوچنے لگتا ہوں کہ آخر میں نے یہ تبدیلی محسوس کیوں نہیں کی، پہلی اس تبدیلی پر غور کیوں نہیں کیا،کیا تبدیلی کوئی ایسا عمل ہے جو چپ چاپ واقع ہوجاتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔
میں گردوپیش کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کا بھی احساس ہوتا ہے کے کمرے میں بھی تبدیلی، آخر وقت خود بخود اپنے ساتھ تبدیلی کیسے لے آتا ہے؟ میں نے بارہا اس بات پر غور کیا ہے لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہوں، ساری چیزیں گرد آلور ہیں اور آئینے پر بھی گرد کی ایک موٹی تہ جمی ہوئی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اس کمرے میں کوئی رہتا ہی نہیں یا عرصہ سے کسی ذی روح کا گذر ہی نہیں ہوا۔
میرے ذہن میں ایک خیال نے سرابھارا’کمرے کی صفائی ہونی چاہیے‘ اور پھر یہ خیال ذہن کی گہرائیوں میں پیوست ہوتا چلا گیا، اپنی پہچان کے لیے صفائی ضروری ہے، آخر میں نے مصمم ارادہ کرکے ڈسٹر ہاتھ میں لے لیا۔
مجھے پھر کچھ دیر تک یہ فیصلہ کرنے کے لیے رک جانا پڑا کہ صفائی کہاں سے شروع کی جائے؟ جب گندگی ہر طرف بکھری ہوئی ہو تو صفائی کے لیے کوئی جگہ منتخب نہیں کی جاسکتی۔ صفائی تو پورے طور پر اور مکمل ہونی چاہیے۔
مجھے سب سے پہلے بک شیلف کا خیال آیا، انھیں کتابوں نے تو مجھے جنم دیا ہے، انھوں نے ہی مجھے گلیاں، مارگ کا پتہ دیا ہے انھیں سے مجھے روشنی ملی ہے، یہ میری زندگی کا جزولاینفک ہیں، ان کے بغیر میرا کوئی وجود نہیں ہے، اس لیے ان کا حق مجھ پر سب سے زیادہ ہے۔
میں بک شیلف کے نزدیک آیا تو مجھے نہ معلوم کتنی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں اور ان سرگرشیوں میں ساری آوازیں اس طرح گڈ مڈ ہوگئی تھیں کہ کسی کو پہچاننا مشکل تھا، کسی کو الگ کرنا ممکن نہیں تھا کسی کو علیحدہ کرکے پرکھنا ناممکن تھا۔
میں جب راستے طے کرنے لگتا ہوں تو کبھی کبھی ایسی سرگوشیاں کان کے پردوں سے ٹکرا کر ذہن کو بہکانے لگتی ہیں، اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میں کہیں گھپ اندھیرے میں بھٹک رہا ہوں، لیکن پھر مجھے دور سے کوئی ٹمٹماتی روشنی نظر آتی ہے اور وہ ساری تحریریں میری آنکھوں کے سامنے سج جاتی ہیں کہ اندھیرے کتنے ہی مہیب کیوں نہ ہوں، وہ روشنی کو چھپا نہیں سکتے، اندھیرے جتنے گہرے ہوجائیں سحر اتنی ہی نزدیک آجاتی ہے، پھر ان گنت جگنو مہیب بادلوں میں ٹمٹمانے لگتے ہیں، پھر کہکشاں افق پر بکھر جاتی ہے، پھر آکاش گنگا کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، یہ روشنیاں ایک جھماکے کی طرح آتی ہیں اور نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا صرف اجالے انسان کا مقدر نہیں ہیں؟
میرے سوالوں کا جواب ان کتابوں کے پاس بھی نہیں ہے میں اپنے سوالات شیلف سے لٹکا دیتا ہوں میں جانتا ہوں کہ یہ وہیں لٹکا لٹکا اپنی پہچان کھودے گا اور اس کا کوئی جواب نہیں مل سکے گا۔
سرگوشیاں پھر اتنی تیز ہوجاتی ہیں کہ میں سب کچھ بھول جاتا ہوں، میں اب اپنی ہی تصویر کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہوجاتا ہوں، ایک بار پھر اپنے آپ سے سامنا ہوجاتا ہے، میں جس قدر اپنے آپ سے کتراتا ہوں، یہ آپ خود ہی سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے کہ اسے میرے راستے میں رخنہ انداز ہونے کی عادت ہوگئی ہے، میں ان گنت بار اس تصویر کا جائزہ لے چکا ہوں اور میرے ذہن میں یہ یقین پختہ ہوتا جاتا ہے کہ یہ چہرہ رفتہ رفتہ میرے لیے اجنبی ہوتا جارہا ہے، ہوسکتا ہے کہ جلدی وہ دن آجائے جب میں اسے پہچاننے سے بالکل انکار کردوں، اس وقت آخر میرا کیا ہوگا، کیا یہ تصویر میرا تعاقب کرنا بند کردے گی؟ ایک دن یہی سوال میں نے ’پون‘ سے کیا تھا تو وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا میں بوکھلا کر اس کا منھ تکنے لگا، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ لیکن وہ پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا کہ اس کے پاس میرے سوال کا جواب دینے کی فرصت ہی نہیں تھی، یا پھر میرا سوال ہی ایسا تھا کہ آدمی کو بے اختیار ہنسی آجائے۔ میں دیر تک یہی سوچتا رہا کہ آخر اس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے، یہ بھی ممکن تھا کہ وہ میرے سوال سے بچنے کے لیے ہی ہنس رہا ہو اور اس کے ذہن کے کسی کونے میں میرے سوال کا جواب نہ ہو۔
تصویر کی سرگوشی نے پھر ایک بار مجھے چونکا دیا، میرا ’آپ‘ میرا تعاقب بند نہیں کرسکتا، ممکن ہے یہ اس کی مجبوری ہو۔
میں اسے ڈسٹر سے صاف کرکے گرد کے حصار سے آزاد کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ذہن میں خیال آیا ’اسے گرد کے حصار میں قید ہی رہنے دیا جائے‘ اس طرح اس کا وجود ختم تو نہیں ہوتا لیکن یہی کیا کم ہے کہ اس کی شکل دھندلی سی ہوگئی ہے۔ یکایک میرا خیال اپنے چہرے کی جانب چلا گیا، کہیں وہ بھی تو نہیں دھندلا گیا ہے؟ میں پھر چونک کر آئینہ دیکھتا ہوں، لیکن آئینہ تو خود ہی گرد کی تہہ سے ڈھکا ہوا ہے اس لیے سارے نقوش دھندلے دھندلے سے ہیں۔
ہینگر پر میرے ملبوسات ٹنگے ہوئے ہیں، سوٹ کتنا گرد آلود ہوگیا ہے، وہ بھی کیا دن تھے جب سوٹ پر کوئی شکن نہیں پڑنے پاتی تھی، ذرا سی دھول کا ٹھہراؤ ممکن نہ تھا لیکن اب ایسی بات نہیں ہے، مجھے ہر طرف دھول ہی دھول اڑتی نظر آتی ہے، کیا میرا کمرہ بھی کوئی ویرانہ ہے، جہاں دھول اڑرہی ہو اور اس کے ویرانے میںمیں تنہا بھٹک رہا ہوں۔
میرے لکھنے کی میز پر جو بھی کاغذات اور کتابیں ہیں وہ سب گرد سے اٹی ہوئی ہیں، ٹیبل گلاس پر دھول کی موٹی تہہ جم چکی ہے، اور مجھے یاد آیا ’روز‘ نے بتایا تھا کہ گرد آئینے کی دشمن ہے، آئینہ گرد آلود ہوجائے تو اسے فوراً صاف کردینا چاہیے، ورنہ نظر و پس منظر سب کچھ دھندلا جائے گا۔
میں نے ڈسٹر ٹیبل گلاس پر پھیرا تو وہ پھر چم چم چمکنے لگا، گرد ہٹ گئی، اس کے نیچے دبے ہوئے اقوال زریں پھر روشن ہوگئے۔ لیکن کیا ایسا بھی کوئی طریقہ ہے جس سے دل کے نازک شیشے سے گرد ہٹائی جاسکے؟ ایسا کون سے ڈسٹر ہے؟
میں سوچتا ہوں کہ سب سے پہلے آئینے کو صاف کرنا چاہیے کہ اس میں مجھے منظر و پس منظر سب کچھ دیکھنا ہے، اور میں جوں ہی اس پر ڈسٹر رکھتا ہوں ایک بار پھر فریم کی تصویر چونک جاتی ہے، اس بار اس کی سرگوشی میں تلخی گھلی ہوئی ہے، اس کی سرگوشی زہر لگ رہی ہے، میں اس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں، مجھے اس کی ہنسی زہر معلوم ہوتی ہے۔
میں کرسی پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں، لیکن اس کی سرگوشی مسلسل کانوں میں سیسہ انڈیل رہی ہے، میں دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہوں، ایسا لگتا ہے کہ آج میرے کانوں کے پردے بے کار ہوجائیں گے۔
میں غصہ میں پیپر ویٹ اٹھاکر اس پر کھینچ مارتا ہوں، ایک جھناکا ہوتا ہے اور فریم ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، اس کی جھنجھنا ہٹ سارے کمرے میں تیرتی پھر رہی ہے، میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ جاتی ہے، نئی تعمیر کے لیے پرانے کھنڈرات ڈھانا ضروری ہے۔
میں اس کے قریب جاتا ہوں، تصویر مردہ ہوچکی ہے، اب وہاں تلخ مسکراہٹ نہیں ہے، اب اس کے ہونٹوں پر زہریلی ہنسی نہیں ہے اب اس کی کڑوی سرگوشی مردہ ہوچکی ہے، اب وہ کبھی میرے راستے میں رخنہ انداز نہیں ہونے پائے گا۔
میں پھر آئینے کے قریب آتا ہوں، ڈسٹر سے گرد صاف کرتا ہوں، مجھے اپنا چہرہ اب پوری آب و تاب سے نظر آتا ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ یک لخت میرا چہرہ بدل چکا ہے، یہ میرا اپنا چہرہ ہے اس میں کوئی اجنبیت نہیں ہے، منظر وپس منظر سب کچھ بدل گیا ہے سب کچھ صاف اور واضح ہے۔
اسی لیے ’روز‘ نے کہا تھا کہ آئینے کو گرد آلود نہیں رہنا چاہئے، دھول آئینے کی دشمن ہے، دھول کا حصار منظر و پس منظر سب کچھ بدل دیتا ہے۔
پھر جیسے میرے دل کے آئینے سے بھی گرد کی چادر اڑجاتی ہے۔