’’ہیلو وینا‘‘ میں چونک پڑی۔ سامنے مسز سکسینہ اپنی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی تھیں، مجھے ان کی اس مسکراہٹ سے سخت کوفت ہوتی ہے، مگر خیر دل پر جبر کرکے خوش دلی سے ان کا خیر مقدم کیا ’’آئیے مسز سکسینہ! آپ بہت دن میں آئی ہیں، میں تو آپ کو یاد ہی کررہی تھی۔‘‘ کیا کریں تم تو گھر سے نکلتی ہی کب ہو، بس گھر میں بیٹھ کر یاد کرلیتی ہو۔‘‘ انھوں نے حسب عادت میرے گھر گھسنے پر لعنت ملامت شروع کردی تھی اور میں نے معذرت۔
’’کیا کروں مسز سکسینہ فرصت ہی نہیں ملتی، حالانکہ آج اسکول سے چھٹی لی تھی، ابھی کچن صاف کرکے بیٹھی ہوں، اب یہ ڈھیر ساری کاپیاں دیکھنے کو رکھی ہیں۔‘‘ میں نے اپنی عدیم الفرصتی کا ذکر شروع ہی کیا تھا کہ انھوں نے بات کاٹ دی۔ یہ ان کی پرانی عادت تھی، یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں اپنی آواز بہت پسند ہے۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کون سے ایسے انوکھے کام ہیں تمہیں، جو کام تم کرتی ہو میں وہ سب کام کرتی ہوں، سروس کرتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں، مہمان میرے گھر بھی آتے ہیں، بیماری دکھی بھی لگی رہتی ہے، مگر تمہاری طرح ہر وقت گھر میں گھسی مصروفیت کا رونا نہیں روتی ہوں، ان سب کاموں کے ساتھ آخر میں کس طرح سے لوگوں سے ملنے جلنے کا وقت نکال لیتی ہوں؟‘‘
’’پتہ نہیں بھئی! مجھے تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ آپ اتنی جلدی اتنے کام کیسے کرلیتی ہیں؟‘‘ یہ تو میں مسز سکسینہ سے کہہ رہی تھی، مگر آپ کو یہ بتادوں کے مسز سکسینہ بے حد پھوہڑ عورت ہیں، ہر کام ایسے کرتی ہیں کہ جیسے کوئی سر کا بوجھ اتاررہا ہو، ان کا کچن اتنا گندہ رہتا ہے کہ میرا تو ایک منٹ کھڑے ہونے کو جی نہیں چاہتا، میں تو گھنٹوں صفائی ہی کرتی رہتی ہوں، جب ہی تو میرا گھر ایسا صاف ستھرا رہتا ہے کہ جو آتا ہے یہی کہتا ہے اتنا چھوٹا گھر، اتنے لوگ، آپ کیسے اتنی صفائی رکھ لیتی ہیں، اب میں کیا کہوں۔
’’اب تو گھر کا کام اتنا آسان ہوگیا ہے۔‘‘ مسز سکسینہ حسبِ عادت مجھے پلاننگ اور پھرتی سے کام کرنے کی تلقین کررہی تھیں۔ ’’بس تھوڑی سی پلاننگ کی ضرورت ہے، تم کو معلوم ہے، میں روز ایک گھنٹہ، صرف ایک گھنٹہ صرف کرتی ہوں کچن میں اور اتنے آدمیوں کا دونوں وقت کا کھانا تیار کرلیتی ہوں، خیر میری پھرتی اور سلیقہ کی تو میرے میاں بھی بہت تعریف کرتے ہیں۔ سنو وینا ایک مزے کی بات سنو! پچھلے سال جاڑوں میں ہمارے بچارے سسر کے ایک دوست علاج کرانے ہمارے یہاں آکر ٹھہرے۔بچارے بوڑھے آدمی تھے، دیہات کے رہنے والے، صبح ہی اٹھ جاتے اور بہت غور سے مجھے کام کرتے دیکھتے۔ ایک دن بولے بیٹی! مجھے تو لگتا ہے کہ تمہارے جسم میں کوئی مشین فٹ ہے، اور مسز سکسینہ خود ہی زور زور سے ہنسنے لگیں، مجبوراً مجھے بھی ساتھ دینا پڑا۔
’’ہاں بھئی وینا! تمہاری دیورانی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’وہی روٹین ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہر اتوار کو فری ڈنر اور فری پکچر دیکھنے آجاتی ہیں پورے کنبے سمیت۔‘‘ مسز سکسینہ کی باتوں میں اب مجھے دلچسپی آنے لگی تھی۔
’’معاف کرنا بھئی! مجھے تو تمہاری دیورانی صورت سے ہی کاہل لگتی ہیں، تمہارے دیور کیسے انھیں برداشت کرتے ہیں۔‘‘
’’بڑے گھر کی بیٹی جو ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ مگر باوا نے جہیز میں ٹی وی نہیں دیا؟‘‘
’’دے رہے تھے مگر میاں نے منع کردیا، کیا ضرورت ہے، گھر چھوٹا ہے، بھائی کا گھر کس کے لیے ہے اور پھر ہم جیسے بیوقوف بھی موجود ہیں خدمت کرنے کو۔‘‘
’’تم واقعی بیوقوف ہو، کیوں کرتی ہو؟‘‘
’’بھئی ہے تو اپنی مصیبت یہ، میں تو کہتی ہوں، خدا بس انسان کو حساس نہ بنائے، بچہ ان کا روتا ہے، فکر مجھے ہوتی ہے، وہ آرام سے بیٹھی فلم دیکھتی رہتی ہیں۔‘‘
یہ تو تم ٹھیک کہتی ہو، یہی حال ہماری بھابی کا ہے، میں تو سچ کہتی ہوں، جب تک میرے بچے چھوٹے رہے میں نے فلم ہی نہیں دیکھی، بڑی کوفت ہوتی ہے۔
میرا خود یہی حال ہے، میں دیکھتی ہوں خواتین مزے سے بچوں کو بغل میں لیے ہر جگہ گھومتی ہیں، پڑھی لکھی تعلیم یافتہ خواتین کا ذکر کررہی ہوں میں آپ سے، ہماری دیورانی ہی کو لیجیے خیر سے ڈبل ایم ۔اے ہیں، سچ واقعی!! صورت سے تو وہ مجھے میٹرک پاس بھی نہیں لگتیں۔ انھوں نے بھی ہماری ہی طرح پڑھا ہوگا، کتابیں دوسرے لاتے، نوٹس کوئی بناتا اور جب امتحان ہوتا تو بھائی صاحب رات کو جاگ جاگ کر انھیں پڑھاتے۔
’’میں آپ سے کیا کہوں، مسز سکسینہ۔‘‘ میں نے اپنی دیورانی کی جہالت کے قصے دہرانے کے شوق میں خلاف عادت مسز سکسینہ کی بات کاٹ دی۔ اس دن میں بڑی امپریس ہوئی۔ اسی پر بات چیت ہورہی تھی، بیچاری دیورانی بھی تھیں، ایک صاحب میرے پاس آئے اور بولے: کیا آپ شعر کہتی ہیں؟ میں نے کہا نہیں! بولے : افسانے لکھتی ہیں؟ میں نے کہا نہیں! تو بولے آپ کس موضوع پر ریسرچ کررہی ہیں؟ مجھے بڑی شرم آئی۔
ارے شرم کی کیا بات ہے، آج کل کی ایم اے پاس عورتوں سے تو ہم بی۔اے۔ پاس کہیں قابل ہیں، تمہاری دیورانی کیاکرتی ہیں۔ عورتوں میں بیٹھی یہ معلوم کرتی رہتی ہیں کہ سستی اور اچھی فال ساڑیوں میں کہاں لگتی ہے۔ اور ہم دونوں کے قہقہوں سے گمرہ گونج رہا تھا۔
’’ارے مسز سکسینہ ہیں؟‘‘ وہ کہہ رہے تھے، میںانھیں دیکھ کر چونک پڑی۔ ’’ارے آپ؟‘‘ ان کا موڈ آج خراب تھا پھر وہ اپنے باس سے لڑ کر آئے تھے اور مسز سکسینہ کی وجہ سے اپنا موڈ ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔
مسز سکسینہ! ببلی اب کیسے ہے؟ سکسینہ صاحب بہت دن سے نظر نہیں آئے، آپ ہماری ان سے سفارش نہیں کرتیں، مسز سکسینہ ہنسنے لگیں۔ ’’لیجئے بھائی صاحب! میری سفارش وہ بھلا کیا سنیں گے۔ کہہ تو رہے تھے کہ شارق صاحب پریشان ہیں، کپور ان کو بہت ستا رہا ہے۔
ارے کچھ نہ پوچھئے! بالکل بیوقوف و جاہل ہے۔ ایک سطر نہیں لکھ سکتا، ہر خط مجھ سے ڈرافٹ کراتاہے۔ خیر مجھ سے بہتر ڈرافٹنگ تو شاید ہی کوئی کرسکتا ہو، دفتر کا سارا کام میں کرتا ہوں بس میرا قصور صرف یہ ہے کہ قابل ہوں، احساس ذمہ داری ہے، احساس فرض ہے، خوشامد نہیں کرتا کسی کی، بعض وقت تو بہت فرسٹریشن ہوتا ہے۔
میں سوچ رہی تھی کہ چائے بناؤں، بوا کے آنے میں دیر تھی کہ سامنے سے ہمارا پرانا نوکر حمید آتا دکھائی دیا، میں نے اس سے ایک لڑکا ادھر کے کام کے لیے تلاش کرنے کو کہا تھا۔ شاید وہ اس کے بارے میں بتانے آیا ہو۔
کہو حمید! کوئی ملا؟ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔
ارے بیگم صاحب! اچھا نوکر ملنا اتنا آسان ہے؟ ہم تو اپنا جیسا آدمی تلاش کرتے ہیں، کہ سونا پڑا ہو تو اسے مٹی سمجھے، مالک کے پسینے پر خون بہائے، خدا کی قسم بیگم صاحب ہمارا جیسا آدمی تو آپ چراغ لے کر ڈھونڈیں گی تب بھی نہیں ملے گا۔
وہ تو ٹھیک ہے حمید! مگر کام تو چلانا ہے۔ انھوں نے حمید کی بات کاٹی۔
صاحب بالکل بجا فرمایا آپ نے مگر میںاپنا سا آدمی کہاں سے لاؤں، آپ کو تو خیر یاد ہوگا۔ بیگم صاحب بھی نہیں تھیں، جب آپ کو نمونیہ ہوگیا تھا، میں نے اکیلے آپ کی ایسی تیمار داری کی تھی کہ ڈاکٹر پرشاد عش عش کراٹھے تھے، کہنے لگے: بھئی حمید! تم نے نرسنگ کہاں سے سیکھی ہے۔ اب تو صاحب نوکر کام گنتے ہیں کام۔ یہ ہم تھوڑی ہیں۔ اب جعفری صاحب کے یہاں آئی تو ہے آیا، سو روپئے تنخواہ، کوارٹر، کھانا، چائے، پان، سال میں دو جوڑے اور وہ نخرے کہ کیا بتاؤں صاحب آپ کو۔ رات کو نو بجے کوارٹر میں چلی جاتی ہے، صبح آٹھ بجے اٹھ کر آتی ہے، صاحب اور بیگم صاحب کو ایک ایک زبان میں دس دس باتیں سناتی ہے۔ ایک ہم ہیں صاحب! آج تک یہ نہیں بھولے کہ آپ کا نمک کھایا ہے۔ جب موقع ملتا ہے چلے آتے ہیں۔ حمید کہے جارہا تھا اور میرے کانوں میں جعفری صاحب کی آیا کی باتیں گونج رہی تھیں جو وہ آج ہی صبح آکر کہہ گئی تھی، ’’بیگم صاحب میری جیسی آیامل جائے تب جانوں، جانے کتنے بچے پال دئیے۔ میری جیسی صفائی کوئی رکھ تو لے اور میری جیسی محبت، ارے دس مائیں قربان ہیں۔ مگر ہائے بیگم صاحب کیابتاؤں، ابھی میری بیگم کو میری ویلیو نہیں معلوم ہوئی، آپ تو جانتی ہیں کہ موتی کی پرکھ کوئی اچھا جوہری ہی کرسکتا ہے۔‘‘
مسز سکسینہ! اس حمید کو میں دس سال کا اپنے گاؤں سے لایا تھا۔ حمید جاچکا تھا اور وہ مسز سکسینہ کو حمید کے بارے میں بتارہے تھے۔ میں نے اسے ادب و تہذیب سکھائی، بالکل گنوار تھا، پڑھایا، ڈرائیونگ سکھائی، اس کو نوکر کرایا، اس قدر دماغ دار ہے کہ بس، ہم نے ہی اس کے ساتھ نباہ کرلیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی کام کا ہے، مگر بس اس کو بھگتنا آسان نہیں ہے، میں حمید کی بد دماغی کے کچھ قصے مسز سکسینہ کو سنانا چاہتی تھی، مگر وہ جانے کے لیے پر تولنے لگیں، شاید اس لیے کہ انھیں اب اور کسی کے پاس جاکر اپنی صفات عالیہ کا بیان کرنا ہوگا۔
میں چائے بناتے ہوئے سوچ رہی تھی، اس وقت کتنی پریشان تھی، مگر باتوں میں وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا، دنیا میں سکھ ملنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے، سب سے زیادہ سکھ ملتا ہے ہمیں اپنی تعریف اور دوسروں پر نکتہ چینی کرنے میں اور یہ سکھ ہم سب کو حاصل ہے۔