ہماری زندگی میں تقویٰ پیدا کرکے اسے منظم کرتا اور ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی سکھاتا ہے۔ اسلام کی تمام عبادات کا مقصد خشیت الٰہی ہے۔ عبادات سے انسان میں پاکیزگی اور اللہ کی عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو تمام عبادات اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو نکھار کر کندن بناتی ہے۔ اسے ہم تقویٰ کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو خالصتاً رب العزت کی رضا کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا اجر میں خود ہوں۔
رمضان میں عبادات کا شوق بڑھ جاتا ہے لیکن یہ بدنصیبی اور محرومی ہے کہ رمضان کے بعد ہم ویسے کے ویسے ہوجاتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک تو نہیں کیا جاسکتا لیکن جو رمضان کے بعد کے مظاہر ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے روزے کو ایک دکھاوے کی عبادت بنادیا ہے۔ ہم پورے رمضان کے روزے رکھتے ہیں مگر نہ تو ہمیں ان روزوں سے کوئی جسمانی فوائد مل رہے ہوتے ہیں نہ روحانی ترقی ہورہی ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرتی برائیوں اور گھناؤنے اعمال سے نجات مل رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
رمضان میں ہم نے یہ سیکھا کہ بہترین روزہ وہ ہے جو احتساب اور ایمان کے ساتھ رکھا جائے۔ خواہشات نفسانی سے رکے رہنا اصل اور واجب ہے کہ ان کاارتکاب ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح بہت ساری باطنی چیزیں بھی ہیں جن سے باز رہنا انتہائی ضروری ہے مثلاً جھوٹ، غیبت، چوری، بے ایمانی، دھوکا دہی وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام باطنی اعمال وہ ہیں جن سے رکے رہنے کی وجہ سے معاشرے میں برائی ختم اور اچھائی کے پھیلنے اور بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ تمام باطنی اعمال ایک مسلمان کی زندگی میں ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ہم اگر اپنے رمضان کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہم روزے اور اس کی مقبولیت کے عمل سے بہت دور رہے۔ ہم نے دیکھا کہ ابتدائے رمضان میں مساجد بھی بھری نظر آئیں۔ نوافل کی ادائیگی اور تلاوت کلام پاک بڑے جوش و خروش سے ہوتی دکھائی دی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دلچسپی کم ہوتی چلی گئی اور جوش ماند پڑتا گیا۔
رمضان کے بعد پنج گانہ نمازوں میں بھی نمازیوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی بازاروں میں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ روزے سے ہوتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے رہے کیوں کہ ہمیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ کاروباری معاملات میں جھوٹ سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ایک سبزی فروش اور پرچون کی دکان پر بیٹھا ہوا شخص حسبِ عادت کم تولتا دکھائی دیتا ہے۔ دوست احباب کی مجلسوں میں غیبت بالکل ایسے ہی چل رہی ہوتی ہے جیسے کوئی بری بات ہی نہیں ہے۔
رمضان کے اختتام کے ساتھ ہی ہم اخلاقی اور معاشرتی گراوٹ میں انتہائی تیزی سے ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ہم اپنے روز و شب کے تمام معاملات کو الٹ دیتے ہیں۔ ہم پھر سے ان خرافات میں مبتلا ہوگئے ہیں جنھیں رمضان میں ہم نے چھوڑے رکھا تھا پھر کیا حاصل کیا ہم نے رمضان سے؟ قرآن کہتا ہے کہ روزے تو اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
ہماری عبادتوں سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہماری عبادات ہماری اپنی تطہیر اور صفائی کے لیے ہوتی ہیں۔ ان عبادات سے جڑے ہوئے ثواب کے جو وعدے ہیں وہ تو آخرت کے لیے ہیں وہ وہاں ملیں گے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو ہم دنیا کی کھیتی میں سے کما کر آگے بھیج رہے ہیں۔
رہی بات دنیاوی فائدے کی تو ہر عبادت ہمارے نفوس میں نفاست پیدا کرتی ہے۔ اللہ کے احکامات پر عمل درآمد سے ہمارے اعمال بہتر ہوتے ہیں اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اس بہتری کا اثر سماج اور معاشرے پر بھی پڑتا ہے کہ ہم برائیوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ ہماری عبادتیں گو کہ انفرادی سطح پر ہماری تطہیر قلب کرتی ہیں اور جو پاکیزگی روح کو ملتی ہے وہ انسان کے اندر بھلائی پیدا کرتی ہے۔ مگر جب معاشرے کے تمام لوگ مل کر یہ پاکیزگی حاصل کرلیتے ہیں تو پورے معاشرے میں اس کے اثرات پھیل جاتے ہیں۔ اگر معاشرہ کا ہر فرد جھوٹ کو غلط سمجھے اور اس سے اجتناب برتے تو وقت کے ساتھ پورے معاشرے میں اس کے اثرات پہنچنا شروع ہوجائیں گے اور ہمارے اندر سے جھوٹ کی یہ وبا جو آج عام ہے دور ہوجائے گی۔ ہم اسلام کا نام تو ضرور لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںوہ تمام برائیاں موجود ہیں جو کسی دوسرے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔
رمضان ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اسی روش پر باقی گیارہ مہینے بھی قائم رکھیں جس روش پر رمضان کے مہینے میں چلایا تھا۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر رمضان سے ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ll