حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کاارشادِ گرامی ہے کہ لیلۃ القدر کو جبرئیل ؑ فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ اترتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لیے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے ہوکر یا بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔‘‘
لیلۃ القدر وہ بے مثال رات ہے جس میں قرآن حکیم نازل ہوا، جس سے انسانیت کی تقدیر بدل گئی۔ اس رات میں ایسی کتاب نازل ہوئی جس سے بنی نوع انسان کو اپنی پہچان اور اپنے خالق کا عرفان حاصل ہوا۔ آسمان سے اس رات فرشتے اترتے ہیں اور علیین سے روحیں نازل ہوتی ہیں تاکہ باکمال انسانوں کے ساتھ ملاقات کریں اور ان کے اعمال سے روشنی حاصل کریں اور اپنے محبوب اور معبود کی محبت کا جوجذبہ ان کے سینوں میں جوش ماررہا ہے اس کی لذت سے بہرہ ور ہوں۔
سورۃ قدر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو (لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف) شبِ قدر میں اتارا اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے۔‘‘ لیلۃ القدر (عبادت اور نیکی) ہزار مہینوں (کی متواتر عبادت اور نیکی) سے بہتر ہے۔ (یعنی اس سے بھی زائد ہے)۔ فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے ہر ’’امرخیر‘‘ کے لیے اس ’’رات‘‘ میں اترتے ہیں۔ یہ سلامتی اور امن کی رات ہے اور یہ کیفیت امن و خیر صبح کے نکلنے تک رہتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ جب کہ مہینہ ختم ہونے میں 9 دن باقی ہوں یا سات دن یا پانچ دن باقی ہوں۔‘‘ (بخاری)
اکثر اہلِ علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور کی مراد طاق راتوں سے تھی۔ حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ 9دن باقی ہوں یا سات دن یا پانچ دن یا تین دن یا آخری رات۔ مراد یہ تھی کہ ان تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔(ترمذی، نسائی)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شبِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو۔‘‘
(بخاری، مسلم، احمد، ترمذی)
حضرت عائشہؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا۔ حدیث مبارک ہے ’’جو شخص شب قدر سے محروم ہوگیا گویا پوری بھلائی سے محروم ہوگیا اور شب قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ)
حدیث میں آتا ہے: ’’جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے۔ ‘‘
(بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہےکہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب شب قدر آتی ہے تو حق تعالیٰ حضرت جبرئیلؑ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے ساتھ سدرہ پر رہنے والے ستر ہزار فرشتوں کو لے کر زمین پر اترجاؤ۔ فرشتوں کے پاس نور کے جھنڈے ہوتے ہیں۔ پھر جب یہ فرشتے زمین پر اتر آتے ہیں تو حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کو دنیا میں پھیل جانے کا حکم فرماتے ہیں۔ فرشتے دنیائے اسلام میں پھیل جاتے ہیں اور کوئی محلہ، حجرہ اور کشتی جس میں مومن مرداور خواتین ہوں باقی نہیں رہتا کہ فرشتے وہاں نہ گئے ہوں، ہاں جس گھر میںکتا یا سؤر یا شراب یا ناپاک آدمی یا مجسمے ہوں، وہاں نہیں جاتے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے رہتے ہیں اور امتِ محمدیﷺ کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ جب صبح صادق کو پو پھٹنے لگتی ہے تو آسمان پر واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ماہِ رمضان کی ستائیسویں شب صبح تک عبادت کی تو وہ مجھے رمضان کے قیام سے زیادہ عزیز ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے لیلۃ القدر کو شب بیداری کی اور جس نے رات میں دو رکعت پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ لگالیا، اسے جبرئیلؑ اپنا پر لگائیں گے اور جس کو حضرت جبرئیلؑ پر لگائیں گے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے شب قدر معلوم ہو جائے تو اس میں کیا کروں؟
آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھو:
’’اللّٰہم انک عفو وتحب العفو فاعف عنا۔‘‘
’’اے اللہ! تو معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنا تجھے پسند ہے تو مجھے معاف فرمادے۔‘‘