ٹوٹا سائبان

سیدہ صدف بتول

 

 

 

اس نے سگریٹ کا گہرا کش لے کر اسے دور پھینک دیا، پھر نہ جانے کیوں اس کی نگاہیں سگریٹ پر جم گئیں۔ اس نے گہری نظر سے ننھے سے سلگتے ہوئے ٹکڑے کی طرف دیکھا جو لمحہ بہ لمحہ اپنے ختم ہونے کا اعلان کر رہا تھا اورآخر جب اس کا ننھا سا وجود ایک تیز رفتار گاڑی کے نیچے آکر کچلا گیا تو وہ بھی آہ بھر کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’سعید یہ تیرا آخری سگریٹ تھا‘‘۔ وہ خود سے مخاطب ہوا۔ ’’نہ جانے دوبارہ کبھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ جا یار! تیرے تو نصیب ہی ٹھنڈے ہیں‘‘۔ اوراس کے ساتھ ہی اسے سردی کااحساس ہوا مگر اس وقت اسے سردی نہیں بلکہ سونے کے لئے کسی مناسب جگہ کی تلاش تھی۔ اچانک اس کی نظر ایک آوارہ کتے پر پڑی جو ایک کار کے نیچے سو رہا تھا ۔ سردی سے بچنے کے لئے بے چارہ نہ جانے کہاں سے ایک بوری گھسیٹ لایا تھا۔ سعیدنے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور زور سے کتے کو دے مارا۔ کتا ڈر کر اٹھا اور بھونکتا ہوا ایک طرف بھاگ نکلا۔ سعید قہقہے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور کتے کو گالی دے کر بوری میں گھس گیا۔ کہتے ہیں نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ وہ بھی کچھ دیر بعد دنیا و مافیہا سے بے خبر خراٹے بھرنے لگا۔
اس کی عمر بیس سال تھی۔ ماں نے نام تو سعید رکھ دیا، مگر اس کی تقدیر نہ بدل سکی۔ بختاور چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے۔ اس کی بڑی سی چمکیلی کار ہو۔ بڑے سے بنگلے میں نوکر حکم کے منتظر ہوں اور وہ قیمتی لباس پہنے اپنی قسمت پر رشک کیا کرے۔ اسی آس میں وہ روزانہ رفیق کی دہی بھلوں کی ریڑھی رگڑرگڑ کر چمکاتی اور اسے زور زور سے آوازیں لگانے کی تلقین کرتی۔ اس کے بعد سعید کو بڑے ارمانوں سے تیار کرکے اسکول بھیجتی اور جب رفیق روزانہ رات کو سیلے اورمڑے تڑے نوٹوں کا ڈبہ اس کے ہاتھ میں تھما دیتا تو ان پیسوں کو گنتے ہوئے وہ سپنوں میں کھوجاتی جہاں اس کا بیٹا اس کے بوڑھے ہاتھوں میں نئے نوٹوں کی گڈیاں پکڑا کر کہتا’’ ماں میں نہ کہتا تھا کہ ایک دن تمہارے سب دکھ دور کردوں گا۔ اب جلدی سے کھانا لگوا دو، بہت بھوک لگی ہے‘‘۔ جب وہ چونکتی تو رفیق کی کمزور آواز سنائی دیتی۔ ’’اے بھلی مانس! بس کر خواب دیکھنا۔ غریب خواب نہیں دیکھتے۔ چل! جلدی روٹی دے، بھوک لگی ہے‘‘۔ اور وہ بھیگی آنکھوں سے اسے کھانا دینے اٹھ جاتی۔
رفیق ٹھیک ہی کہتا تھا کہ غریب خواب نہیں دیکھتے۔ شاید وہ جانتا تھا کہ بختاور کے خواب اس کی آنکھوں میں کرچیاں بن کر چبھ جائیں گے۔ ایک دن رفیق کی ریڑھی پر ایک امیر زادے کی چمکیلی کار چڑھ دوڑی، اس حادثے نے رفیق کی جان لے لی۔ امیر زادے کا باپ تھانیدار کو نئے نوٹوں کی گڈی دے کر بیٹے کو چھڑالایا۔ بختاور اتنا روئی کہ اس کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ اب وہ روزانہ سعید کی ریڑھی کو صاف کرتی اور اسے سلامتی سے واپس آنے کی دعا دے کر رخصت کرتی۔
’’ سعید بیٹے! کبھی کچھ پڑھ بھی لیا کر۔ جب سے تیرے ابا فوت ہوئے ہیں تونے پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ ایک دن اس نے بیٹے کے چہرے کو ہاتھوں سے محسوس کرتے ہوئے کہا، مگر اسے جواب ملا’’ماں، تو اب بھی میرے افسر بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ تجھے کیوں سمجھ نہیں آتا کہ غریب خواب نہیں دیکھا کرتے‘‘۔
’’بس بیٹا بس! تیرے ابا بھی یہی کہتے تھے۔ وہ آپ تو مرگئے، میری آس بھی لے ڈوبے۔ توتو میرا دل نہ توڑ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ ’’میں نے سوچا تھا میں بھی ایک دن چھیمے کی ماں کی طرح سکھی ہوجائوں گی۔ جب وہ بڑی سی گاڑی میں مجھ سے ملنے آتی ہے تو پوری بستی دیکھتی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چھیمے کی تعریفیں کرتی ہے۔ ہائے! ایک میں ہی نصیبوں ماری رہ گئی۔ رفیقے! تو کیوں مرگیا۔ ہائے رفیقے! تو کیوں مرگیا!!‘‘ اسی طرح رفیقے کو پکارتی ہوئی ایک دن وہ رفیقے سے جاملی۔ سعید رات کو گھر آیا تو ماں کی اکڑی ہوئی لاش ملی۔ پاس ہی چوتھی جماعت کی گرد سے اٹی ہوئی کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ اس کی نظر انگریزی کی کتاب کے کھلے ہوئے صفحے پر پڑی جہاں موٹے حروف سے لکھا تھا، “My Great Mother” بوسیدہ کمرے کے درودیوار سعید کی چیخوں سے لرز اٹھے۔
جن نوٹوں سے اس نے ماں کا کفن خریدا، ان میں دہی بھلوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ اسے یاد آیا کہ ایک مرتبہ اس کی ہیڈ مسٹریس نے فیس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں تووہی بھلوں کی خوشبو رچی ہوئی ہے تو اس کی ماں چہک کر بولی تھی۔’’ محنت کی کمائی ہے جی! بیٹا بڑا ہوکر افسر بنے گا تو ہم عیش کریں گے‘‘۔ ہیڈ مسٹریس نے جواب دیا تھا’’خدا کرے تمہارا بیٹا تمہارے خواب پورے کرے ، ماشاء اللہ بہت ذہین ہے‘‘۔ اور وہ اسی بات پر تمام دن جھومتی رہی تھی۔ ماں کو یاد کرکے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رحمت چاچا نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
تدفین کے بعد سب لوگ فاتحہ پڑھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے، مگر وہ گھنٹوں قبر سے لپٹ کر روتا رہا۔ چیخ چیخ کر فریاد کرتا رہا کہ ماں تو کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ اتنے میںکسی نے اس کی کمر پر تھپکی دی۔ یہ رحمت چاچا تھے، جنھوں نے اس کی کفالت کا ذمہ اٹھا لیا تھا۔ رحمت چاچا، جو اس کے دور کے رشتہ دار تھے، اپنا سامان لے کر سعید کے گھر آگئے۔ ان کے دو معصوم بچوں نبیل اور زبیر نے سعید کا خوب دل لگادیا تھا۔ کچھ دن بعدسعید نے کام پر بھی جانا شروع کردیا۔
وقت گزرتا رہا۔ سب کچھ اسی طرح تھا۔ سعید اب بھی دہی بھلے والا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ ماں کے بدلے نوٹ رحمت چاچاگنتا اور پیار بھری باتوں کے بدلے گالیاں اور رات بھر کی بھوک سعید کی منتظر ہوتی۔ نبیل اور زبیر انگریزی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ایک رات استاد جی کی ہدایت پر زبیر ناچ ناچ کر صحن میں My Great Mother یاد کر رہا تھا۔ سعید ابھی تھک کر گھر لوٹا ہی تھا۔ اسے ماں کی ایسی یاد ستائی کہ بھاگتا ہوا قبرستان چلا گیا اور قبر پہ سر رکھ کر رونے لگا۔
رات گئے قبرستان میں اس کے رونے کی آواز بہت بھیانک لگ رہی تھی۔ آنسوئوں کا سیلاب تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔’’ کون رات کا سکون برباد کرتا ہے‘‘۔ قبروں کے درمیان بیٹھے ہوئے لوگوں میں ایک شخص اس کی طرف بڑھا۔’’ ارے ماں یاد آتی ہے چل ملوا دوں‘‘۔ وہ اسے گھسیٹتا ہوتا باقی لڑکوں کے پاس لے گیا‘‘۔ لونڈا بچوں کی طرح روتا ہے اوئے پپو، اس کو ایک سُٹَّا لگوا۔ جہاز کی طرح اڑتا ہوا ماں سے مل آئے گا‘‘۔ اور پپو نے زبردستی سگریٹ اس کے منھ سے لگا دیا۔ وہ ذرا ہچکچایا مگر دسورے نے تھپکی دی ’’اوئے لے پی لے سکون آجائے گا‘‘۔
دو دن بعد جب نشہ محو ہوا تو اسے گھر کا خیال آیا، مگر گھر کے دروازے تو ہمیشہ کے لئے اس پر بند ہوچکے تھے۔ رحمت چاچا نے اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔’’ کم بخت نشہ کرکے آیا ہے چل نکل جا‘‘۔ رحمت چاچا نے اس کے منھ پر تھپڑوں کی بارش کرتے ہوئے کہا ’’سارا محلہ باری باری آکر بتا کے گیا ہے۔ بے غیرت! باپ کی شرافت کی لاج رکھ لی ہوتی‘‘۔
’’یہ میرا گھر ہے‘‘۔ اس نے احتجاج کیا ’’کون سا گھر ؟ کیسا گھر؟ کاغذ ہیں تیرے پاس اس گھر کے، چل نکل! بڑا آیا دعویدار گھر کا، چھ سال میرے ٹکڑوں پہ پلا ہے اب گھر مانگتا ہے‘‘۔ اور پھر اسے قبرستان ہی کو اپنا گھر بنانا پڑا، جہاں وہ اور اس کے ساتھی رات بھر پیتے اور کئی کئی دن بیہوش پڑے رہتے۔ چند دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن اس نے پڑیا مانگی تو استاد نے پسلیوں میں ٹھوکر رسید کی۔’’چل اٹھ پہلے مال لے کے آ۔ باپ کی ہے جو روز مفت ملے گی‘‘۔ اور وہ گھسٹتا ہوا قبرستان سے باہر نکل آیا۔ سارا دن بھیک مانگتا رہا، مگر ایک پائی نہ ملی۔ نشے سے اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ مزدوری کی ہمت نہ تھی، آخر رات ہوگئی۔ اچانک اس کی نگاہ فٹ پاتھ پر بیٹھے اندھے بھکاری پر پڑی جو سامنے ہوٹل سے روٹی مانگ لایا تھا۔ روٹی دیکھ کر سعید کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔وہ تیزی سے جھپٹا اور روٹی اٹھاکر بھاگا۔ اسے بھکاری کی چیخ پکار کی پروا نہ تھی، جو رورو کر کہہ رہا تھا’’اے بابا! غریب بھکاری پررحم کر۔ سارا دن بعد اب روٹی نصیب ہوئی ہے۔ ارے غریب کی بددعا نہ لے‘‘۔
بھاگتے بھاگتے وہ ایک باغ میں پہنچا اور روٹی کھانے لگا۔ ابھی اس نے دو ہی لقمے لئے ہوں گے کہ اچانک اس کے جبڑے روٹی چبانا بھول گئے۔ ’’روٹی مل سکتی ہے تو مال کیوں نہیں۔‘‘ فرطِ جذبات میں اس کی آواز بلند ہوگئی، الٹے قدموں واپس ہوا۔ اس مرتبہ اینٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔ سڑک پر اکا دکا راہ گیر تھے۔ ہوٹل بھی بند ہوچکا تھا۔ وہ ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ سڑک خالی ہوئی تو اس نے بھکاری کے سر پر اینٹ ماری اور پیسوں کا تھیلا لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھکاری کی چیخیں سن کر ایک گاڑی رکی اور ایک آدمی نے تیز رفتاری سے باہر نکل کر اسے پکڑ لیا۔ ’’الو کے پٹھے! فقیر سے پیسے چھین کر بھاگتا ہے شرم نہیں آتی‘‘۔ وہ اس آدمی کے پیروں میں گرپڑا۔ ’’صاحب ! پُڑی چاہئے چھوڑ دو، ورنہ مرجائوں گا‘‘۔ آدمی کی آنکھوں میں چمک بھر آئی۔ ’’پُڑی چاہئے۔ چل میرے ساتھ روز ملے گی اور بالکل مفت‘‘۔ اور وہ اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ زندگی کی سب تکلیفیں ختم ہوگئی ہیں۔ روزانہ پیٹ بھر کر روٹی ملتی اور پڑیا بھی ، زندگی خوب مزے سے گزرنے لگی تھی۔
مگر ایک دن اچانک باس نے آنا چھوڑ دیا۔ دو دن گزر گئے۔ وہ پڑیا اور خوراک کے بغیرقریب المرگ تھا۔ تیسرے دن باس آیا اور کہنے لگا کہ آئندہ پڑیا چاہئے تو ایک کام کرنا ہوگا‘‘۔ اور اپنی جان بچانے کے عوض اس نے سیکڑوں جانوں کا سودا کرلیا۔ باس نے اسے اچھی طرح کام سمجھا دیا تھا۔ ٹھیک تین دن بعد وسیم نامی ایک آدمی آیا اور اسے ساتھ لے گیا۔ وسیم نے ایک تھیلا اس کے حوالے کردیا اور سعید نے شہر کے بہت بڑے پلازہ میں بڑی ہوشیاری سے تھیلا ایک چھپی ہوئی جگہ میں چھپا دیا اور خود اس جگہ سے دور چلا گیا۔ بمشکل ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ شہر میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ پلازہ میں بم دھماکا ہوا، لاشوں کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے پڑے تھے، خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، مگر سعید خوش تھا کہ اس نے اتنا اہم کام ، کامیابی سے مکمل کرلیاتھا۔ اگلے دن جب وہ رپورٹ دینے گیا تو آفس سیل تھا اور وہاں پولیس تعینات تھا۔ سعید گھبرا گیا، اچانک ایک بلڈنگ کے پیچھے سے وسیم نے اسے اشارہ کیا۔ وہ بھاگ کر وسیم کے پاس گیا ۔ وسیم نے بتایا کہ مخبری ہوگئی ہے۔ باس کو ملک سے بھاگنا پڑگیا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ اخبار میں مجرم کی فرضی تصویر شائع کردی گئی ہے۔ اس تصویر کا حلیہ سعید کے حلیے سے بہت ملتا جلتا تھا۔ وسیم نے اسے کپڑوںکا جوڑا دیا اور کہیں روپوش ہوجانے کا مشورہ دے کر غائب ہوگیا۔
سعید پر نئی مصیبت آپڑی تھی۔ وہ جرائم کے راستوں سے واقف نہیں تھا۔ وہ پولیس کے خوف سے ایک زیر تعمیر عمارت میں جاچھپا۔ چار دن تک نکلنے کی ہمت نہ پڑی۔ آخر بھوک نے بیتاب کردیا، وہ چھپتا چھپاتا وہاں سے باہر نکلا۔ روٹی کی تلاش میں شہر کی طرف چلا، جیب میں آخری سگریٹ نعمت لگی جسے پی کر وہ گاڑی کے پیچھے سو رہا تھا۔
اگلے دن اخباروں میں جلی حروف میں خبر چھپی تھی کہ پولیس نے قاتل کا سراغ لگایا۔‘‘ تفصیلات میں درج تھا کہ قاتل ایک گاڑی کے نیچے بوری میں سورہا تھا۔ صبح کار کے مالک نے مجرم کو پہچان کر پولیس کو اطلاع دی۔ مجرم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔ تاہم اس کے گروہ کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔ تلاشی کے دوران مجرم کی جیب سے انگریزی کی درسی کتاب کا ایک صفحہ “برآمد ہوا ہے۔ اس صفحے پر ایک نظم درج ہے جس کا عنوان ہے: “My Great Mother”!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146