زندگی سے لطف اندوز ہونے کا بڑا گہرا تعلق ہماری جسمانی حالت اور ذہن میں پیدا ہونے والے افکار و خیالات سے ہے۔ مسرت کے جذبات پیدا ہونے کے لیے مناسب ورزش اور مناسب آرام یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہیں، مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹری ہنری لنگ کسی افسردہ خاطر مریض کا معائنہ اس وقت تک نہیں کرتے تھے، جب تک اسے تھوڑی دور دوڑا نہ لیں۔ ڈاکٹر لنگ کہا کرتے تھے:
’’ اس سے دماغ کے حرکی مرکزوں کی کسرت ہوجاتی ہے اور خون جذباتی مرکزوں سے ہٹ جاتا ہے، جب دوڑ کر یا تیز تیز چل کر واپس آؤ گے تو تم اثباتی خیالات کے لیے زیادہ تاثر پذیر ہوجاؤ گے۔‘‘
زندگی سے لطف اندوز ہونے کے دو اہم گرہیں پہلا یہ ہے کہ جسم ٹھیک حالت میں رہے اور دوسرا یہ ہے کہ انسان ٹھیک طریقہ پر سوچے۔ اثباتی انداز میں سوچ بچار کرنے والا خود کو خوش رکھنا سیکھ لیتا ہے۔ اور وہ زندگی سے خوشی حاصل کرتا ہے۔ میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں: ’’روز صبح کو میں یہ توقع لے کر اٹھتا ہوں کہ آج کوئی خوش گوار بات ظہور میں آئے گی اور بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ میری توقع غلط ہوجائے۔‘‘
جو لوگ خوشی کے منتظر رہتے ہیں اور زندگی سے خوشگوار توقعات قائم کرتے ہیں، وہ خوش رہتے ہیں۔ ایک رومن فلسفی کا قول ہے:
’’وہ شخص خوش نہیں رہ سکتا، جو خوشی کی توقع نہیں رکھتا۔‘‘
اگر دل نفرت یا خود غرضی سے بھرا ہو تو اس میں سے خوشی کی روشنی پھوٹ کر نہیں نکل سکتی،گناہوں اور غلطیوں سے بچنا بہت ہی ضروری ہے اور جو گناہ سرزدہوچکے ہیں، استغفار کے ذریعہ انھیں ختم کرنے کی کوشش کرو۔
مشہور فلسفی ایلبرٹ ہوبارڈ کا قول ہے: ’’صبح کو دس بجے تک مگن اور دل شاد رہو، پھر دن کا باقی حصہ خود ہی اپنی خبرگیری کرلے گا۔‘‘ ہنری ڈیوڈ تھورو صبح کو سب سے پہلے خود کو کوئی خوشی کی خبر سنایا کرتا تھا۔ اس کا وہ کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتا تھا۔ وہ خود سے کہتا: میرا دنیا میں پیدا ہونا ہی کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے۔ اگر میں پیدا نہ ہوتا تو ستاروں کی روشنی کیوں کر دیکھتا۔‘‘ اور پھر بارگاہِ الٰہی میں ادائے شکر کے بعد وہ ہر روز اپنا کا م شروع کرتا۔
دوسروں کو کچھ دینا بھی حصولِ مسرت کا ایک طریقہ ہے۔ روپیہ، وقت، نصیحت اور تسلی۔ کوئی چیز جو تم اپنے پاس سے دوسروں تک ان کی مدد کرنے کے لیے پہنچاؤ، ان کو کچھ دینا ہے۔
مجھے ایک نوجوان تاجر کا واقعہ یاد آیا، یہ تاجر بڑا حوصلہ مند اور جاہ طلب تھا۔ اپنے کاروبار میں وہ انتہائی شغف کے ساتھ مصروف رہا۔ ایک منٹ کے لیے بھی کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کھنچاؤ، تناؤ، اضطراب اور پریشانی کی علامتیں رونما ہونے لگیں۔ مسابقہ اور مقابلہ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ وہ گامزن تھا، اسے وہ قائم نہ رکھ سکا۔ وہ میرے پاس مشورے کے لیے آیا اور کہنے لگا: ’’مجھے یہ بتائیے کہ میں اب کیوں زندگی سے پہلے کی طرح خوشی اور مسرت حاصل نہیں کرسکتا؟‘‘
ہم نے ان اسباب کا جائزہ لیا، جن سے مسرت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کتنے ایسے کاموں میں حصہ لیتا ہے، جن سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا؟ آخر میں نے ایک نتیجہ پر پہنچ کر اس سے کہا :’’تم سوائے اپنے گھر والوں کے کبھی کسی کو کچھ نہیں دیتے۔‘‘ اور اس نے اس کا اعتراف کیا۔
جس گرجا میں وہ جاتا تھا، اس کے لیے بھی وہ برائے نام ہی چندہ دیتا تھا۔ جہاں تک وقت، توجہ اور ہم دردی کا سوال ہے، ان میں سے کوئی چیز وہ کسی کو نہیں دیتا تھا۔ میں نے اس سے کہا ’’اگر تم زندگی سے خوشی اور مسرت حاصل نہیں کرسکتے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ تمہارے پست اور افسردہ رہنے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہر چیز تمہارے اندر داخل ہوتی چلی جارہی ہے اور کوئی چیز باہر نہیں آتی، تم بحرِ لوط کی طرح ہو، جس میں پانی داخل ہونے کے راستے تو ہیں، مگر نکاسی کے نہیں۔ اسی کا نتیجہ ذہنی اور روحانی جمود اور بے حرکتی ہے۔‘‘
اس کے لیے ذیل کا منصوبہ بنایا گیا:
پہلی بات یہ کہ گرجا گھر کو خدا کے کاموں کے لیے وہ اپنی آمدنی کا دس فیصدی حصہ دے۔
وہ اپنے گھر بار اور دوستوں کے حلقہ سے باہر ایسے لوگوں کو تلاش کرے، جو مدد کے مستحق ہوں۔ یہ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو اس مدد کے بدلے میں خود کبھی اس کی کوئی مدد نہ کرسکیں۔ مدد کی صورت کوئی بھی ہوسکتی ہے، روپیہ یا نصیحت یا ہمدردی یا محض دلچسپی۔
جو لوگ اس کے ساتھ کام کرتے ہیں ، یا جن سے اس کی ملاقات ہوتی ہے، ان سے اس کا تعلق محض کاروباری نہ ہونا چاہیے، بلکہ ان کے ساتھ انسانیت کا رشتہ قائم ہونا چاہیے۔ کارخانے کے پاس کھڑا ہوا پولس کا سپاہی ہے، اخبار فروش لڑکا ہے، چپراسی ہیں، مزدور ہیں، اسے ان سب کے قریب ہوجانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بیماروں اور معذوروں کی مدد اسے بھی اپنے اوپر لازم کرلینی چاہیے۔
وہ منصوبہ کا خاکہ سن کر بولا:’’مگر میں یہ تمام خدمتیں انجام دینے کے لیے وقت کہاں سے لاؤں گا۔‘‘
میں نے جواب دیا، ٹھیک ہے، ان سب کا موں میں وقت ضرور صرف ہوگا، مگر یہ وقت کا سب سے بہتر مصرف ہوگا۔ تمہیں صرف روپیہ اور ہمدردی اور مشورہ ہی نہیں دینا ہے۔ بلکہ دوسروں کی نفع رسانی کے لیے اپنا وقت بھی صرف کرنا ہے۔‘‘
اس نے اس منصوبہ پر عمل کیا۔ وہ اپنے پڑوس، اپنے ساتھ کام کرنے والوں، گرجا گھر اور مختلف سوسائٹیوں میں بہت ہردلعزیز ہوگیا۔ اور اسے اپنی کھوئی ہوئی مسرت پھر ہاتھ آگئی اور اس کی زندگی بہت خوش گوار اور ہلکی پھلکی ہوگئی۔
زندگی کو خوش گوار بنانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ تمہیں اپنے اوپر اعتماد ہو کہ تم روز مرہ زندگی کی اذیتوں، مصیبتوں اور ہمت شکن حالات کا مقابلہ کرسکتے ہو اور ان پر غالب آسکتے ہو۔
ایک مرتبہ سفر کرتے ہوئے ایک شخص نے مجھ سے کہا:
’’میں دنیا کا بدترین اور خود شکستہ انسان ہوں اپنی ناکاموں کے لیے میں نے سب ہی کو دوش دیا، مگر سچ یہ ہے کہ میرا سب سے بڑا دشمن خود ’’میں‘‘ تھا۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی مصیبتوں اور ناکامیوں کی داستان سنائی جو بہت دردناک تھی۔ بس اگر تم خوش رہنا چاہتے ہو، اپنی ذات سے نکل کر باہر آؤ۔ ہر شخص کے متعلق اچھے خیالات اپنے دل میں رکھو، اپنا کچھ حصہ دوسروں کو دو، دوسروں کی مدد کرو، ہمیشہ خود پر امید رہو، اور اثباتی خیالات پیدا کرنے کی مشق کرو۔
اس وقت جدید طب کی سب سے اہم دریافت شفا بخشی کے لیے مریض کے اثباتی خیالات ہیں۔ ایسی چیز پر جو مغربی طب نے آج دریافت کی ہے اور جس پر وہ بہت زور دے رہی ہے۔ اللہ کے رسول نے بہت پہلے ان کی طرف رہنمائی فرمائی تھی مگر ہم نے اسے فراموش کردیا اور اب مختلف قسم کے نفسیاتی امراض میں گرفتار ہوگئے۔ دوسروں کے لیے جذبہ ہمدردی اور ان کی خدمت، حسن ظن اور اللہ سے خیر کی امید وہ چیزیں ہیں جو مردہ انسانوں میں زندگی کی لہر دوڑا سکتی ہیں مگریہ کام آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ضبط اور تربیت نفس درکار ہے۔ لیکن ایک بار جب اس راستے پر چلنا آجائے گا، تو پھر کوئی مشکل نہ ہوگی اور زندگی سے خوشی حاصل کرنے کا گُر آجائے گا۔
(ماخوذ)