اب میں ہوں اور ماتم یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
اس دن وہ بڑا بے چین رہا۔ شام ڈھلے واپس آیا۔ نہ اس نے چائے مانگی نہ کھانا۔ نہ بتی جلانے دی۔ بس برآمدے میں رکھی کینوس کی کرسی پر نیم دراز پڑا باہر خلا میں گھورتا رہا۔ آسمان کے سیاہ آنچل پر ستاروں کی روشنی چمک رہی تھی۔ جھاڑیوں میں اکا دکا جگنو چنگاریوں کی طرح اڑتے پھر رہے تھے۔ جنگلی پھولوں کی مہک اور گھاس کی خوشبو اس کے نتھنوں میں نشے کی طرح اتر رہی تھی۔ ماضی نے کسی اکٹوپس کی طرح اسے اپنے لا تعداد بازوؤں میں جکڑلیا تھا اور وہ اس کے چنگل سے خود کو آزاد کرانے میں ناکام ہوتا جارہا تھا۔ جب تک اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا، سب کچھ ٹھیک تھا۔ مگر اب تو یوں لگتا تھا جیسے کسی نے پزل کے ٹکڑے بکھیر دئے ہوں اور تصویر کسی صورت بن نہ پارہی ہو۔ حال اپنے معنی کھورہا تھا، دھندلارہا تھا، ماضی اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ واضح اور اس پر حاوی ہوتا جارہا تھا اور اس کی زندگی کا فلیش بیک چل رہا تھا۔
ماہ گل دبے قدموں سے آکر حسب معمول ستون سے ٹک کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے ماہ گل کو دیکھا۔ لگتا تھاایک ستارہ زمین میں اتر آیا ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود اس کے اندر ایک گہری طمانیت تھی، کوئی الجھن کوئی کشمکش نہیں تھی۔ اسے اپنا جادہ اپنی منزل معلوم تھی۔ مگر مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کون ہوں۔ میری اصلیت، میری حقیقت کیا ہے۔ مجھے کیاہونا چاہیے۔ میری جڑیں کہاں ہیں، دفعتاً اپنے بیگانے کیوں لگنے لگے ہیں۔ زندگی سے لگاؤ کیوں ختم ہوتا جارہا ہے۔
ماہ گل نیچے بیٹھ گئی، ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’بظاہر تو ٹھیک ہی ہوں۔‘‘
’’کچھ کھائیں گے نہیں۔ آج میں نے افغانی پلاؤ اور سیخ کباب بنائے ہیں۔ ساشا تو پلاؤ کی مہک سے ہی مدہوش ہورہا ہے کہہ رہا تھا کہ اتنااچھا پلاؤ بنانے والوں کو زندہ رہنا چاہیے۔‘‘
’’بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’چکھ کر تو دیکھیں‘‘ ماہ گل نے اصرار کیا۔
’’چلو تم کہتی ہو تو چکھ لیتے ہیں۔ منگواؤ‘‘
گرم مصالحے کی خوشبو سے پورا برآمدہ مہک اٹھا۔ ساشا خوشی خوشی کھانا لگانے لگا۔ اپنے مالک کی اس کیفیت پر وہ بھی متفکر تھا۔ ایک طباق میں تیلیوں میں لگے کباب بھی رکھے ہوئے تھے۔
’’یہ کھانا اور خوشبو بھی جانی پہچانی سی لگ رہی ہے۔ شاید کبھی ہمارے گھر میں بھی ایسے چاول پکے ہوں۔ کہیں تم میں بھی تو ترکی خون کی آمیزش نہیں؟‘‘
’’میری ماں ازبک ہیں اور والد افغانی۔ مسلمان ہمیشہ ہی مختلف نسلوں اور قوموں کا مرکب ہوتے ہیں۔ کلمہ پڑھتے ہی ایک ایسے منفرد رشتے میں بندھ جاتے ہیں جہاں رنگ، نسل اور قوم ہر چیز ثانوی ہوجاتی ہے۔‘‘
’’میرے دادا نے انقلاب کا ساتھ دیا۔ والد پارٹی کے رکن بھی بنے اس کے باوجود انھوں نے ان کو پاسپورٹ نہیں دیا۔ گھر سے بے گھر کردیا۔‘‘وہ جیسے خود سے باتیں کررہا تھا۔ ’’تاتاری تو بڑے خوش باش بڑے نرم دل اور ہنس مکھ لوگ تھے۔ ان کے مضبوط جسموں کے اندر معصوم بچوں جیسے دل تھے۔ آپس میں بڑے اتفاق اور اتحاد سے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے بڑے صاف ستھرے ہوتے تھے۔ محنت کرکے روزی کماتے تھے۔ انھیں کیو ںسائبیریا کے برفیلے جہنم میں بھیجا گیا۔ وہ روسیوں کی طرح سنگ دل اور اذیت پسند تو نہیں تھے۔ روسی تو ہمیشہ دوسروں کے دکھ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچوکے دے کر لذت حاصل کرتے ہیں۔ دوسروں کی ذلت اور تحقیر پر خوش ہوتے ہیں۔‘‘
اس نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کھانے سے ہاتھ روک لیا۔ بے شمار سوال نوکیلے کانٹوں کی طرح اس کے ذہن میں اُگ آئے تھے جو اسے پیہم خلش میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔
’’آپ کو اپنی والدہ کتنی یاد ہیں۔‘‘
’’بے شمار تصویریں میرے دل کے البم میں روشن ہوگئی ہیں۔ دریائے کاما میں کشتیوں پر سے بوجھ اتارتی اور ڈھوتی ہوئی، وزن سے دوہرا ہوتا ہوا بدن، چاند سی پیشانی پر ابھرتی ہوئی نیلی رگ، گھاس کے جوتوں میں سردی سے ٹھٹھری اور سوجی ہوئی سرخ انگلیوں والے پاؤں، ماتھے پر بندھی ہوئی سیاہ پٹی، پیوند لگی چادر سے ڈھکا ہوا بدن، سورج مکھی کے بیچوں سے بھری بوریاں اور پھر انھیں کشتیوں پر زرد چہروں اور منڈے ہوئے سر والے قیدی جن کے ہاتھ پاؤں لوہے کی زنجیروں سے جکڑے ہوتے تھے۔ انھیں بذریعہ کشتی اس اسٹیشن تک پہنچایا جاتا تھا جہاں سے ٹرینیں انھیں سائبیریا کی طرف لے جاتی تھیں۔ اسی طرح ایک دن میری ماں بھی چلی گئی جو اتنی محنت اس لیے کرتی تھی کہ میرے لیے رائی کی روٹی، پنیر کا ٹکڑا اور کواس کا ایک گلاس مہیا کرسکے۔ تنہائی میں مجھے اپنے سینے سے لگا کر روتی تھی، کاش میرے پر ہوتے تو میں تجھ کو ان پر بٹھا کر دور بہت دور ایسی جگہ لے جاتی جہاں نہ یہ آزردہ زندگی ہوتی، نہ خون جمادینے والی سردی اور برفیلی ہوائیں ہوتیں اور نہ یہ ظلم و جبر ہوتا۔ جہاں ہر راستہ سیدھا ہوتا، جہاں ہم اپنے مالک کو آزادی سے یاد کرسکتے۔ اور بھی بہت سی باتیں کرتی جو میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ مگر اسے روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگتا تھا۔‘‘ کرنل چپ ہوگیا۔ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر خود کلامی کے انداز میں گویا ہوا۔ ’’وہ شاید موسم بہار ہی تو تھا جب اس کے لوگوں کوڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ وولگا پگھل رہی تھی، اس کا پانی کناروں سے باہر چھلک آیا تھا۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی بہار کا موسم بہت مختصر ہوتا ہے۔ ہم گھنے جنگلوں میں نکل جاتے تھے۔ یہ جنگلات وولگا کے کنارے سے شروع ہوکر یورال کے پہاڑوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ ہم لوگ مشروم جمع کرتے جنھیں وہ سکھالیتی تھی۔ وہاں سے وہ جڑی بوٹیاں جمع کرتی، اخروٹ چنتی، کسی نالے کے کنارے بیٹھ کر منھ ہاتھ دھوتی اور عبادت کرنے لگتی۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس دن تم کررہی تھیں مگر اس کے اللہ نے اس کی کوئی پکار نہیں سنی، نہ جانے کیوں۔ میں برچ کے درخت تلے اس کی چادر کا تکیہ بناکر لیٹ جاتا۔ طرح طرح کے پرندوں کو اڑتے چہکتے دیکھتا رہتا۔ قن، کر اس بل اور چھوٹی چھوٹی گیت گاتی چڑیاں شاخوں پر پھدکتی پھرتیں۔ جنگل کی سائیں سائیس لوری بن جاتی۔ درختوں پر سے پانی کی ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں میرے چہرے پر گرتی رہتیں۔ کبھی میں اپنی ماں کو دیکھتا۔ وہ جب اپنے اللہ کو یاد کرتی تھی تو اس کے چہرے پر ایک طمانیت سی پھیل جاتی۔ اس کی آنکھوں پر سے دکھوں کا پردہ ہٹ جاتا اور وہ پہاڑوں کی گود میں سوئی ہوئی شفاف سبز جھیلوں کی طرح لگنے لگتیں جن کو دنیا کی کسی آلائش نے نہ چھوا ہو۔ اگر وہ مذہب کی افیم کی پینک میں اپنے دکھ درد بھول جاتی تھی اور مسرت کی چند گھڑیاں اسے مل جاتی تھیں تو کسی کا کیا بگڑتا تھا۔ اس کو اتنی کڑی سزا کیوں دی گئی۔ وہ کمزور سی عورت کسی کا کیا بگاڑ سکتی تھی۔ اس کے اللہ نے بھی اس کو وفاؤں کا صلہ نہ دیا۔ ایسا کیوں ہوا۔‘‘
کرنل کے اندر ایک جوار بھاٹا اٹھ رہا تھا۔ ایک الاؤ پک رہا تھا۔ ماہ گل کا دل بھی سسکیاں بھرنے لگا۔ اس کی ماں پر گزرنے والی ساری کیفیات وہ خود محسوس کررہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا اس کا رب اس کی بھی پکار نہیں سنے گا۔ یہاں بھی تو بے شمار افغان مائیں سر بسجدہ ہیں اور دامن پھیلائے اسے پکار رہی ہیں۔
وہ بے قرار سا ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔ برآمدے سے اتر کر وہیں ٹہلنے لگا۔ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے سامنے والی جیبوں میں اٹکائے سرجھکائے!
’’یہ تطہیر کا عمل، جلاوطنی، تشدد اور سائبیریا بھجوانا سب بلا جواز تھا۔‘‘ ماہ گل نے یقین سے کہا۔
وہ رک گیا۔
’’اب سوچتا ہوں تو بلا جواز ہی لگتا ہے۔ مگر یہ سب تو میری پیدائش سے بھی پہلے سے ہوتا چلا آرہا تھا۔ خود اپنے لوگوں کو بھی انھوں نے نہیں بخشا۔ دانشور، ادیب، شاعر، سائنسداں، ڈاکٹر، ان سب پر مقدمے چلائے گئے اور ان کو بغاوت اور سازش کے الزام میں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ بیریا نے لاکھوں روسیوں کو جبری مشقت کی چکی میں پیس ڈالا میں سوچتا تھا کہ ضرور ہر عمل کا کوئی جواز ہوگا۔ ویسے بھی میں فوجی ہوں اور فوجیوں کا کام سوچنا نہیں حکم ماننا ہے۔‘‘
وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گیا۔ بالکل ماہ گل کے سامنے آن کھڑا ہو۔
’’تمہیں شاید معلوم نہیں کہ کوسک بڑے اچھے شہسوار اور غضب کے رقاص ہوتے ہیں۔ میرے والد نے مجھے بھی ناچنا سکھایا تھا۔ ہمارے علاقے میں فوجی بیرکس تھی۔ میں شام کو وہاں چلا جاتا تھا۔ کوئی سپاہی کاڈین بچاتا اور میں ناچتا۔ وہ سب بڑے خوش ہوتے اور مجھے چند کوپکس دے دیتے۔ ٹیپ ڈانس میں مجھے خاص مہارت تھی۔ میری ماں مجھے کدو اور پیٹھے کے بیج بھون کر دیتی۔ وہ بھی میں ان کے ہاتھ فروخت کردیا کرتا تھا۔ ایک افسر مجھ سے خاص طور پر بہت پیار کرتا، اس کا میری عمر کا اکلاتا بیٹا بلڈ کینسر سے مرگیا تھا۔ اسے یاد کرکے وہ اکثر رویا کرتا۔ ماں کی روانگی کے بعد میں کئی روز وہاں نہ گیا اور جب گیا تو میں نے ناچنے سے انکار کردیا میرا منا سا دل کرچی کرچی ہورہا تھا۔ سب نے کہا اچھا ہواخس کم جہاں پاک۔ مگر اس افسر نے میرے آنسو پونچھے، سینے سے لگایا، تسلی دی اور ایک دن پھر ٹرک آئے اور بہت سے لوگوں کو پکڑ کر لے گئے اس بات ان میں میرا باپ بھی تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ مجھے جب پتہ چلا تو میں یوں خوف زدہ ہوگیا جیسے کتے کا منا سا پلا ہو جس کے پیچھے گلی کے چھوکرے تنگ کرنے کو لگ جاتے ہیں اور وہ تنہا ڈرا سہما سا اپنی دم ٹانگوں میں دبائے کسی پناہ گاہ کی تلاش میں مارا مارا پھرتاہے۔ میں اسی طرح خوف زدہ سکستا اور ہوا اسی افسر کے پاس چلا گیا۔‘‘
کرنل نے برآمدے کی میز پر سے سگار اٹھاکر سلگایا۔ فضا میں سگار کی مہک پھیل گئی۔
’’پھر کیا ہوا۔‘‘ ماہ گل نے پوچھا۔ اس کے لہجے میں اضطراب تھا۔
’’پھر کیا ہونا تھا۔‘‘ وہ ہولے سے ہنسا۔ ’’میں تو دراصل ایک رقاص بننا چاہتا تھا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے بیلے کا ایک رکن، مگر تقدیر نے مجھے سپاہی بنادیا۔ میرے اندر کا فنکار بے حس آہن پوش انسان بن گیا۔ اس افسر نے مجھے اپنا بیٹا بنالیا۔ میری تعلیم و تربیت کی اور مجھے سچا اور کھرا سوشلسٹ بنادیا۔ میری ایسی برین واشنگ کی کہ میں اپنے والدین کو انقلاب کا دشمن سمجھنے لگا۔‘‘
’’آپ اپنے والد سے نہیں ملے؟‘‘
’’وہ تو ظاہر ہے کہ اپنا علاقہ نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اجازت حاصل کرنا جوئے شیر لانا تھا۔ انھوں نے اپنے ایک دوست کے ہاتھ کہہ بھیجا کہ میں ان سے ملنے کی کوشش نہ کروں کہیں ان کی ’’نحوست‘‘ کا سایا مجھ پر بھی نہ پڑجائے اور میری کامیاب زندگی تباہ نہ ہوجائے۔ میں بھی مشکوک نہ سمجھا جانے لگوں۔‘‘
’’آپ بھی ظاہر ہے کہ ایک انقلاب دشمن سے کیوں ملتے؟ کمیونسٹوں کے نزدیک رشتوں کی کیا اہمیت ہے۔‘‘
’’ظاہرہے کاز کے ساتھ جو بھی غداری کرے وہ غدار ہوتا ہے۔ خواہ وہ اپنا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر تمہیں پتہ چلے کہ تمہارے والد یا بھائی ہمارے ساتھ مل گئے ہیں تو تمہارا ری ایکشن کیا ہوگا؟‘‘
’’ظاہر ہے کہ میرا بھی وہی ری ایکشن ہوگا جو آپ کا ہوا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اللہ کے غلام ہیں، جو ساری کائنات کا مالک ہے، ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ اس کا قانون اٹل اور اٹوٹ ہے۔ انسانوں اور ازموں کی غلامی سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر آج سٹالین خدا ہے تو کل وہ راندہ درگارہ قرار پائے گا۔ کیونکہ اس کی جگہ دوسرا خدا خروشچیف لے لے گا۔ وہ گیا تو اس کے ماتھے پر بھی ذلت کا داغ لگ گیا۔ کوئی اور خدا بن گیا۔یہی حال انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کا بھی ہے، وہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج جو صحیح ہے نہ جانے کب غلط سمجھا جانے لگے۔ ہم جس قانون کو مان رہے ہیں وہ چودہ سو سال سے اسی طرح ہے۔ ہم کہیں پیدا ہوں، ہماری زبان ایک نہ ہو، شکل ایک نہ ہو، زمانہ ایک نہ ہو، نسل قوم اور ملک بے شک مختلف ہوں مگر ہمارا دل ایک ہی کلمہ کی صدا پر دھڑکتا ہے، ہم اپنا سر ایک ہی ہستی کے سامنے جھکاتے ہیں، خواہ وہ آپ کی ماں ہوں یا میں۔‘‘
چاروں طرف سناٹا تھا، اتنی خاموشی تھی کہ شاید وہ ایک دوسرے کی سانسوں کی آواز بھی سن سکتے تھے۔
’’رات بہت بیت گئی ہے۔ جاؤ سوجاؤ۔‘‘ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔