چلچلاتی دھوپ، آگ برساتا آسمان، سوکھی پیاسی زمین، شہر کی ایک پاش مسلم کالونی پانی کی شدید قلت سے متاثر تھی۔ پانی جو کبھی ایک بے قیمت سی چیز تھا آج نہایت بیش بہا شے بن چکا تھا۔ خدا نے انھیں عجیب مجبوری و بے بسی سے دوچار کیا۔ جہاں بڑی سے بڑی لایعنی ضرورتوں کی تکمیل انتہائی آسانی سے ہوجایا کرتی تھی۔ وہاں اب پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے ترسنا پڑرہا ہے۔ مال و دولت کی افراط نے ہر جائز و ناجائز اور مناسب و غیر مناسب ضرورت کی تکمیل کی اور ناختم ہونے والی خواہشات نے ناجائز مال کمانا سکھایا۔ عیش و طرب میں گزرنے والی ان زندگیوں کو پانی کی قلت نے چونکا دیا۔
نتیجہ جھنجھلاہٹ ، پریشانی، بے چینی۔
کسی نے مشورہ دیا کہ قریب کے محلے سے پانی منگوالیں۔ لیکن کیسے؟ وہاں تو غریب اور جاہل لوگ بستے ہیں، غیر مہذب اور غیر معیاری لوگ۔ ان سے بھلا ہم کیوں پانی طلب کریں؟ ضرورت شدید تھی مگر اس انا کا کیا کریں جو ان سے بات کرتے وقت آڑے آتی تھی۔ اس غرور کو کہاں لے جائیں جو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ مزاج شاہی سے چمٹے ہوئے کبرو غرور نے غریب لوگوں سے پانی مانگنا گوارا نہ کیا۔
بہرحال، کچھ لوگ کی تگ و دو، کچھ پیسے کی کرامت اور کچھ سیاسی اثرو رسوخ کے استعمال سے ایک ٹینکر پانی دستیاب ہوا۔ پانی کی جانب لوگوں کا ایک ریلا دوڑ پڑا۔ ایک ٹینکر اور درجنوں ضرورت مند۔ ضرورت مند بھی ایسے جنھوں نے تھوڑے پر گزارا کرنا کبھی سیکھا ہی نہ تھا۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹنا جن کی عادت ہے۔ بینک بیلنس بڑھانا جن کا مطمح نظر، ایک کا دوگنا اور دوگنا کا تین گنا کرنا جن کا مقصد زندگی، وہ کیسے بھلا تھوڑے پر اکتفا کریں گے۔ نتیجہ مزاج میں رچی بسی خود غرضی امڈ آئی۔ ہر کوئی ٹینکر منگانے کا سہرا اپنے سر لینا چاہتا تھا اور جملہ پانی کا واحد حقدار اپنے آپ کو جتانے کی کوشش میں لگا تھا۔
گالی گلوچ، مارپیٹ، لڑائی جھگڑا، شور و ہنگامہ …… اوڑھے گئے تہذیب و تمدن کے سارے لبادے تار تار ہونے لگے، شاندار بنگلوں اور خوبصورت لباسوں میں چھپی جہالت باہر آگئی۔ شہر کے مہذب کہلائے جانے والے لوگ ذلیل ترین حرکات پر اتر آئے۔ اسلاف کے ایثار و قربانی کے سارے واقعات تاریخ کے اوراق میں دھول چاٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اخوت و محبت کے سارے احکامات ذہنوں سے اوجھل ہوگئے۔ جب قلب ایمان و یقین سے خالی ہوجائیںاور ان کی جگہ حرص و طمع لے لے تو ایسی ہی حرکات سرزد ہوتی ہیں۔ہنگامہ کے دوران کسی نے ہانک لگائی کہ ’’اب پولیس کو بلاکر ہی سب کو سیدھا کروں گا۔‘‘ لیکن ایک اور بوکھلائی ہوئی آواز بلند ہوئی ’’ارے ٹینکر کی ٹونٹی تو بند کرو سب پانی بہ جائے گا۔ ‘‘
زیادہ کی ہوس اور لڑائی جھگڑے نے سب کو غافل کردیا اور کسی کو اس کا دھیان نہ رہا کہ نل کو کم از کم بند ہی کردیں، غصہ اور جہالت کا پردہ آنکھوں پر پڑگیا اور ضائع ہوتی ہوئی بیش بہا نعمت کو نہ دیکھ سکے۔ خدا نے ان کی اس غفلت کو خود رو پودوں کے لیے نعمت بنادیا۔ سوکھی زمین اور پیاسے پودے خوب سیراب ہوئے۔ ہجوم کی نظریں ٹینکر کے نل سے قطرہ قطرہ ٹپکتے پانی اور خالی گھڑوں سے ٹکراتی ہوئی واپس لوٹ آئیں،ہر کوئی خاموش تھا؟
غصہ جہالت سے شروع اور ندامت پر ختم ہوا۔
اب ایک چھوٹا معصوم بچہ پیٹھ پر بستہ اور ہاتھ میں واٹر بیگ لیے اسکول جارہا ہے، جاتے جاتے وہ اس خاموش ہجوم اور ان کے خالی گھڑوں اور ٹینکر کو دیکھ کر رک جاتا ہے۔ ایک شخص کے قریب جاکر پوچھتا ہے ’’انکل انکل پانی چاہیے۔‘‘ اور جواب کا انتظار کیے بغیر اپنے واٹر بیگ کا ڈھکن کھول کر سارا پانی ایک گھڑے میں انڈیل دیتا ہے اور خالی واٹر بیگ کو ڈھکن لگاکر بے نیازی سے اسکول کی جانب چل پڑتا ہے۔ بیچارا نادان معصوم بچہ کیسے جانے کے ان دولت کے پجاریوں کی حرص کو ایک ٹینکر پانی مطمئن نہ کرسکا تو ایک واٹر بیگ پانی کیا کرے گا۔ لیکن وہ اپنی اس معصوم حرکت سے پوری انسانیت کو زبردست پیغام دے گیا۔ وما یذکروا الا اولو الالباب۔ (نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔)