بچے کی پرورش کے دوران والدین کو بہت سی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور کئی ایک کاموں کو اختیار کرنے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ لیکن اکثر والدین ان چیزوں اور ان باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے۔ مثلاً بچے کے بعض مطالبات تسلیم کرنے میں بچے کا نقصان ہوتا ہے لیکن وہ مطالبات تسلیم کرلیے جاتے ہیں اور جو مطالبات ماننے کے قابل ہوتے ہیں ان کے حوالے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ والدین کی یہ روش بہت خطرناک ہوتی ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے حوالے سے مختلف اصولوںکے مالک ہوتے ہیں لیکن کچھ اصول ایسے ہیں جو یکساں طور پر ہر گھرانے میں اور ہر قسم کے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
۱- آپ اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت تلخ یا تیز لہجہ استعمال نہ کریں۔ چاہے جس قدر بھی آپ پریشان اور مضطرب ہوں آپ کی گفتگو سے پریشانی اور اضطراب نہیں جھلکنا چاہیے۔ آپ کے لہجے میں مٹھاس ہو، پریشانی اور اضطراب کو مخفی رکھیں۔ بچے کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کے انداز گفتگو اور زور کلام سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ آپ اسے کیا کہنا چاہتے ہیں یا آپ اس سے کیا چاہتے ہیں؟ آپ کی آواز میں ہلکی پھلکی اونچ نیچ آجائے تو قابل برداشت ہے لیکن اگر آواز میں تیزی اور تلخی غیر فطری طور پر بڑھ جائے تو اس سے بچہ خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ بچے اور آپ کے درمیان قربت اور انسیت میں کمی واقع ہوجائے گی۔ آپ بچے سے قربت والا تعلق گنوادیں گے۔ یوں وہ آپ کی عزت، آپ کا احترام اور آپ کی خواہشات کی تکمیل خوف اور ڈر سے کرے گا، اس میں انسیت اور محبت کا کوئی حصہ شاید شامل نہ رہے۔ جب والدین بچوں کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرتے ہیں، اس وقت بچہ خود کو بہت محفوظ اور مطمئن تصور کرتا ہے۔ جبکہ سخت گیر والدین جلد ہی اپنے اور بچے کے درمیان ایسے حالات پیدا کرلیتے ہیں کہ بچے پر والدین کی گفتگو اور بات چیت اپنا اثر کھودیتی ہے۔
۲- آپ اپنے بچے سے جھوٹے وعدے نہ کریں۔ سچ اور ایمانداری ایک ایسی صفت ہے جس کی طرف بچہ فطری طور پر میلان رکھتا ہے۔ اگر آپ بچے کو دھوکہ دیں گے تو وہ سکون سے محروم ہوجائے گا۔ یوں اگر اس کے دل میں ایمانداری کو ضرب لگے گی تو آپ کا احترام اٹھ جائے گا بلکہ آپ کے لیے بے ادبی کے بیج بکھر جائیں گے۔ اس لیے اگر آپ اپنے بچے کے ساتھ سیر کا پروگرام بنائیں تو پروگرام کو خواہ مخواہ منسوخ نہ کریں بلکہ اپنے وعدے پر عمل کریں۔ کیونکہ بچے کو کوئی بھی چیز اتنا پریشان نہیں کرتی جس قدر وعدہ شکنی۔
۳- آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے بڑے اور چھوٹے بچوں کے درمیان غیر ضروری فرق نہ کیا کریں۔ بچوں کو ایک دوسرے پر طنز اور ایسے تبصرے کرنے سے منع کریں جو اس کی خودداری کو نقصان پہنچائیں۔
۴- چوتھی ضروری بات یہ ہے کہ اجنبیوں اور غیروں کے سامنے بچے میں نقص نہ نکالیں۔ یہاں بھی آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کو کوئی بھی چیز غیر اہم ہونے کا اتنا احساس نہیں دیتی جتنا دوسروں کے سامنے اسے غلط ثابت کرنا، یا رسوا کرنا اس کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
۵- پانچویں بات، جس کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ اسکول جاتے وقت بچے کو زیادہ رقم دے کر تباہ نہ کریں۔ آپ کبھی کبھار اس کو ضرورت سے کچھ زائد رقم دے سکتے ہیں لیکن اس کو روز مرہ کا معمول نہ بنائیے۔ اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ اسکول میں اچھی کارکردگی دکھائے، گھر کے اندر اپنے کاموں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اسے انعام کی صورت میں خوش کیا جاسکتا ہے۔
۶- بچے پر کبھی بھی جسمانی تشدد نہ کریں۔ بہت ساری مائیں غصے میں اس اصول کی پاسداری نہیں کرتیں۔ ایسی ماؤں کا تعلق صرف جاہل طبقے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اچھی خاصی پڑھی لکھی مائیں بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتیں اور بچوں کو مارپیٹ کا نشانہ بناتی ہیں۔ بچے پر جسمانی تشدد کے دو نقصانات قابل ذکر ہیں۔ اولاً بچے کے اعضا خصوصاً دماغ بہت نرم و نازک ہوتا ہے مار پیٹ کے دوران غیر ارادی طور پر کوئی سخت چوٹ اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ثانیاً ایک مرتبہ آپ کی مارپیٹ سہنے کے بعد وہ آپ کے رعب کو قبول نہیں کرے گا۔
۷- ساتویں بات بہت اہم ہے۔ اس کو نظر انداز کرکے بچے کے مستقبل کو تاریک تو کیا جاسکتا ہے لیکن روشن نہیں۔ اگر آپ اپنے بچے کے اندر کوئی غیر معمولی علامت دیکھیں تو اس کو نظر انداز نہ کریں۔ سمجھدار والدین بہت ساری بیماریوں مثلاً اندھا پن، بہرا پن وغیرہ کی شناخت بچے کی اوائل عمری میں ہی کرلیتے ہیں۔ اگر آپ کوئی بھی ایسی علامت دیکھیں تو اس کے علاج کے لیے فوری طور پر تگ و دو شروع کردیں۔ اکثر والدین کا خیال ہوتا ہے کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یوں ان کی بے احتیاطی بچے کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی زندگی میں بناؤ یا بگاڑ کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔
۸- آٹھویں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچے کی عادات میں تبدیلی کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ بچے کو کوئی اندرونی پریشانی ہوسکتی ہے جس کا آپ کو پتہ نہیں چل سکتا، آپ اس وقت اس پریشانی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ بچے کے لیے اس اہم مسئلہ پر بات چیت کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے آپ بچے سے دوستی قائم کریں اور اسی دوستی کی وساطت سے اس کی اندرونی پریشانی کا پتہ چلائیں۔
۹- والدین کو اپنے بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے بحث مباحثہ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین بچوں کے سامنے بحث و مباحثے میں نازیبا اور غیر عقلی دلیلیں دیتے رہتے ہیں جبکہ والدین بچوں کے سر پر چھتری کی مانند اور شجرسایہ دار ہوتے ہیں۔ جب بچے والدین کو لڑتے دیکھتے ہیں تو ان پر حد درجہ غلط اثر قائم ہوتا ہے۔ بچے چونکہ معاملہ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اس لیے وہ عجیب و غریب الجھنوں میں گرفتار ہوکر پریشانیوں کی راہ پر سفر شروع کردیتے ہیں۔ بچے بڑوں کی گفتگو بہت توجہ اور شوق سے سنتے ہیں، اس لیے بچوں کی موجودگی میں مہذب گفتگو کرنی چاہیے۔
۱۰- بچہ جب آپ سے کسی حوالے سے سوال کرنے کی کوشش کرے تو آپ کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کو محض اس وجہ سے سوال کرنے سے نہ روکیں کہ آپ یا تو مصروف ہیں اور آپ کے پاس وقت نہیں ہے یا آپ اس کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتیں یا اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں اس کی مدد نہیں کرسکتیں۔
۱۱- گیارہویں اور آخری بات یہ ہے کہ بچے کو ناروا پابندیوں کا شکار نہ کریں۔ اس کو ہر طرح سے بڑا ہونے میں مدد دیں۔ اس کے اندر خود اعتمادی کی پرورش کریں۔ یہی خود اعتمادی اس کو بالغ نظر بنائے گی اور وہ زندگی کے مختلف راستوں پر چلے گا۔ مذکورہ بالا سب باتوں کو دھیان میںرکھیں یقینا آپ اپنے بچے کی شخصیت میں انقلابی تبدیلیاں دیکھیں گے۔