اسلام میں عورت کا مقام

ماریہ کوثر مومناتی

عورت اس دنیا کی وہ مظلوم مخلوق جسے تاریخ نے نظرانداز کیا، سماج نے ٹھکرایا، ہوس پرستوں نے اسے نشانہ بنایا اور مذاہب نے دین کے نام پر اسے فطری حقوق سے بھی محروم رکھا، جس کی مثالیں ہمیں ہندوستان اور ہندو دھرم کے علاوہ عیسائیت میں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ اسلام سے پہلے عورت سماج کی نگاہ میں منحوس اور بے وقعت سمجھی جاتی تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں تو اسے زندہ رہنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ قرآن مجید نے جاہلیت کے زمانے میں عورت کی مظلومیت اور بدنصیبی کا نقشہ ان لفظوں میں کھینچا ہے:
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئٍ مَا بُشِّرَ بِہٖ أَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہَوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِیْ التُّرَابِ اَلَاسَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔ (النحل:۵۹،۵۸)
’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑجاتا ہے غم کے مارے۔ اور اس بری خبر سے وہ اپنا چہرہ لوگوں سے چھپائے پھرتا ہے۔ اور وہ سوچتا ہے کہ کیا اس کو لیے رہے یا اسے زمین میں دبا کر چھپا دے کتنا برا حکم ہے جو یہ لگاتے ہیں۔‘‘
آج بھی دنیا کے غیر مسلم ممالک اور مذاہب میں عورت کا کوئی قانونی حق خاندانی وراثت میں نہیں۔ وہ محض اپنے رشتہ داروں کے رحم و کرم پر رہتی ہے۔ لیکن اسلام دنیا میں وہ پہلا دین ہے جس نے عورت کی عزت بڑھائی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰا أَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔ (الحجرات: ۱۲)
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘
آنحضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ ’’عورت اور مرد ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں‘‘ مردوں اور عورتوں کے درمیان جنس کی بنیاد پر جاری تفریق کو کالعدم قرار دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ (البقرہ)
’’عورتوں کے بھی مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں۔‘‘
کہہ کر دونوں کو یکساں کردیا۔ نیکی اور بھلائی کے ساتھ اسلام میں عورتوں کو جو فضیلت اور مرتبہ دیا گیا ہے وہ دنیا کے کسی مذہب میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ قرآن مجید سورئہ الاحزاب آیت ۳۵ میں عورت اور مرد کو اعمال حسنہ میں برابر کا شریک بنایا گیا ہے۔
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَ اَجْراً عَظِیْماً۔ (الاحزاب: ۳۵)
’’یقینا جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان الٰہی ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرماگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، تو اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔‘‘
یہاں دس عبادات اور نیکیوں میں مردوں اور عورتوں کو برابر برابر درجہ دیا گیا ہے۔ اس سے بھی بہترین مثال اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں کے درمیان قربت محبت اور مساوات کی ان لفظوں میں دی ہے۔ فرمایا:
ہُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَہُنَّ۔ (البقرۃ: ۱۸۷)
’’عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم عورتوں کے لیے لباس ہو۔‘‘
کتنی پیاری مثال ہے عورت اور مرد کے درمیان برابری اور مساوات کی۔ میاں بیوی ایک ودسرے کے لیے لباس کی طرح ہیں۔ یعنی جس طرح جسم اور لباس ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے، اسی طرح میاں بیوی کا بھی معاملہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سترپوش ایک دوسرے کے ساتھ قریب اور وابستہ ہیں، ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوسکتے۔ لباس جس طرح بدن کے لیے زینت ہے اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے زینت ہیں۔ جسم بغیر لباس کے بالکل شرم و عار کی بات ہے اسی طرح عورت مرد ایک دوسرے کے بغیر ننگ و عار ہیں۔ عورت اور مرد کے درمیان لباس کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان مضبوط رشتے کو ثابت کیا ہے اور ایک دوسرے کے مقام اور مرتبہ کو بھی، اللہ نے یہاں ان کو ایک دوسرے کے عیوب کو ڈھانکنے والا اور پردہ ڈالنے والا قرار دیا ہے۔
پیدائش کے وقت سے لے کر موت تک ایک عورت کی زندگی کے تین روپ ہیں۔ بیٹی، بیوی اور ماں۔ اسلام نے بیٹی کی حیثیت سے اسے نہ صرف زندگی کا حق دیا بلکہ اسے جنت کی ضمانت قرار دیا۔ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا تھا، اس کی پرورش اور صالح تربیت کو ماں باپ کے لیے جنت کے حصول کا ذریعہ بنادیا۔ اللہ کے رسول کی اس حدیث کو پڑھئے جس میں آپ نے تین بیٹیوں کی نیک تربیت اور شادی بیاہ کی ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دینے کو جنت کی ضمانت بتایا۔ ایک صحابی نے پوچھا اللہ کے رسول اگر کسی کے پاس صرف دو بیٹیاں ہوں، پھر کہا کہ اگر اس کے پاس صرف ایک بیٹی ہو؟ آپ نے فرمایا وہ بھی جنت کا حق دار ہے۔ غور کیجیے لڑکیوں کو زندگی کے حق سے محروم کرنے والے معاشرہ نے دل و جان سے اسے قبول کیا اور جنت کے حصول کا وسیلہ سمجھا۔ آج کے ترقی یافتہ اور’’مہذب‘‘ دور میں سائنس کی ایجادات کے ذریعہ جنس کی تشخیص کراکر لڑکیوں سے زندگی کا حق چھینا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے اس عظیم پیغام کو لے کر جائیں اور لوگوں کو جنت کی بشارت دیں۔
عورت کا دوسرا روپ بیوی کا ہے۔عورت پر اسلام کا ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس نے عورت کو دیوداسی اور راہبہ بن کر زندگی بھر کنواری رہ کر زندگی گزارنے کی ذلت سے نکالا اوربتایا کہ دنیا کو اچھے انسان عطا کرنے سے عورت کو محروم کرنا انتہائی جرم اور انسانی اور اخلاقی گناہ ہے۔ اسلام نے شوہر اور شادی کی صورت میں اسے سماجی عزت و شرف دیا نیز مرد کو تحفظ اور اس کی کفالت کی ذمہ داری دے کر اسے شادکام فرمایا۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کو اچھائی کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے ’’اہل‘‘ کے لیے بہتر ہو۔
عورت کی تیسری حیثیت ماں کی ہے۔ اور ماں کی حیثیت سے وہ سب سے مقدم اور سب سے اہم ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے چار مرتبہ سوال کیا: ماں باپ میں سب سے زیادہ میری خدمت کا حقدار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں، چوتھی مرتبہ جب پوچھا تو فرمایا تیرا باپ۔ماں کی اس سے بڑھ کر اور عزت کیا ہوگی کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا :’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
اسلام میں عورتوں کے یہ وہ حقوق ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں انتہائی خوش نصیب ہیں۔ یہ صرف ماں کی نہیں بلکہ ایک مسلمان ماں کی سعادت اور فضیلت ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے عورت کو محض مردوں کا ضمیمہ اور ان کا تابع فرمان نہیں بنایا بلکہ اس کی الگ اور انفرادی شناخت بھی دی۔ یہ شناخت نیکی کے معاملہ میں ایک دوسرے سے مسابقہ، خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور جنت کے حصول کی کوشش میں مقابلہ سے لے کر پروپرٹی اور جائیداد کے حق اور مہر کے حق تک میں اسے حاصل ہے۔ بیٹی اور بہن کی حیثیت سے وہ باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہے، بیوی کی حیثیت سے وہ شوہر کی وارث ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی وہ اپنی جائیداد رکھنے کا حق رکھتی ہے۔ جبکہ سابقہ دور میں اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بے شمار معاشرہ، مذاہب اور قوانین ایسے ہیں جہاں وہ اپنی اس انفرادی شناخت سے محروم کردی گئی۔ اور اس کی واضح مثال خود ہمارا ہندو سماج اور ہندوستان کا قانون ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود پہلے اسلام کو سمجھیں اور دیکھیں کہ اسلام نے عورتوں پر کیا احسانات کیے ہیں اس کے بعد ہم دنیا کو یہ بتاسکیںگے عورتوں کی فلاح، ان کے عزت و وقار اور ان کی کامیابی کا ضامن کون ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146