اس مضمون میں ہم بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق چند اہم نفسیاتی اصولوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کے ذریعہ بچوں کی تربیت پر بہت حد تک مثبت اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ شخصیت کی تعمیر ان بنیادوں پر ہوتی ہے جو بچپن میں استوار کی جاتی ہیں۔
تین مہینے کی عمر میں بچے کو کچھ ایسی عادتیں پڑجاتی ہیں جنہیں بعد میں بدلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بچہ ہر اس حرکت کو دہرانا پسند کرتا ہے جس میں اس کو لذت میسر آتی ہے، لذت کا یہی احساس اس عادت بن جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کے تعلیمی، شخصی، جذباتی اور معاشرتی مسائل کا جتنا جلد ہوسکے تدارک کیا جائے تاکہ بچے کی شخصیت کی نشو و نما، اس کی تعلیم اور موزوں پیشہ اپنانے کا عمل زیادہ سے زیادہ سہل، رکاوٹوں سے آزاد اور بامعنی بنایا جاسکے۔
بچے کے افکار اور خیالات کو سمجھنا قدرے مشکل کام ہے۔ اس کے لیے اپنے جذبات، اپنی توقعات اور اپنی خواہشات کو علاحدہ کرکے دیکھنا پڑتا ہے۔ بعض والدین بچے کی جسمانی ضروریات پر تو نظر رکھتے ہیں لیکن اس کی ذہنی اور نفسیاتی ضروریات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ بچہ بے حد حساس اور پیار، توجہ اور ہمدردی کا متلاشی ہوتا ہے۔ پیار کی کمی کو وہ بہت شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ بچے کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کے لیے سب سے اہم پیار اور توجہ ہی ہے۔ اس سے بچے میں احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے لیکن بے توجہی اور بے مہری کا شکار بچہ ناخوش رہتا ہے اس کو احساس تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔
ماں باپ کی بے توجہی اور بے مہری بچے کی شخصیت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گھر کا ناخوشگوار ماحول، والدین کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور ان کی توجہ کی کمی بچے میں احساس کمتری اور ضدی پن کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے بچوں کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
گھر کا ماحول بچے کی شخصیت و کردار پر بڑا گہرا اثر رکھتا ہے۔ یہ احتیاط رکھنی چاہیے کہ گھر کا ماحول ایسا رہے جس میں بچے کو اچھا کام کرنے میں خوشی اور بری حرکت میں کوفت محسوس ہو۔ اچھی باتوں میں لگاؤ اور نامناسب مشاغل سے بچنے کی عادت بچے کے اپنے ذاتی تجربوں اور محسوسات پر منحصر ہو۔ خشک مذہبی یا مشکل اخلاقی نصیحتوں پر بچوں کی تربیت کی بنیاد رکھنا ریت کے قلعے تعمیر کرنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ بچے خاص طور پر چھوٹے بچے وعظ و نصیحت سے بہت کم سیکھتے ہیں۔ قدرتی طور پر گھر کا ماحول اچھا ہونا چاہیے جس میں والدین خود اچھے کردار اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں جو بچے کی اخلاقی اور معاشرتی نشوونما میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ بچے کے ساتھ والدین کا جمہوری طرز عمل، اس کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جانا، اسے مناسب پیار ملنا یہ سب باتیں بچے کی معاشرتی، اخلاقی اور ذہنی نشوونما کے لیے بہت اچھی ہیں۔ بچوں کی زندگی عمل سے بنتی ہے۔ بچوں کی زندگی کے تمام واقعات، وہ اشیاء جن سے انہیں دلچسپی ہو اور ان کے پسندیدہ مشاغل سے متعلق ان سے براہ راست سوال کیے جائیں تو جوابوں کے جائزے سے بھی ان کی زندگی اور رجحان کا اندازہ ہوسکتا ہے اور یہ کہ بچوں پر کبھی اپنی مرضی مسلط نہیں کرنی چاہیے۔
بچوں کی لغزشوں پر غضبناک نہیں ہونا چاہیے ان کی خطاؤں کو اچھی طرح سمجھ کر ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذرا ذرا سی بات پر سخت سزائیں دینے کا دستور بچوں کے حق میں اچھا نہیں۔ اس سے وہ اور زیادہ غصیلے اور ضدی ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی اکثر خطاؤں کی وجہ سستی بھی ہوتی ہے۔ سستی پیدا کرنے میں جسمانی عناصر کی اہمیت سے انکار نہیں ہوسکتا۔ جسمانی عناصر بھی بچوں کو کاہل بنادیتے ہیں اس لیے کاہل بچوں کا فوراً طبی معائنہ ہونا چاہیے اور ان کی غلطیوں پہ سزا دینے کے بجائے نرمی سے سمجھانا چاہیے۔ ناسازگار ماحول اور اکھڑ والدین بھی بچوں کو گستاخ بنادیتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے ساتھ اپنے رویہ میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔