سردی کا موسم اور جمعہ کا دن تھا، کئی روز کے بعد دھوپ نکلی تھی۔ مسجد کے آنگن میں خاصی دھوپ تھی۔ لوگ وہاں سنتیں پڑھ رہے تھے۔ مسجد کے اندرون میں چونکہ ٹھنڈ تھی اس لیے لوگ اندر کے مقابلے باہر بیٹھنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ انھیں خدا کی مغفرت سے زیادہ دھوپ کی فکر تھی۔ وہ شاید اپنے آپ کو گنہ گار ہی نہیں سمجھ رہے تھے اسی لیے انھیں آگے کی صف میں بیٹھنے کے ثواب کی حاجت بھی نہ تھی۔
خطبہ ہونے لگا …… اور پورا ہوگیا۔ امام صاحب نے مصلیٰ سنبھالا۔ مگر اندر کی صفیں خالی تھیں۔ اندر کے لوگ باہر والوں سے بار بار اندر آنے کو کہہ رہے تھے۔ ہر شخص دوسرے کو اندر بھیجنے پر مصر تھا خود دھوپ میں رہنا چاہتا تھا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ اندر دھوپ سے بھی قیمتی چیز ہے ’’سایہ‘‘ اور صرف مسجد کی چھت ہی کا نہیں بلکہ خدا کی رحمت کا بھی ’’سایہ‘‘۔ اس اندر بلانے کی کوشش میں چار منٹ لگ گئے۔
میں بڑا متفکر تھا۔ لوگ نماز کی اہمیت سے عملاً انکار کررہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک وہ لوگ تھے جنھیں قرآن نے رضی اللہ عہنم و رضوا عنہ کہا ہے۔ وہ نیکیوں کی طرف دوڑتے تھے۔ ایک ہم سراپا گنہ گار پھر بھی نیکیوں کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کھسک رہے ہیں۔
میں نے نماز کے بعد ایک شخص سے پوچھا کیوں بھائی اگر اندر کی صف میں لڈو تقسیم ہورہے ہوتے تو کیا ہوتا وہ بولا:
’’سب اندر کی صف میں ہوتے۔‘