[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

کامریڈ کا کفو

ڈاکٹر وقار انور

حکیم صاحب کی مجلس میں یہ خبر پہنچی کہ کامریڈ تقی نے اپنے اصولوں کے مطابق عمل کا بھی عملی مظاہرہ کیا ہے۔ کامریڈ تقی دین میں کفو کے قائل نہیں ہیں اس لیے جب یہ بات معلوم ہوئی کہ موصوف کے بیٹے نے دلی میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلی ہے تو ہر شخص نے یہی سمجھا کہ یہ واقعہ ان کے خیالات کی توثیق ہے۔

حکیم صاحب کی مجلس میں عصر سے عشاء تک شہر کے شرفاء، رؤساء اور تعلیم یافتہ افراد شریک ہوتے ہیں۔ شہر کے قلب میں حکیم صاحب کی دوکان اس چھوٹے سے شہر کی سماجی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ لوگ اپنی صوابدید سے آتے ہیں، سلام کرکے شریک مجلس ہوجاتے ہیں اور جب جانا ہوتا ہے خاموشی سے اپنے بغل میں بیٹھے افراد کو آگاہ کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہتی ہے۔ موضوع بدلتا رہتا ہے۔ نووارد یا تو جاری موضوع میں ہی شریک ہوجاتا ہے یا کسی نئی خبر کو پیش کرکے مجلس کی توجہ دوسری طرف مبذول کرادیتا ہے۔ اس طرح شہر کے تمام چھوٹے بڑے واقعات بھی یہاں سنے سنائے جاتے ہیں اور ان پر مختلف زاویوں سے سیر حاصل گفتگو بھی ہوتی ہے۔

نقطہ نظر کا فرق اس مجلس کی ہمیشہ خصوصیت رہی۔ حکیم صاحب خود عقیدہ کے لحاظ سے سلفی، سیاسی فکر کے لحاظ سے جمعیۃ العلمائی اور رابطہ کے لحاظ سے کانگریسی ہیں۔ تبلیغی جماعت سے متعلق، جماعت اسلامی سے وابستہ، دیوبندی نقطہ نظر یا بریلوی رجحانات پر مصر افراد یا سوشلسٹ خیالات یا کمیونسٹ نظریات کے حامل لوگ ہوں یا خوش فکرے، بے فکرے خاندانی شرفاء، سب اس مجلس میں شریک ہوتے اور اپنے اپنے انداز اور ذوق کے مطابق بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔

کامریڈ تقی بھی حکیم صاحب کی مجلس کے ایک معزز رکن رہے جو پابندی سے شریک ہوتے رہے۔ باغ و بہار شخصیت، دلچسپ گفتگو کرنے والے اور تقریباً تمام موضوعات پر اپنی مخصوص فکر کے تحت بحث و مباحثہ میں حصہ لینے والے تقی صاحب کے نام کا جز لاینفک ’’کامریڈ‘‘ بن گیا۔ شائد شہر میں صرف کامریڈ کہنے سے وہی مراد لیے جاتے ہیں۔ خود انہیں بھی یہ خطاب پسند ہے۔

حکیم صاحب ہمیشہ میر مجلس رہے ہیں۔ خود کسی موضوع پر کم حصہ لینا، جاری گفتگو کو غور سے سنتے رہنا اور جب یہ محسوس ہو کہ بات اس حد کو پہنچ گئی ہے جہاں سے تلخیاں پیدا ہونے کے امکانات ہیں تو موضوع بدلنے کے لیے کوئی دوسری بات چھیڑ دینا، ان کا طریقہ رہا ہے۔ پوری مجلس ان کا اتنا لحاظ کرتی ہے کہ جب وہ موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ ان کا اشارہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس آداب مجلس کا یہی تقاضہ ہے کہ بحث کو بلا نتیجہ ہی سہی اب روک دیا جائے۔ ویسے بھی کسی معاملہ میں نتیجہ تک پہنچنے کا کیا سوال جب مختلف افکار ونظریات کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے اپنی اپنی سوچ کے مطابق بات کررہے ہوں اور ہر شخص اپنے اپنے مقام پر ثابت قدم ہو۔ ایسا کم ہی ہوتا کہ تمام لوگ کسی ایک بات پر متفق ہوجاتے ہوں۔

مجلس کے تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ کامریڈ تقی کے بیٹے کی غیر مسلم لڑکی سے شادی گرچہ ناپسندیدہ امر ہے لیکن یہ ان کے افکار و نظریات کے عین مطابق ہے۔ یہ واقعہ علی الاعلان پیش آیا تھا۔ کامریڈ تقی تقریب میں شرکت کی غرض سے ایک ہفتہ قبل ہی دلّی چلے گئے تھے۔ وہاں سے انھوں نے حکیم صاحب کے نام خط کے ذریعہ ارکان مجلس تک یہ خبر پہنچائی تھی کہ شادی کی اس تقریب میں کون کون سے لوگ یعنی معززین شہر دلّی شریک ہوئے اور ان کے بیٹے کی اس جرأت رندانہ کی پذیرائی کی۔ شادی کے دو ہفتہ کے بعد کامریڈ واپس آئے اور مجلس میں شریک ہوئے۔

مجلس کی وہ شام گرما گرم بحث کی نظر ہوگئی۔ تمام لوگ اپنے اپنے انداز سے ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے لیکن کامریڈ تقی اس بات پر مصر رہے کہ یہ واقعہ صرف یہی نہیں کہ پسندیدہ ہے بلکہ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے لائق وفائق بیٹے نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

ایک صاحب کہنے لگے: ’’آپ لوگ لڑکی سے کلمہ پڑھوالیتے اور اسلامی طریقہ سے نکاح کرتے۔‘‘

کامریڈ نے جواب دیا ’’جب میں مذہب کی بنیاد پر سماج میں تفریق کا قائل ہی نہیں ہوں تو میرے لیے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میری بہو کا مذہب کیا ہے اور اس کے عقائد کیا ہیں۔‘‘

مجلس کے دوسرے رکن معترض ہوئے: ’’خود آپ نے ایک مسلمان خاتون کو اپنے نکاح میں لیا تھا، اس کی آپ کیا تاویل کرسکتے ہیں؟‘‘

کامریڈ ہار ماننے والے نہیں تھے، پلٹ کر جواب دیا: ’’بس اسے آپ اتفاق سمجھئے کہ مجھے جو لڑکی پسند آئی وہ مسلمان تھی اور اس کے گھر والوں نے اسلامی طریقہ سے اس کا نکاح کرنا پسند کیا۔ میرے لیے ان طریقوں میں کیا فرق ہے؟ جو طریقہ ان لوگوں نے پسند کیا وہ میرے لیے قابل قبول تھا۔ اگرکوئی غیر مسلم لڑکی پسند آتی تو اس سے اس کے پسند کے طریقہ سے شادی کرلیتا۔ دیکھئے آپ لوگ اس بات کو نوٹ کرلیجیے کہ میں سماج میں طبقہ واری کشمکش کے علاوہ کسی اور تفریق، بشمول دین و مذہب، کا قائل نہیں ہوں ؎

’’قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا‘‘

ایک اور شخص نے یہ سوال کردیا: ’’آپ بار بار تذکرہ کررہے ہیں کہ آپ کی بہو برہمن زادی ڈاکٹر ہے۔ بہو کے ڈاکٹر ہونے پر آپ کا فخر سمجھ میں آتا ہے لیکن آپ جب کسی تفریق کے قائل نہیں ہیں تو اس کے برہمن ہونے کا ذکر کیوں کررہے ہیں؟‘‘

کامریڈ تقی نے ناگواری کے ساتھ جواب دیا: ’’آپ لوگ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ میں نے اس کے برہمن ہونے کی بات برسبیل تذکرہ کہی ہے۔ حقیقتِ واقعہ کہ طور پر، اور بس۔ بہر حال وہ ایک اونچے خاندان کی ڈاکٹر لڑکی ہے۔ کیا میں ایسی اچھی بہو ملنے پر خوشی کا اظہار نہ کروں؟ آپ لوگوں کا بند ذہن اسے قبول نہیں کررہا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

گفتگو کی تلخی حکیم صاحب نے بھی محسوس کی اور اپنی وضع کے مطابق موضوع بدل دیا۔

حکیم صاحب کے لحاظ اور آداب مجلس کی خاطر اس مجلس کی حد تک گفتگو کا موضوع بدل گیا، لیکن ایک چھوٹے شہر کے لیے یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ ہفتوں دیگر مجلسوں میں اس واقعہ پر تبصرہ ہوتا رہا۔ لوگوں کی عمومی طور پر رائے یہی بنی کہ گرچہ یہ واقعہ ناپسندیدہ ہے لیکن یہ کامریڈ تقی کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ کامریڈ کے انقلاب پسندی کی داد و تحسین اور پذیرائی کی جائے یا نہ کی جائے، ان کے اصول پسندی کا اعتراف کرنا چاہیے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ لوگوں کی یاد سے محو ہوتا گیا۔ چند برسوں کے بعد ایک بار پھر اس واقعہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہوا یوں کہ کامریڈ تقی کی بیٹی نے اسی شہر کے ایک تعلیم یافتہ، برسرروزگار شریف مسلمان خاندان کے لڑکے کو پسند کیا اور اپنے والد کی تمام مخالفتوں کے باوجود اس سے نکاح کرلیا۔ کامریڈ کو یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ وہ نکاح کی تقریب میں شریک نہیں ہوئے اور دعوت ولیمہ کے دن شہر چھوڑ کر اپنے بیٹے، بہو کے پاس دلّی چلے گئے۔

کامریڈ تقی نے اپنی بیٹی کے اس رشتہ کو صرف اس وجہ سے ناپسند کیا کہ وہ لڑکا اپنی تعلیم، روزگار اور خاندانی شرافت کے باوجود برادری میں کامریڈ کی اپنی برادری سے کم تر درجہ کا ہے۔

پورے شہر میں لوگوں کی گفتگو کا یہ موضوع رہا کہ کامریڈ تقی کے اس عمل (بلکہ ردعمل) کی تاویل ان کے کس اصول کے مطابق کی جاسکتی ہے۔

حکیم صاحب کی مجلس میں جب اس معاملہ پر بات ہوئی تو ایک صاحب نے (حکیم صاحب کے موضوعِ گفتگو بدل دئے جانے سے قبل) یہ تبصرہ کیا: ’’لگتا ہے کامریڈ دین کے معاملہ میں کفو کے قائل تو نہیں ہیں لیکن ذات برادری کے معاملہ میں کفو کے قائل ہیں۔‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں