نیویارک میں پیدا ہونے والی یہ خاتون گہرے مذہبی جذبات رکھتی تھی۔ مذہبی ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود وہ عیسائیت کی تعلیمات سے مطمئن نہیں تھی۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے جن کے تشفی بخش جوابات اسے نہ مل سکے تھے۔ اس نے تلاش حقیقت کے لیے یکے بعد دیگرے یہودیت، بدھ ازم اور ہندو ازم کا مطالعہ کیا، لیکن اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ سب غیر حقیقی اور غلط نظریات ہیں۔
سوچا کہ کیا الحاد (انکار خدا) کا نظریہ اختیار کیا جائے۔ لیکن ایسا کرنا اپنے ماحول اور کائنات کے حقائق کے انکار کے مترادف ہوتا۔ اور یہ انتہائی خلاف حقیقت رویہ ہوتا۔ وہ بے چینی اور کرب کا شکار رہی۔ اسی دوران پہلے شوہر سے علیحدگی کی نوبت آگئی اور وہ اسے جرمنی میں چھوڑ کر اپنے دو بچوں کے ساتھ امریکہ واپس آگئی۔ اب وہ اپنے بچوں کے لیے زندہ تھی۔ اسے زندگی سے پیار تھا اور نمود و نمائش، عیش و عشرت اور پارٹیوں والی زندگی سے نفرت۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت، تصنیف و تالیف، تحقیق، سفر اور مختلف قسم کے مطالعوں میں مصروف تھی کہ ۱۹۸۷ء میں اس کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ پیارا باپ جو تمام لوگوں سے زیادہ اس سے قریب اور اس کے غم و اندوہ کا شریک تھا اچانک رخصت ہوگیا۔ غم کا اندھیرا زیادہ گہرا ہوگیا اور زندگی بے معنی لگنے لگی۔ اس نے اپنے خالق حقیقی سے، وہ جو کوئی بھی ہو اور جس کی صحیح شخصیت سے وہ ابھی تک ناواقف تھی، گڑ گڑا کر دعائیں کیں کہ وہ صراط مستقیم کی طرف اس کی رہنمائی کرے۔
ایک دن ٹیلی ویژن پر Phil Donahueکا ایک ٹاک پروگرام ہورہا تھا۔ وہ ایک غیر امریکی مسلمان سے انٹرویو لے رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی سفید فام نو مسلم امریکی بیوی کا انٹرویو بھی ہورہا تھا۔ وہ اپنے نو دریافت شدہ دین اسلام کی باتیں نہایت معصومیت لیکن ذہانت اور متانت کے ساتھ سنا رہی تھی۔ جیکلین نو مسلم خاتون کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئی۔ اس نے یوں محسوس کیا کہ اسلام کی تعلیم وہی ہے جو اس کے دل کے اندر تھی۔ اس نے پہلی بار قرآن کا نام سنا۔ اسے یہ بات اچھی لگی کہ مسلمان کسی انسان کی نہیں بلکہ خالق حقیقی کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کی ایک جنوبی ریاست کے چھوٹے سے مقام پر رہ رہی تھی۔مقامی لائبریری میں قرآن نہیں رکھا گیا تھا۔ لائبریری کے ذمہ داروں سے بہت سے سوالات کرنے پر اسے پتہ چلا کہ اس آبادی میں ایک مسلم رہتا ہے جو ریاضی کا استاد ہے اور اس نے ایک میتھوڈسٹ عیسائی خاتون سے شادی کررکھی ہے۔ اس نے مقامی میتھوڈسٹ چرچ سے اس شخص کا فون نمبر حاصل کرکے اس سے معلوم کیا کہ قرآن کہاں مل سکتا ہے۔ پتہ حاصل کرنے پر اس نے سو میل فاصلے پر واقع ایک کتابوں کی دوکان سے بذریعہ ڈاک قرآن کا نسخہ حاصل کیا۔ ذوق و شوق کے عالم میں اس نے دو دن میں اس کتاب ہدایت کو اول تا آخر پڑھ ڈالا۔ اسی وقت اس نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام نے اسے اپنے آغوش رحمت میں لے لیا۔ مزید کتابوں کے لیے اس نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع سعودی سفارت کو فون کیا۔ ایک ہفتے کے اندر اس کے ہاں خوبصورت کتابچوں اور کتابوں کی ریل پیل ہوگئی۔ اس نے چند دنوں کے لیے پردے گرادئے، فون منقطع کردیا اور تمام کاموں سے کنارہ کش ہوکر اسلام کے گہرے مطالعے میں غرق ہوگئی۔ اس نے زندگی کا صحیح مفہوم پالیا اور رب رحیم کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا۔
ایک ٹاک شو نے اس کی زندگی کا دھارا بدل ڈالا۔ وہ زندگی کے اصل مقصد یعنی خدا کی عبادت و اطاعت کی نعمت سے بہرہ ور ہوگئی۔ خدا کے احکام کی مخلصانہ پیروی سے زیادہ بڑی چیز اور کیا ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اب تک وہ قرآن عظیم کے تمام پیچیدہ مضامین سے پورے طور سے واقف نہیں ہوسکی ہے تاہم قرآن کا مطالعہ اسے اطمینان قلب کی نعمت سے نوازتا رہتا ہے۔ وہ اپنے ان بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ، جنھوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے، امن و سکون کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ مطالعہ قرآن، نمازوں کی پابندی اور دعاؤں سے سکون حاصل کرتی ہے اور اسلام کے احکام پر پورے طور پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا خاندان اس کے نئے دین اور بدلی ہوئی زندگی سے راضی اور خوش ہے ویسے وہ کہتی ہے کہ اسے اللہ کی رضا کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہے۔