معمول کی زندگی میں بچت کی سوچ

ام کاشان

بچت آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ بچت کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب رسد کم اور طلب زیادہ ہو۔ اور آج ہر شعبہ زندگی میں رسد و طلب کا یہی حال ہے۔ گھریلو اخراجات اور آمدنی سے لے کر بجلی، پانی، گیس یہاں تک کہ وقت میں بچت کے لیے بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ مگر اسی ضمن میں بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں ہم معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ اگر ان پر اپنی گرفت سخت کردیں تو اس کے نتائج اچھے ہی ہوسکتے ہیں۔

گھروں میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ کمروں میں بلا ضرورت بلب، ٹیوب، پنکھے، اے سی، ٹی وی یا اور دوسری گھریلو استعمال کی برقی اشیاء اور غیر ضروری طور پر جلتی رہتی ہپیں۔ یہ جلتی رہ جانے والی چیزیں فضول خرچی کی مد میں آتی ہیں اور اگر ہم توجہ کریں، ضرورت ختم ہوتے ہی سوئچ پر انگلی رکھ کر اسے آف کردیں تو یہ نہ صرف بل میں کمی کا باعث ہوگا بلکہ اس سے بچنے والی برقی توانائی کی وجہ سے لوڈ شیڈ نگ میں بھی خاطر خواہ اور نمایاں فرق پڑے گا۔

’’قطرہ قطرہ دریا می شوید‘‘ ضرب المثل یوں ہی وجود میں نہیں آگئی۔ گئے وقتوں میں اچھی،سگھڑ اور سلیقہ شعار کہلانے والی خواتین کے شب و روز پر نظر ڈالیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ان کی دسوں انگلیاں دسوں چراغ ہوا کرتی تھیں۔ وہ تہواروں اور تقاریب پر آنے والے کپڑے خود سیتی اور خود کاٹتی تھیں اور نئی سی نئی اختراع بھی ہوتی۔ دوپٹے گھروں میں حسب خواہش رنگ لیے جاتے، کپڑوں کی کٹنگ کے بعد جو کپڑا فاضل بچتا اسے یا تو بقچیوں میں حفاظت سے رکھ لیا جاتا اور یہ فاضل کپڑا، یا تو گھر، خاندان، عزیز و اقارب میں نوزائیدہ بچوں کے لباس کی تیاری میں کام آجاتا، یا پھر استعمال ہونے والے کپڑے کے پھٹ جانے یا گھس جانے پر پیوند لگانے کے کام آتا۔ آج خواتین کی اکثریت نئی سماجی و معاشرتی مصروفیات اور ان گھریلو فنون سے عدم واقفیت کی وجہ سے درزیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے یا پھر ریڈی میڈ پر گزارا کرتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاصا پیسہ صرف ہوجاتا ہے۔ اگر درزی کے بجائے خود اپنا کام آپ کیا جائے تو نہ صرف پیسے کی بچت ہوگی بلکہ آپ کا وہ کپڑا جو بچ جانے کی صورت میں درزی واپس نہیں کرتا آپ کے پاس رہ جائے گا اور کسی مناسب موقع پر آکر آپ کے مزید خرچ ہوجانے والے پیسے کو محفوظ کردے گا۔

شادی، بیاہ، سالگرہ، عقیقہ اور دوسری رسومات کے موقع پر تقریبات میں خاصا کھانا جھوٹا بچ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ عموماً مدعوئین کھانے پر اس بری طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے خدانخواستہ وہ کئی دن کے فاقوں سے ہوں اور اپنی پلیٹیں اس بری طرح بھر لیتے ہیں گویا دوبارہ انھیں موقع نہیں ملے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرغن کھانا چند نوالے کھانے کے بعد ہی طبیعت بلکہ پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ اور وہ اپنی بھری ہوئی پلیٹ ادھر، ادھر دیکھ کر خاموشی سے میز پر رکھ کر ہٹ جاتے ہیں۔ اگر وہ بقدر ضرورت بلکہ خود ہی مناسب مقدار میں ڈشز سے پلیٹ میں نکالیں ا ور ضرورت پڑنے پر مزید لے لیں تو بہتر ہوگا۔ اس میں کوئی مضائقے یا سبکی کی بات نہیں کہ آپ نے ڈشز میں سے پلیٹ میں کتنی بار لیا۔ یہ ضرور معیوب بات ہے کہ پلیٹ بھر کر نکالنے کے بعد اسے کھائے بغیر نظریں بچاکر چھوڑ دیا جائے۔ اگر اسی بچت کی طرف توجہ دی جائے تو سو مہمانوں کے لیے پکنے والا کھانا ڈیڑھ سو افراد بخوبی اور باآسانی کھاسکتے ہیں۔

ان تقریبات میں ڈیکوریشن اور سجاوٹ کے نام پر استعمال ہونے والی بجلی اور دوسرے لوازمات میں بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ مدعوئین ایسی تقریبات میں شرکت کے لیے خصوصی طورپر اہتمام کرتے ہیں۔ نئے لباس، نئے جوتے خریدے جاتے ہیں اور یوں چند گھنڈوں کی تقریب کے لیے خاصا روپیہ خرچ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، پہلے خواتین یہ سارے کام از خود کرتی تھیں اس لیے ان کا تیار کردہ ایک جوڑا کئی کئی تقریبات کے لیے کافی ہوتا تھا اور وہ ہر تقریب میں اپنی جدت طرازی اور ہنر مندی کے باعث پہلے سے مختلف جوڑا پہنے نظر آیا کرتی تھیں۔

بجلی، پانی، گیس، غذا کی بچت کے ساتھ ساتھ ہمیں وقت کی بچت پر بھی خصوصی توجہ صرف کرنی چاہیے۔ جن گھرانوں میں فون کی سہولت موجود ہے وہاں فاضل وقت عموماً فون پر سہیلیوں اور عزیز ہم عمر لڑکیوں سے فون پر گفتگو کی نذر ہوجاتا ہے۔ صرف ضروری اور مختصر گفتگو کرکے فون کے بل میں کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ خاصا وقت بھی بچایا جاسکتا ہے جسے آپ بعد میں مطالعے، امتحانات کی تیاری، بچوں کو سکھانے، پڑھانے، دعوتی سرگرمیوں یا کسی اور ایسے ہی معیاری مصرف میں لاسکتی ہیں۔ آج کل عزیز و اقارب سے ملنا جلنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے اگر ہم اس طرح وقت بچا کر تجدید ملاقات کریں تو باہم ملنے جلنے اور ایک دوسرے کی خیروعافیت معلوم کرنے سے بہت سے سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

اب پانی کے زیاں کو لیجیے۔ بیشتر گھرانوں میں نل بند کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ نل میں پانی آتا ہے، استعمال ہوتا ہے اور پھریوں ہی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر استعمال کے فوراً بعد نل بند کردیا جائے تو فاضل بہہ جانے والا پانی کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔

ممکن ہے یہاں قاری یہ سوچنے لگے کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑ سکتا ہے۔ صرف میرے احتیاط کرنے سے کتنی بجلی، کتنی گیس، کتنا پانی اور کتنا وقت بچ جائے گا۔ اس کی یہ سوچ غلط ہوگی۔ بچت کرنا کسی ایک فرد کسی ایک گھرانے ہی کا نہیں، ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر ساری قوم جس کی تعداد سو کروڑ سے بھی زیادہ ہے ان میں سے دس کروڑ نے بھی ایک دن میں اپنے ضائع ہوجانے والے اوقات میں سے ایک ایک منٹ بھی بچایا تو دس کروڑ منٹ بچ گئے۔ توانائی کا ایک یونٹ بھی ضائع ہونے سے بچالیا تو دس کروڑ یونٹ کی بچت ہوجائے گی۔ خود سوچئے دس کروڑ منٹوں کے کتنے گھنٹے اور دس کروڑ یونٹوں کی بچت سے کتنی بجلی اور گیس بچ جائے گی!

ٹیلی فون پر کئے جانے والے لا حاصل قسم کے مذاق اور گفتگو میں احتیاط سے آپ کو کسی ضروری فون کو رسیو کرنے میں آسانی ہوگی جو ممکن ہے فون مصروف ہونے کی وجہ سے مس ہوجائے۔ الغرض بچت کوئی ناقابل حل مسئلہ بھی نہیں۔ بس اخلاص عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہر شخص اپنی جگہ یہ سوچ کر عمل پیرا ہوجائے کہ مجھے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں رہے گا۔

بچت خواہ اپنے ذاتی معاملات میں ہو یا قومی ضروریات میں، بہت اچھی عادت ہے۔ اگر ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی فضول خرچیوں، بربادیوں اور بے پروائیوں پر غور کریں تو یہ قومی پیمانے پر مل کر بہت بڑی فضول خرچیاں، بربادیاں اور بے پروائیاں بن جاتی ہیں۔ ہماری اپنی ذاتی توجہ سے ملک کے لاکھوں اندھیرے گھرانوں میں بجلی کی روشنی پہنچ سکتی ہے، پانی اور گیس کی فراوانی ہوسکتی ہے۔ ہزاروں ضرور مند غریبوں کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں۔ آپس میں لوگوں سے مل جل کر خلوص و محبت کے رشتے ناتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم ان باتوں پر عمل پیرا ہوگئے تو اپنے آپ کو پہنچنے والے فیض سے قطعی محروم نہ رہیں گے۔

بیداری

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار

شمشیر کے مانند ہے برّندہ و براق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرہ میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

توبندہ آفاق ہے وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکیٔ فطرت سے ہوا محرمِ اعماق

علامہ اقبالؔ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146