کامیابی، کامیابی، صرف کامیابی۔ دنیا کا ہر انسان اس کی طرف دوڑتا ہے۔ ہر دل میں کامیابی کی خواہش پیدا ہوتی اور پرورش پاتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہ معلوم کتنے پاپڑ بیلتا ہے اور نہ جانے کیا کیا الٹے سیدھے کام کرتا ہے۔ لیکن جب اسے کامیابی کی طرف بلایا جاتا ہے، اور ایک بار نہیں بلکہ دن میں پانچ بار وقفہ وقفہ سے پکارا جاتا ہے، ہر بار دو دو دفعہ صدا دی جاتی ہے۔ لاؤڈ سپیکر سے آواز لگائی جاتی ہے، ’’آؤ کامیابی کی طرف‘‘ توکتنے ہی انسان سنتے ہیں اور سن کر اَن سنا کردیتے ہیں۔
کون پکارتا ہے۔ خدا کے حکم سے رسولؐ کے طریقہ پر موذن پکارتا ہے۔ موذن تو صرف ذریعہ ہے حقیقت میں خدا پکاررہا ہے۔ پھر بھی کیا کامیابی میں شک ہے۔ نہیں نہیں نعوذ باللہ خدا کی پکار میں کیا شک؟ کیا شک و شبہ کرکے ایمان غارت کرنا ہے۔ صد فی صد کامیابی پھر بھی کان بہرے ہوگئے۔ قدم کامیابی کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہہ رہے ہیں۔ باپ، استاد، یار دوست، بیوی بچوں کے کہنے پر یقین رکھتا ہے مگر خدا کی صدا پر یقین نہیں رکھتا جبکہ وہ کہتا ہے :
’’جس نے نیک عمل کیا اور ہو وہ مومن تو ہم اس کی دنیاوی زندگی بھی پاکیزہ گزروائیں گے۔‘‘
کامیابی کی پکار پر لبیک نہ کہنے کا مطلب جانتے ہو کیا ہے؟
صد فی صد ناکامی!
خدا کامیابی کی طرف بلا رہا ہے اور تم مخالف سمت میں جارہے ہو اور پھر بھی کامیابی کی تمنا پال رہے ہو۔
افسوس ہے تمہاری عقل پر۔