جنسی جبلت کے مسئلے کو کسی معاشرتی نظام میں کیسے حل کیا جائے، اس کے متعلق موجودہ دنیا میں دو بنیادی تہذیبی موقف پائے جاتے ہیں۔ ایک موقف کی نمائندگی کی جدید لبرل اخلاقیات میں ہوتی ہے، جس کی رو سے جنس کی تسکین فرد کا ایک ذاتی مسئلہ ہے اور اسے اس کی تکمیل کی آخری حد تک آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ دو افراد، صنف اور مذہب وغیرہ کے امتیاز سے بالکل آزاد ہوکر، باہمی رضا مندی سے جیسے بھی اس کی تکمیل کرنا چاہیں، یہ ان کا حق ہے۔ جنسی جبلت کی تسکین کے علاوہ خاندان بنانے اور بچے پیدا کرنے کی کسی بھی اضافی ذمے داری کو اس کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کا معاشرتی یا قانونی دباؤ بروئے کار نہیں لانا چاہیے۔ گویا جنسی جبلت کی تسکین اور نسل انسانی کی بقا کے مسئلے کو الگ الگ دیکھنا چاہیے اور فرد کی آادی پر مجموعی انسانی مصالح کی پابندی کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ جہاں تک بقائے نسل کا تعلق ہے تو اسے انفرادی ذمے داری کے دائرے سے نکال کر اجتماعی نظام کی ذمے داریوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ برٹرینڈرسل نے اسی تناظر میں یہ تجویز کیا کہ بچے پالنے کی ذمے داری بھی دوسری بہت سی اجتماعی ذمے داریوں کی طرح، اب ریاست کو سنبھال لینی چاہیے۔
دوسرا رجحان قدیم معاشرتی روایات پر مبنی ہے جسے دنیا کی اب تک کی تمام تہذیبوں کی تائید حاصل رہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جنس کا مسئلہ چوں کہ صرف ایک جبلت کی وقتی تسکین کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نسل انسانی کی بقا کا سوال بھی وابستہ ہے، اس لیے اس کا حل معاشرت کی عمومی تشکیل اور اجتماعی معاشرتی ضروریات کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے خاندان کا ادارہ وجود میں آیا جس میں بچے کی تربیت اور پرورش کے حوالے سے ذمے داریوں کی ایک تقسیم اختیار کی گئی۔ خاندان نے وسعت پذیر ہوکر قبیلوں اور برادریوں کی صورت اختیار کی اور ایک معاشرتی نظام وجود میں آیا جو ہم روایتی اور خاص طور پر مشرتی معاشروں میں دیکھتے ہیں۔ برصغیر میں یہ نظام، زرعی معاشرے کی مخصوص ضروریات کے سیاق میں، جن خطوط پر استوار ہوا، اس میں دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند و ناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات اہمیت اختیار کرتی چلی گئیں اور خاص طور پر خواتین کے حق نکاح کو ان کے انفرادی حق سے زیادہ خاندان، قبیلے یا برادری کی ایک اجتماعی ذمے داری تصور کیا جانے لگا۔ اجتماعی ذمے داری کی انجام دہی عملا ایک اجتماعی حق سمجھی جاتی ہے، جس کے مقابلے میں انفرادی حق کا استعمال، حدود سے تجاوز شمار کیا جاتا ہے۔ یوں اس نظام میں فرد کی اور خاص طور پر خواتین کی ذاتی ترجیحات بنیادی طور پر خاندان اور برادری کی ترجیحات کی تابع ہوجاتی ہیں اور دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند و ناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، جن میں کفاء ت یعنی خاندانی برابری اور معاشی اسٹیٹس وغیرہ باقی تمام پہلوؤں پر حاوی رہتی ہیں۔
معاشرت کے اس روایتی ڈھانچے میں بے اعتدالی کے یہ پہلو تو جیسا کہ واضح کیا گیا، موجود تھے اور خاندان اور فرد کے اختیارات کے مابین توازن کا فقدان نمایاں تھا، جس سے خواتین شریعت کے دیے ہوئے ایک اختیار سے عملا محرورم رہ جاتی تھیں، لیکن عفت و عصمت کی حفاظت کا مسئلہ عمومی سطح پر پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جدیدیت کے زیر اثر متعارف ہونے والی نئی روایت کی وجہ سے خواتین کے لیے تعلیم اور گھر سے باہر معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کے مواقع پیدا ہوئے اور خاص طور پر شہری ماحول کی طرف ہجرت کا عمل بڑھا تو کسی قدر کشمکش کی کیفیت کے ساتھ، خاندان اور فرد کے مابین اختیارات کا توازن بھی تبدیل ہونے لگا۔ یوں تعلیم، روزگار، معاشرتی میل جول اور شہری ماحول کے ساتھ تعامل کے تناسب سے خواتین کی پسند و ناپسند کو بھی نسبتاً زیادہ وزن دیا جانے لگا۔
تاہم عمومی تعلیم کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے، جو زیادہ پرانی بات نہیں ہے اور پچھلی دو تین دہائیوں میں ہی یہ ظاہر و زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے، صورتِ حال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حصول تعلیم کے ساتھ معاشی وسائل میں شرکت اور ان دونوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط کے مواقع جڑے ہوئے ہیں، جن کے اثرات لازما خود اختیاری کے احساس میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ پیچیدگی کو بڑھانے والے دو مزید عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ ایک، شہروں میں عمومی تعلیم کی طرف رغبت کے حوالے سے نوجوانوں اور خواتین کی تعداد میں عدم تناست، اور دوسرا صنفی رغبت اور حق خود اختیاری وغیرہ کو ہنگامی انداز میں فروغ دینے میں ہر طرح کے ابلاغی ذرائع کا کردار۔ شخصی رابطے کو آسان بنانے والی جدید ٹیکنالوجی کے اثرات اس پر مستزاد ہیں۔ ان تمام عوامل کے اجتماع کا نتیجہ ایک سنگین صورت حال کی شکل میں سامنے آرہا ہے، جس میں نوجوانی کی عمر کے داعیات، صنفی اختلاط کے مواقع اور جنسی ترغیب کے وسائل کی فراوانی سب کا دباؤ ایک طرف ہے، جب کہ مذہب و اخلاق کے تقاضے اور خاندانی ومعاشرتی روایات اس کے بالکل مخالف پاپندیاں عائد کرتی ہیں۔ کشمکش کے اس عبوری مرحلے میں نوجوان نسل نہ تو خاندانی معاشرت کے سانچے میں فٹ ہو پا رہی ہے اور نہ مکمل طور پر اس کے آزاد ہو جانے کو ہی ممکن پاتی ہے اور اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر نفسیاتی فرسٹریشن اور غیر اخلاقی وغیرہ صحت مندانہ رجحانات کے پنپنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
گویا صورت حال یوں ہے کہ عمر کے طبعی تقاضوں اور ماحول کی ترغیبات کا مطالبہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، اخلاقی و مذہبی حدود میں جنسی تسکین کی سہولت نوجوانوں کو دستیاب ہو اور مذہب کی تعلیمات مکمل طور پر اس بندوبست کی تائید میں کھڑی ہیں، لیکن معاشرتی روایات اس مطالبے کا ساتھ دینے سے قطعی طور پر قاصر ہیں۔ چوں کہ خاندانی نظام مضبوط ہے اور خاندان کے اندر وہی اقدار بھی تک حاکم ہیں جو صدیوں میں مستحکم ہوئی ہیں، اس لیے نوجوان نسل خاندان اور معاشرے کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے پر مجبور ہے۔ جبلت، مذہب اور اخلاق، تینوں کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی اور اخلاقی جواز کی کم سے کم لازم شرائط پر جنسی تسکین کے مسئلے کا حل نکالا جائے، لیکن معاشرتی روایات کا اصرار برقرار ہے کہ
٭ شریک حیات کے انتخاب کا حتمی حق نوجوانوں کو نہیں والدین کو ہے۔
٭ انتخاب خاندان، براری، معاشی اسٹیٹس وغیرہ کی تمام روایتی چھلنیوں سے گزار کر رہی کیا جائے گا۔
٭ بہن بھائیوں میں بڑی بہنوں کی شادی لازما پہلے اور چھوٹی بہنوں کی بعد میں ہوگی، نیز اگر بھائی بڑا اور بہنیں چھوٹی ہیں تو بہنوں کے بیاہے جانے تک بھائی نابالغ ہی شمار کیا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ مذہب اور اخلاق نے فطری جبلت کی جائز تسکین اور عفت کی حفاظت کی جو بنیادی ترجیح متعین کی تھی، ہماری معاشرتی روایات اس سے بالکل الٹ ترجیحات پر استوار ہیں اور ہمارا مائنڈ سیٹ فطری ضروریات اور مذہب و اخلاق کی قیمت پر ان ترجیحات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
خاندانی اسٹرکچر اور معاشرتی روایات کی مجموعی صورت حال میں فرد کی پسند و ناپسند اور اس کی ایک بنیادی جبلی و سماجی ضرورت کس طرح نظر انداز بلکہ مجروح ہو رہی ہے، یہ دیکھنے کے بعد اب کچھ معروضات اس حوالے سے پیش کی جاتی ہیں کہ سماجی اصلاحات کا رخ اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور اس میں کن طبقات کا کیا کردار بنتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس حوالے سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرت کے کسی مخصوص سانچے کوفی نفسہ یا کلی طور پر مطلوب یا اس کے برعکس، کلی طور پر مسائل و مشکلات کی جڑ قرار دینا دانش مندی نہیں بلکہ ردعمل کی نفسیات کا مظہر ہوتا ہے۔ سوشل اسٹرکچرز بنیادی طور پر معاشرے کی مجموعی بقا استحکام کی غرض سے بنائے جاتے ہیں اور مخصوص تاریخی اور تمدنی حالات میں انسانوں کے عمومی تجربات اور اجتماعی بصیرت سے ایک خاص شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ اسٹرکچرز جن مصالح کی رعایت سے بنائے جاتے ہیں، ان میں اور بدلتے ہوئے حالات میں عموما ایک مناسب توازن پایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جزوی سطح پر ضروری تبدیلیوں اور ارتقا کا عمل بھی غیر محسوس سے انداز میں جاری رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل ہمیشہ اتنا ہموار نہیں ہوتا، اور بعض تاریخی انقلابات بنے ہوئے اسٹرکچرز کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں یا ان میں بہت جوہری قسم کی تبدیلیوں کے مطالبے کو جنم دے سکتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر روایتی طور پر چلے آنے والے سانچے اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرنے میں سب سے زیادہ بصیرت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے ہماری موجودہ معاشرت کو بھی اسی نوعیت کی ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام، معاشرت کے جس سانچے کے لیے اصلا وضع کیا گیا تھا، وہ دیہی اور زمیندارانہ معاشرت تھی جو جدید شہری ماحول میں اپنی تمدنی اساسات رفتہ رفتہ کھو رہی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کئی طرح کی قدغنوں اور پابندیوں سے عبارت ہے جو افراد کو ان فوائد کے بدلے میں قبول کرنی پڑتی ہے جو اس نظام سے انھیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ایک پورا ماحول ہوتا ہے جس میں ایک خاص نہج پر افراد کی نفسیات اور ذہنی رجحانات کی تشکیل کا بھی ابتدا ہی سے بندبست موجود ہوتا ہے۔ جدید شہری ماحول میں یہ دونوں عوامل، یعنی اجتماعی فوائد اور ذہنی تربیت اپنی اصل شکل اور اصل قوت برقرار نہیں رکھ سکتے، چنانچہ ایک بدلے ہوئے ماحول میں نئی نسل پر وہ پابندیاں عائد کرنا بھی عملا ممکن نہیں رہا جو روایتی طور پر کی جاسکتی تھیں اور اگر اس کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ بغاوت اور گھریلو انتشار کی صورت میں نکلناناگزیر ہے، ساس اور بہو کے تنازعات، نندوں اور بھاوجوں کے جھگڑے، بھائیوں کے باہمی اختلافات، بیشتر صورتوں میں اسی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ حکمت اور مناسب تدریج کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام سے نیو کلیئر فیملی کی طرف انتقال کی راہ ہموار کی جائے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے معاشرتی مصلحین نے تقریبا ایک صدی قبل اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے بہت زور دے کر یہ بات کہنا شروع کردی تھی کہ شادی کے بعد نوجوان جوڑے کو الگ گھر میں بسنے اور نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
اس بنیادی نکتے کے ساتھ کہ معاشرتی سانچے فی نفسہ مطلوب و مقصود نہیں ہوتے، بلکہ فرد اور معاشرہ کے مصالح کو معروضی حالات میں خاص اصول و قواعد کے تحت یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں، ایک دوسرا اہم نکتہ یہ بھی شامل کرلینا چاہیے کہ ایک خاص طرح کی لچک، رنگا رنگی اور تنوع بھی معاشرتی سانچوں کا حصہ ہوتا ہے جو مصالح کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔ ان دو نکتوں کی روشنی میں سب سے بنیادی غلطی جس سے اجتناب ہمارے لیے ضروری ہے، یہ ہوگی کہ ہم روایتی سانچوں کو ایک قلم اور بالکلیہ منبع فساد قرار دے دیں اور مختلف قسم کے فلسفوں کے زیر اثر جو بنیادی طور پرنہ تو ہمارے معاشرتی سوالات کا کوئی داخلی رسپانس ہیں اور نہ ہمارے حالات سے فطری مناسبت رکھتے ہیں، کسی یک رنگ اوریکسانی کے عکاس نئے معاشرتی سانچہ کو نسخہ کیمیا سمجھنا شروع کردیں۔
اگر سماجی اصلاح کے یہ مفروضے درست ہیں تو رایتی معاشرت اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں روایتی خاندان کا ڈھانچہ مجموعی طور پر اب بھی ان مصالح کو پورا کر رہا ہے، جن کی اس سے توقع کی جاتی ہے، کہاں اس ڈھانچے میں معاشرتی رویوں یا قانونی اصلاحات کی سطح پر جزوی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، کہاں اس ڈھانچے میں اور نئی تبدیلیوں میں فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ جزوی ترمیم و اصلاح کارگر نہیں ہوسکتی، اور کہاں صورت حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ سرے سے کوئی ڈھانچہ باقی ہی نہیں رہا اور کوئی مناسب ڈھانچہ وجود میں لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ گفتگو اساسی طور پر معاشرے کی سطح پر فرد اور معاشرے کی فطری ضروریات کے تناظر میں ہونی چاہیے جس کی ترجیحات ریاستی طاقت اور قانونی بندوبست کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہوں گی۔
اس کام کے لیے اگر عمومی سماجی شعور کو بہتر بنانے اور افادیت کھو دینے والی معاشرتی رسوم و عادات میں تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے لوگوں میں ذہنی آمادگی پیدا کرنے کو بنیادی ترجیح بنایا جائے اور وہ تمام طبقات جو رائے عامہ کی تشکیل میں کسی بھی پہلو سے اور کسی بھی نوعیت کا کردار ادا کر سکتے ہیں (مثلا علماء، اساتذہ، سیاسی قائدین، اہل ثروت ذرائع ابلاغ سے وابستہ حضرات) اس میں حصہ ڈالنے کو اپنی ذمے داری تصور کریں تو مطلوبہ معاشرتی اصلاحات کرنا ہمارے نزدیک پوری طرح ممکن ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالے سے اصلاحی مساعی کو درج ذیل پہلوؤں پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے:
٭ ایسے والدین جو مالی طور پر آسودہ ہیں، انھیں ترغیب دی جائے کہ بچے بچیوں کی شادی کو رسمی تعلیم سے فراغت یا روزگار کے استحکام تک موخر نہ کریں، بلکہ اس معاملے میں بنیادی ترجیح مناسب عمر اور فطری و طبعی تقاضوں کو دیتے ہوئے دوران تعلیم ہی شادی میں ان کی مدد کریں اور عبوری دور کے لیے نوجوان جوڑے کے اضافی اخراجات کی ذمے داری اسی اسپرٹ کے ساتھ اٹھائیں جس کے ساتھ وہ ان کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
گھر بسانے میں نوجوانوں کو مالی اعانت فراہم کرنے کو انفاق اور صدقہ و خیرات کی معاشرتی ترجیحات کا حصہ بنایا جائے۔ خلافت راشدہ کے عہد میں بیت المال کے اخراجات کی مدات میں اسے ایک اہم مد کی حیثیت حاصل تھی اور آج بھی حکومتی وسائل کی تخصیص کرتے ہوئے اسے ایک بنیادی مد کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔ مختلف کاروباری یا فلاحی ادارے جس طرح بچوں کی تعلیم، خوراک، شجرکاری، علاج معالجہ اور سماجی بہبود کے دیگر کاموں کے لیے وسائل مختص کرتے ہیں یا حصول تعلیم کے لیے طلبہ کو وظائف مہیا کرتے ہیں، اگر انھیں توجہ دلائی جائے تو نوجوان جوڑوں کی معاونت کے لیے بھی مناسب وسائل فراہم ہوسکتے ہیں۔ حکومتی یا نجی سطح پر جس طرح یتیم بچوں اور بے سہارا خواتین یا بزرگوں کے لیے ریائشی انتظامات کیے جاتے ہیں، شادی کے خواہش مند نوجوان جوڑوں کے لیے بھی اس طرح کی سہولیات کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
٭ رشتوں کے انتخاب کے حوالے سے والدین کو روایتی معاشرت کی طرف سے جس نوعیت کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، عموما اس کو نظر انداز کر کے نئی نسل کی مصلحت کو ترجیح دینا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی اثر و رسوخ رکھنے والے مختلف طبقات اپنے اپنے دائرہ اثر میں، نوجوان بچوں اور بچیوں کو رشتہ ازدواج میں بندھنے میں مدد دینے کو اپنی ترجیح بنائیں اور دباؤ یا دیگر عملی مشکلات کا سامنا کرنے میں والدین کا سہارا بنیں۔
٭ ایک بہت بڑی تعداد میں ایسی خواتین موجود ہیں جن کے کے لیے شادی کی مناسب عمر گزر جانے کی وجہ سے ان کی یا خاندان کی توقع کے مطابق اچھے رشتے ملنا عملا بہت مشکل ہے۔ ایسی خواتین اور ان کے اہل خانہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ کہ وہ دوسری بیوی کے طور پر شادی شدہ حضرات کے ساتھ زندگی گزارنا قبول کریں، معاشرتی ماحول میں بھی اس رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ کثرت ازدواج کی شرعی رخصت سے حسب مصلحت، معاشرتی مسائل کے حل کے لیے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے لیے مناسب مالی حیثیت رکھنے والے حضرات کو ترغیت دینے کے علاوہ خواتین میں اس حوالے سے حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کو بھی موضوع بنانے اور تعلیم و تبلیغ کے ذریعے سے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی ذمے داریوں کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ اس سلسلے کا ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ نکاح کے رشتے سے وابستہ کی جانے والی توقعات اور علیحدگی کے متعلق پائی جانے والی انتہائی حساسیت کو بھی معاشرتی تربیت کے ذریعے سے اعتدال پر لانے کی ضرورت ہے۔ یہ حساسیت زمین دارانہ سماج کے مخصوص ماحول میں پختہ ہوجانے والی حساسیتوں کی باقیات ہے جس میں خاص طور پر عورت کی طرف سے رشتہ نکاح کے خاتمے کی خواہش کو انتہائی معیوب تصور کیا جاتا ہے اور طلاق گویا عورت کے دامن پر ایک دھبے کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ اس عمومی سوچ کے زیر اثر طلاق، ایک طرف خواتین پر تباہ کن نفسیاتی اثرات مرتب کرتی ہے اور دوسری طرف ان کے اہل خانہ کو ایک سنگین آزمائش میں مبتلا کردیتی ہے۔ چنانچہ اہل خانہ اپنا سارا دباؤ خواتین کی طرف منتقل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ساری اذیت خود برداشت کر کے اپنے آپ کو اور انھیں بھی اس ابتلا سے حتی الوسع محفوظ رکھنے کی کوشش کریں جس سے طلاق کی صورت میں انھیں دو چار ہونا پڑے گا۔ قطع نکاح کی صورت میں خاندانوں اور برادریوں کے تعلقات کا دشمنی میں بدل جانا اور مطلقہ کے لیے نئے نکاح کے محدود امکانات بنیادی طور پر اسی صورت حال کے لوازم اور نتائج ہیں۔
یہاں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دینی نصوص میں طلاق کے مبغوض ہونے کی بات انفرادی اخلاقیات سے متعلق ہے نہ کہ معاشرتی رویوں کی تشکیل ہے۔ یعنی رشتہ نکاح میں بندھے ہوئے مرد اور عورت کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کریں اور بلاوجہ یا معمولی وجوہ سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ عمومی رویے اس طرح تشکیل پاجائیں کہ طلاق کو ایک معاشرتی عیب تصور کیا جانے لگے اور اس کے اثرات فریقین اور ان کے خاندانوں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں جس طرح ہمارے ہاں عموما لے لیتے ہیں۔ اس سوچ کے ازالے کے لیے عہد نبوی و عہد صحابہ کی معاشرت کا مطالعہ بہت مفید ہوگا جہاں تبدیل نکاح ایک عام معمول دکھائی دیتا ہے اور کم و بیش ہر صحابی یا صحابیہ کے حالات میں ایک کے بعد دوسرے یا دوسرے کے بعد تیسرے نکاح کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس معاشرت کی جھلک آج کے عرب معاشرے میں بھی کافی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں بھی معاشرت کے ایک سانچے سے دوسرے سانچے میں منتقل ہونے کے اس مرحلے میں ذہنی و نفسیاتی تربیت کے لیے ان نمونوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسی سماجی فکر تشکیل دی جائے جو جدید معاشرتی حالات کے لحاظ سے رشتہ نکاح کے مصالح و مقاصد کی بہتر انداز میں تکمیل کرسکیں۔
(ماہنامہ ’الشریعہ‘ سے ماخوذ)