ظاہری حسن اور خوبصورتی نہیں، دیدہ زیب خدو خال نہیں بلکہ وہ خوبیاں جو انسان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہیں، شخصیت کی اصل خوبصورتی ہیں۔ حسنِ سلوک، حسن کردار اور حسنِ عمل جو دوسرے انسانوں کو متاثر کرتا ہے، شخصیت کا حقیقی حصہ ہوتا ہے۔ دوسروں کو خوش رکھنا، دوسروں کی خدمت کرنا، دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا، دوسروں کو حوصلہ دینا، دوسروں کے کام آنا اور دوسروں پر اپنے سلوک و عمل سے اچھا تاثر ڈالنا ہی اصل شخصیت ہے۔ آسان الفاظ میں تعاون — اور زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرنا شخصیت کا حقیقی روپ ہے۔
آپ نے خود تجربہ کیا ہوگا کہ یہ صفات کس طرح لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ایک انتہائی خوبرو شخص اگر بدمزاج اور مغرور ہو تو محفل میں بدمزگی، نفرت اور تلخی کا تاثر چھوڑ کر جاتا ہے۔ اس کے برخلاف عام شکل و صورت کے باوجود ہنس مکھ، ملنسار اور منکسر المزاج شخص خوشگوار اور دیرپا تاثر پیدا کرتا ہے۔
جو لوگ زندگی کے اس راز کو سمجھتے ہیں، وہ دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہتے۔ وہ ہم آہنگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹتے ہیں اور ان کی مسرتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کی شخصیت میں ایک ایسی کشش اور دلکشی پیدا ہوتی ہے جو انہیں سماج میں ہر دلعزیز بناتی ہے اور وہ خود بھی خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔
کمتری
یعنی سماج میں اپنے مقام کو پہچاننے کی اہلیت سے محرومی اور یہ حقیقت قبول کرنے سے انکار کہ اس اہلیت کی کمی ساری محرومیوں کی بنیاد ہے۔ اس کا ابتدائی علاج یہ ہے کہ زندگی کے حلقے کو وسیع کیا جائے اور اس کے مرکز سے دور ہونے کی بجائے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے۔
پہلے آئیے ’’کامپلیکس‘‘ پر ایک نظر قریب سے ڈالی جائے۔
کامپلیکس ملے جلے جذبات کے مجموعے کا نام ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہم بہت سارے خیالات کو اپنے ذہن میں مجتمع کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنی یادداشت میں محفوظ کرلیں۔ ایک خیال دوسرے سے مربوط ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ایک کو یاد کرتے ہیں تو دوسرا خود بخود یاد آجاتا ہے اور ہمارے گذشتہ تجربات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
میرا ایک دوست جو اپنی ذہانت، حاضر دماغی اور قابلیت کی بنا پر آج ایک بہت بڑا تاجر ہے۔ ماضی کے ایک تجربے سے اتنا زیادہ متاثرہے کہ ٹرین پر سفر نہیں کرسکتا۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ بچپن میں ایک مرتبہ ٹرین کے سفر کے دوران اس کی طبیعت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اب ٹرین پر سفر کا خیال آتے ہی لاشعور میں دبا ہوا وہ خوف تازہ ہوجاتا ہے اور وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر کے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ اپنی منگیتر (خود بھی لیڈی ڈاکٹر ہے) کے ساتھ جہاز میں سفر کے لیے سوار ہوا۔ جہاز روانہ ہونے سے پہلے اچانک منگیتر نے سینے میں شدید درد کی شکایت کی اور جہاز سے اترنا چاہا۔ ڈاکٹر نے اسے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں میں دوا دیتا ہوں ابھی طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔ اس نے اپنی تمام جیبیں ٹٹول ڈالیں کہ شاید کوئی گولی مل جائے اور پھر مایوس ہوکر قمیص کا بٹن توڑا اور منگیتر کے منہ میں رکھ دیا ’’اسے چوستی رہو درد نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے یقین دلایا۔ حیرت انگیز طور پر لڑکی کی صحت بحال ہوگئی۔ بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ وہ گولی نہیں بٹن چوستی رہی تر بڑی حیران ہوئی۔
اپنے لاشعور میں چھپے ہوئے خوف کی بنا پر ہم اکثر ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں جس کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ دوسروں کے تعاون اور سلوک پر فراخ دلی کے ساتھ اظہار تشکر کو عادت بنالیا جائے۔ شکر گزاری ہمیں زندگی سے قریب تر لے جاتی ہے۔ خود پسندی اور خود احساسی سے نجات دلاتی ہے۔ ’’آپ کا شکریہ‘‘، ’’مہربانی‘‘ یہ ایک جادو اثر جملہ ہے۔ یہ ہر دلعزیز اور مقبولیت کا راز ہے اور کمتری کے احساس سے نجات کا آسان ترین ذریعہ ہے۔
یہ طریق عمل دوسروں کی حقیقی ستائش میں شمار ہوگا یا محض ان کی ہمدردی حاصل کرنے اور اپنا ممنون بنانے کا ایک ذریعہ؟ اس بات کا جواب دینا دشوار ہے کیونکہ یہ بہر کیف دوسروں کی قربت اور توجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔
¿ کیا میں ’’بگڑا ہوا‘‘ بچہ تھا؟
¿ کیا میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ گھر والے مجھ سے نفرت اور نامہربانی کا سلوک کرتے تھے؟
¿ کیا میں سزا پر برہمی و ناراضگی کا اظہار کرتا تھا؟
¿ کیا میں لاشعوری طور پر لوگوں کو اپنا مطیع بنانے اور دوسروں پر حکم چلانے اور ان سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہوں؟
¿ کیا میری یہ عادت خود اعتمادی کے سبب ہے یا عدم اعتماد کی بنا پر؟
¿ کیا میں اپنے اہل خاندان، دوستوں، اساتذہ، نوکروں اور شناساؤں سے ناراض رہتا ہوں؟
¿ کیا بچپن میں مجھے کسی قسم کی جسمانی یا ذہنی کمتری کا احساس رہتا تھا؟
¿ کیا مجھے بچپن میں والدین بھائی بہنوں کی عدم توجہ اور عدم التفات کی شکایت رہتی تھی؟
¿ کیا میں اپنے والد یا والدہ سے حسد کرتا تھا؟
¿ کیا میں اپنے والدین کا چہیتا بیٹا تھا؟
ان سوالات کے ذریعہ آپ باآسانی اپنا نفسیاتی تجزیہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح جو خود آگاہی حاصل ہوگی وہ بڑی طمانیت پیدا کرے گی۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ عدم تحفظ اور بد دلی کے جس احساس میں آپ مبتلا ہیں، اس کا تعلق موجودہ حالات سے نہیں بلکہ یہ بچپن کے تجربات کا ردعمل ہے۔ اس طرح آپ خود ترسی کے اندھیرے سے باہر نکل کر اپنی حقیقی شخصیت کو پہچان سکیں گے۔
احساس برتری
برتری کا احساس کرنا کوئی بری عادت نہیں ہے۔ یہ ایک قدرتی جبلّت ہے۔ لیکن سوال یہ کہ برتری کس شخص پر یا چیز پر؟
¿ دوسروں پر سبقت لے جانے کے لیے؟
¿ زندگی کے کھیل میں ان کو شکست دینے کے لیے؟
¿ دوسروں کی نسبت زیادہ حاصل کرنے کے لیے؟
¿ دوسروں کو قابو کرنے کے لیے؟
¿ ہمدردی کا جذبہ پیدا کرکے ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے؟
¿ ہر کام میں سب پر اولیت حاصل کرنے کے لیے؟
لیکن ان میں کوئی بھی چیز حقیقی برتری عطا نہیں کرسکتی۔ ان میں سے کسی بھی کوشش میں ناکامی، کسی بھی مقصدکی تکمیل میں محرومی شدید رد عمل پیدا کرتی ہے اور برتری کے حصول کے بجائے ہم الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ درحقیقت یہ ساری خواہشات دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنی انا کی تسکین کے لیے پیدا ہوتی ہیں۔
دوسروں کو اپنا محتاج اور غلام بنانے کی خواہش کا سبب بچپن کا احساس محرومی، اسکول میں ناکامیوں کا سامنا، حد سے زیادہ انکساری، ہکلا پن، مالی خولیا یعنی حد سے زیادہ حزن و ملال یا کوئی جسمانی معذوری ہوسکتا ہے۔
ایسے افراد کے علاج کے لیے لازم ہے کہ ان کی کمزوری کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایسے لوگ بے حد حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بڑی خوش اسلوبی اور موقع شناسی کے ساتھ ان کی کوتاہی کا احساس دلایا جائے مثلاً ہکلے کو یہ بتایا جائے کہ بولنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرو تو حماقت ہوگی کیونکہ یہ اس کے مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
اس لیے ضرورت ہے کہ الجھن کا اصل سبب معلوم کیا جائے اور پھر مریض کا اعتماد بحال کیا جائے۔ اس کی شخصیت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسے یہ احساس دلایا جائے کہ دوسروں پر سبقت لے جانا دوسروں کو شکست دے دینا برتری کی علامت نہیں۔ حالات پر قابو پالینا، خامیوں کو دور کرلینا، خوبیوں کو پیدا کرلینا اور دوسروں کو خوش رکھنے کی صلاحیت پیدا کرلینا اصل برتری ہے۔ ایک مرتبہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد طرز عمل میں تبدیلی آجائے گی۔
لوگ اس لیے کمزور نہیں کہ وہ کمزور رہنا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کمزور ہیں کیونکہ وہ اپنی قوت کے سرچشمہ سے لاعلم ہیں۔ بیشتر خارجی پابندیاں ایسی ہیں جو آپ نے خود اپنی ذات پر عائد کررکھی ہیں۔ لیکن آپ کی حقیقی شخصیت ان جھوٹے سہاروں کی محتاج نہیں ہے۔ آپ اپنی حقیقی شخصیت میں ہی ہر طرح سے موزوں اور اہل ہیں۔
برتری حاصل کرنے کی خواہش انسان کی جبلت میں شامل ہے اور سچ پوچھئے تو یہ فطرت کی سب سے طاقتور اور مؤثر تحریک ہے۔ اگر یہ قابو میں رہے اور تعمیری مقاصد کے لیے وقف کردی جائے، تو وہ محرک اور قوت ہے جس نے عظیم انسان پیدا کیے۔ عظیم فنکار، عظیم موسیقار، عظیم اساتذہ، عظیم دانشور اسی قوت اور جبلت کی پیداوار ہیں۔
لیکن برتری حاصل کرنے کی جبلت کبھی کبھار ناخوشگوار انجام سے بھی دوچارکرتی ہے۔ میں ایک ایسے شخص سے بھی واقف ہوں جو صرف نمود حاصل کرنے کے لیے دروغ گوئی کرتا ہے۔ اس کو جھوٹ بولنے میں اتنی مہارت تھی کہ دور دور تک اس کو شہرت حاصل ہوگئی تھی لیکن اگر اس کو برتر تسلیم کرلیا جائے تو زندگی کا مقصد ہی بدل جائے گا۔
کامپلیکس اچھا اور برا دونوں ہوسکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اسے کس طرح بروئے کار لاتے ہیں؟ تعمیری مقاصد کے لیے اسے استعمال کریں تو یہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے اور منفی مقاصد کی راہ اختیار کریں تو تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس لیے قصور کامپلیکس کا نہیں ہمارا ہے، ہمارے سمجھنے کا ہے۔ احساس، برتری کا ہو یا کمتری کا دونوں کے سلسلہ میں یہی اصول پیش نظر رکھا جائے۔
زندگی کا لطف صرف زندہ رہنے میں ہے۔ اپنے آپ میں رہیے۔ اپنے مقصد کے لیے سرگرم عمل رہیے۔ اس بات کی فکر کیجیے کہ دوسرے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ آپ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ آپ کو برتر سمجھتے ہیں یا کمتر۔ توجہ صرف اس کام پر دیجیے جسے آپ نے مقصد حیات بنایا ہے۔ آپ ہمیشہ خوش رہیں گے کیونکہ حقیقی مسرت اپنے کام اور اپنے مقصد حیات میں کامیابی کا ثمر ہوتی ہے۔
’’ہر فتح مندی، ہر کامرانی اور ہر کامیابی سے پہلے ایک جنگ لازم ہوتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ جنگ سے پہلے ہی فتح کی تمنا کرتے ہیں۔‘‘
’’عظیم تر کامیابی اس میں نہیں کہ آپ کبھی شکست نہ کھائیں بلکہ ہر ناکامی کے بعد پھر کامیابی کے لیے جنگ کرنے کے جذبے اور حوصلے میں ہے۔‘‘
’’کامیابی کی سچی مسرتوں سے صرف وہی ہمکنار ہوتے ہیں جنھوں نے ناکامیوں سے گزر کر اور ان پر عبور حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہو۔‘‘