مشینوں کی گڑگڑاہٹیں اور تیز ہوگئیں۔ چہروں پر گھبراہٹوں کی دھند چھاگئی۔ پسینے کے قطرے پیشانیوں پر اور نمایاں ہوگئے۔
’’آپ نے اپنی رپورٹ مکمل کرلی؟‘‘
’’جی!‘‘
’’اور تصاویر بھی لے لیں۔ اس جگہ کا سروے کیا تھا۔‘‘
’’جی — سب مکمل ہے۔‘‘
’’بہت اچھا جلدی کیجیے۔ کاپی پریس بھجوائیے۔ جلدی بہت جلدی۔ کچھ ٹھیک نہیں کب پھر موت کا الارم سنائی دینے لگے۔ کب پھر یہ بادل برسنے لگے۔‘‘
’’جی!‘‘
یہ اخبار کا دفتر ہے۔ یہ امن و سلامتی کا چمن ہے۔ یہ جنگ کا میدان ہے۔ یہاں سے بھائی چارہ اور انسانیت کا علم بلند کیا جاتا ہے۔ یہاں پیارو محبت کا سبق سنایا جاتا ہے۔ یہاں انسان کو انسان بننا سکھایا جاتا ہے۔ اور انسان کو گلا کاٹنے کا فن بھی۔
کٹ۔ کٹ۔ کٹ۔کٹ
ٹیلی پرنٹرز پر خبریں لمحہ بہ لمحہ موصول ہورہی ہیں۔ ٹیلی فون کی گھنٹیاں برابر بج رہی ہیں۔ بے جان کاغذوں پر انگلیاں تیزی سے دوڑ رہی ہیں۔ رپورٹیں لکھی جارہی ہیں۔ جنگ کی ہولناکی کی تصویریں کھینچی جارہی ہیں۔ تباہی و بربادی کی داستانیں مرتب ہورہی ہیں۔ جلدی کرو، جلدی کرو۔
ہاں جلدی کرو۔ تباہی کی داستانیں جلدی مرتب کرو۔ انسان کی خونخواری اور درندگی کو صفحہ قرطاس پر محفوظ کرلو۔ حیوانوں کو سامنے لے آؤ۔ اور انسانوں کو چھپادو۔ دفنا دو۔ ہمیشہ کے لیے۔ ہاہاہاہا —کٹ—کٹ—کٹ— جنگ— تباہی—بربادی— ہولناکی— سفاکی اور دردندگی۔
ٹیلی پرنٹرز چلتے رہے۔ حیوانوں کی داستانیں لکھی جاتی رہیں۔ اور انسان دفنایا جاتا رہا۔ اور مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور تیز ہوگئی — اور تیز — تیز تر۔
میں نے تیزی سے اخبار ’’الاہرام‘‘ کے دفتر کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل آیا۔
اُف! سربری طرح چکرارہا تھا۔ نظروں کے سامنے ہر چیز گھوم رہی تھی۔ اور پیر لڑ کھڑارہے تھے۔ اڑتالیس گھنٹے کی مسلسل دوڑ دھوپ کے بعد اب فرصت ملی تھی۔ جنگ کے دنوں میں ہر چیز مشین بن جایا کرتی ہے۔ ہر شے بم اور مشین گن کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بھی مشین بن جاتا ہے جس میں سے انسان نہیں حیوان ڈھل ڈھل کر نکلتے ہیں۔ اور پھر ایک اخبار رپورٹر حیوانوں کی خوفناک درندگی کی داستان مرتب کرنے والا۔
یہاں جنگ ہے۔ لڑائی ہے۔ تباہی و بربادی کے خوفناک مظاہر ہیں۔ ظالم کے ہوائی جہازوں کی اندھا دھند بم باری ہے۔ بموں اور مشین گنوں کا راج ہے۔ یہاں ویرانی کا ڈیرا ہے۔ سکوت کی حکمرانی ہے اور موت کا سکہ۔ شہر کی شاندار اور چوڑی سڑکیں خوف و ہراس میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ان میں بموں سے مہیب اور ہیبت ناک غار بن گئے ہیں۔ فلک بوس اور عظیم عمارتیں خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ یہاں کے نخلستانوں میں آگ لگ چکی ہے اور وہ بے برگ و گیاہ صحراؤں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ کھجور کے ٹھنڈے درختوں میں سے شعلے نکل رہے ہیں اور ان میں لگی ہوئی میٹھی اور عنابی کھجوروں میں سے شہد کے بجائے زہر ٹپکنے لگا ہے۔ خنک ہوائیں ریت کے گرم بگولوں میں تبدیل ہوگئی ہیں ٹھنڈے اور سبک رفتار دریاؤں کی لہروں میں اژدہوں کی پھنکار ہے۔
یوسفِ مصر کے لیے پھر ایک زندان تعمیر ہورہا ہے، اور ایک فرعون پھر جاگ رہا ہے۔
میں تھکے تھکے قدموں سے چلتا گیا — آگے بڑھتا گیا — فلک بوس عمارتوں کے ڈھیر میرے پیروں تلے آتے رہے، بے برگ اور ادھ جلے درختوں میں سے گزرتا رہا۔ جھلسی ہوئی پتیاں منتشر ہوتی رہیں۔ گرم اور سنسان ہوائیں رینگتی رہیں، اور ٹوٹے ہوئے حسین مجسمے اپنی ویرانی پر آنسو بہاتے رہے۔ کیا یہ وہی شہر ہے؟ جہاں بلند عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ کیا یہ وہی کھجوریں ہیں، جن سے زہر نہیں بلکہ امرت ٹپکا کرتی تھی؟ میں چلتا رہا — اور میرے ساتھ میرا ذہن اور میرا خیال بھی پرواز کرتا رہا۔
’’یہ بغداد ہے — شاندار اور فلک بوس عمارتوں والا۔ چوڑی چکلی سڑکوں والا۔ ہرے بھرے درختوں میں عنابی کھجوروں کے خوشے لٹک رہے ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ فرات کے نیلے اور گہرے پانی میں شراب کی سی مستی ہے۔ جگہ جگہ حسین مجسمے ایستادہ ہیں۔ رونق ہے، گہما گہمی ہے، چہل پہل اور زندگی ہے اور حسن ہے۔ حسن جو روونؔ کے مجسمے ’’بوسہ‘‘ میں ہے۔ شاہ جہاں کے دھڑکتے ہوئے دل ’’تاج محل‘‘ میں ہے۔ یہ میکائیل انجلو کی ’’مریم‘‘ میں ہے اور غالبؔ کے شعر میں ہے۔
کوئی تیرہ سال پہلے جب میں حسین پہاڑیوں سے گھرے ہوئے شہر بیروت سے ہوتا ہوا ’’الاہرام‘‘ کا خاص رپورٹر ہوکر یہاں آیا تھا تو میں نے اس کو بہت ہی خوبصورت پایا تھا۔ اس سفر میں میجر قراحصار بھی میرے ساتھ تھا جو ایک فوجی افسر تھا۔ ہم دونوں کی دوستی شہر کے ایک خوبصورت کیفے میں ہوئی تھی۔ جبکہ میں برآمدے میں بیٹھا ہوا خیالات میں مگن تھا۔ اور اب جب کہ عراق پر جنگ کے سائے پھر امڈے پڑ رہے ہیں مجھے بغداد بھیجا جارہا ہے تاکہ میں جنگ کی رپورٹنگ کروں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا قصور صرف یہ ہے کہ گذشتہ جنگ میں میری رپورٹنگ کی تعریف کی گئی اور کیوں نہ کی جائے میں نے قدم قدم جان پر کھیل کر یہ فریضہ ادا کیا تھا جس کا انعام مجھے یہ مل رہا ہے کہ میں پھر ایک بار موت کے دہانے پر بھیجا گیا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار میرے ساتھ لوسی نام کی ایک مصری لڑکی بھی ہے جو کافی دلیر اور ایڈانچرس ہے۔
ایک جیپ نے قریب آکر زور سے بریک لگایا۔ اور ایک فلک شگاف قہقہہ فضا میں بکھر گیا۔ یہ میجر قراحصار تھا۔
کیفے میں قہوہ پینے کے بعد میں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ کل ہمارے کمرے پر آئے گا۔ جہاں میں، وہ اور لوسی مل کر شام کا قہوہ پئیں گے۔ ہنستے ہوئے اس نے فوجی ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔
دوسرے روز شام کو میں اور لوسی اس کا انتظار کررہے تھے۔ لوسی کا کمرہ بھی میرے کمرے کے برابر ہی تھا۔ میں نے اندازہ کیا کہ مجھ سے زیادہ لوسی کو میجر قراحصار کا انتظار ہے۔ سورج مغرب کی طرف جھک چلا تھا کہ میجر کی جیپ کا ہارن سنائی دیا اور دو ہی منٹ بعد وہ ہمارے درمیان تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ میں زیادہ لیٹ تو نہیں۔‘‘ اس نے قہوہ کے تیار سامان کی طرف نظر ڈالتے ہوئے کہا:’’تھوڑے بہت میجر۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’کوئی بات نہیں، اگر آپ قہوہ پی چکے ہیں تو میں مس لوسی کا حصہ پی سکتا ہوں۔‘‘ اس نے لوسی پر نگاہ ڈالی۔ ’’کیوں مس لوسی؟‘‘
’’میں بھی اپنا حصہ ختم کرچکی ہوں۔‘‘ لوسی نے بھی شوخی سے جواب دیا۔ ’’آپ کے لیے ٹھنڈا پانی حاضر ہے۔‘‘
قہوہ پینے کے دوران میجر پھر بولا۔
’’مس لوسی! یہ تو بتائیے کہ ورڈس ورتھ کے کیا حال ہیں؟‘‘
’’ورڈس ورتھ؟ کون ورڈس ورتھ میجر؟‘‘ لوسی یک دم چکرا سی گئی۔ لیکن میں میجر کی یہ ادبی چوٹ سمجھ چکا تھا۔ میجر نے نام کی مناسبت سے لوسی پر یہ کافی گہری چوٹ کی تھی۔
’’جی ہاں! آپ کے ورڈس ورتھ۔‘‘ میجر آہستہ آہستہ بولا۔ اب کے لوسی سمجھ گئی اور شرما کر خاموش ہوگئی۔
’’مس لوسیؔ کی کہانی بھی عجیب ہے۔‘‘ میں نے میجر کو بتایا۔
نیل پر یہودی قبضہ کی لڑائی میں یہ چھ سال کی تھیں کہ ان کی والدہ جو نرس تھیں محاذ پر کام آگئیں۔ جنگ کی ہولناکی اور تباہی کو لوسیؔ نے چھوٹی ہی عمر میں محسوس کرلیا تھا۔ اور اس دن ایک ننھی سی جان نے یہ عہد کیا کہ وہ بھی بڑی ہوکر نرس بنے گی اور زندگی کے سسکتے لوگوں کو نئی زندگی بخشے گی اور موت کا مقابلہ کرے گی۔ چنانچہ نرسنگ کا کورس پاس کرنے کے بعد یہ آج کل رپورٹر بنی ہوئی ہیں۔
ایک سال کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے۔ لیکن عرصہ گھٹتا رہا۔ اجنبیت ختم ہوگئی۔ اور انسیت بڑھتی گئی۔ محبت اور دوستی کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیں۔ یہ عجیب بات تھی کہ ہم تینوں الگ الگ قوم اور زمین سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ہمارے تعلقات میں کوئی چیز مانع نہ تھی۔ ہم مصری، انگریزی اورہندوستانی نہ تھے۔ ہم صرف انسان تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھی اور غمخوار، ایک حوا اور آدم کے بیٹے، بیٹی۔ ایک زمین کے بسنے والے، ایک آسمان تلے کے باسی۔
میجر قر احصار آتا رہا۔ ہم اس کے ہاں جاتے رہے۔ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ہمارے اس حلقہ کی ایک چوتھی رکن بھی تھی۔ وہ وہ تھی ماہِ منیر۔
میں نے محسوس کیا کہ لوسی میجر کو چاہنے کی حد تک پسند کرنے لگی ہے۔ لیکن میجر—؟ شاید وہاں کوئی تاثر نہ تھا، فرات کی گہری نیلی لہروں میں جھانکتے ہوئے لوسی نے میجر کا سایہ دیکھا۔ اور عکس کو حقیقت سمجھ بیٹھی۔ اور جب ایک سرمئی سی شام کو میجر اپنی شادی کی خبر لایا کہ وہ ماہِ منیر کے ساتھ اگلے ہی ماہ شادی کے بندھن میں بندھ رہا ہے تو میں نے دیکھا کہ لوسی کے دل پر ایک چوٹ سی لگی اور اس کے چہرہ پر افسردگی کی دبیز تہہ پھیل گئی۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی سی آگئی اور جلتے دیپ ٹمٹمانے لگے۔
— لیکن یہ کیسی شادی ہوئی؟ جس میں دلہن کے ہاتھ کی مہندی بھی پوری طرح نہ اتری تھی۔ بہاریں ابھی پوری طرح گل بداماں بھی نہ ہوئی تھیں کہ خزاں کے جھکڑ چلنے لگے۔ چند فرعونوں کی درندگی جاگ اٹھی۔ جنگ کے مہیب بادل افق تا افق چھا گئے۔ شہر پر بمباری شروع ہوگئی۔ بموں، توپوں اور مشین گنوں کی حکمرانی ہوگئی۔ تباہی اور بربادی کا سکہ جم گیا۔
میجر قراحصار کو فوراً ڈیوٹی پر چلا جانا پڑا اور وہ وطن کے لیے جاں سپر ہوگیا۔ اور صرف وہ ہی نہیں بلکہ اس سرزمین کا ہر فرد میجر قر احصار بن گیا۔ اور ہر عورت لوسی اور ماہ منیر کی طرح نرس بن گئی۔ یہ صرف ایک میجر قر احصار کی جان کا مسئلہ نہ تھا۔ وطن کے ہزاروں اور لاکھوں قر احصاروں کا مسئلہ تھا۔ انسانیت کا مسئلہ تھا۔ صرف ماہ منیر کا سہاگ نہ بچانا تھا، بلکہ ہر ماہِ منیر کا سہاگ بچانا تھا۔ اور اس دھرتی کا سہاگ بچانا تھا۔ اور اب صرف ہفتہ بھر کی ہولناک اور مسلسل بمباری کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ وہی بغداد ہے جو اس وقت میری نظروں کے سامنے ہے؟ کیا یہ وہی فرات ہے جس کا پانی نیلا ہوا کرتا تھا؟ کیا یہ وہی کھجور کے درخت ہیں جن کے خوشوں میں سے زہر نہیں بلکہ امرت ٹپکتی تھی؟
— میرے تھکے تھکے قدم اٹھتے رہے کہ معاً موت کے الارم نے میرا تسلسل خیال توڑ دیا۔ بازار میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ پناہ گاہوں کی طرف دوڑنے لگے۔ اور خوفناک سکوت چھانے لگا، تیزی سے جہازوں کی ایک ٹولی آئی اور پھر خوفناک دھماکے ہوئے۔ دھوئیں کے بادل اٹھے اور فضا پر تاریکی چھاگئی۔ میں فوراً زمین پر الٹا لیٹ گیا۔ زمین تھرائی اور ایک فلک بوس عمارت پیوند زمین ہوگئی۔ نالہ و فغاں کا ایک شور فضا میں بلند ہوا اور ہزاروں ماؤں کی گودیں خالی ہوگئیں۔ ہزاروں ماہ منیروں کا سہاگ لٹ گیا۔ سیکڑوں لوسی کے میجر مرگئے اور ہزاروں کے لیے وطن کی مٹی آنسو بہانے لگی۔
میجر کی کوٹھی قریب ہی تھی۔ میں فوراً اس کی طرف بھاگا، اندھیرا پوری طرح چھا چکا تھا۔ کوٹھی میں سوائے دو چار ملازمین کے اور کوئی نہ تھا۔ ہر جگہ اندھیرا تھا۔ میں مایوسی میں ابھی کھڑا ہی تھا کہ ایک ریڈ کراس گاڑی آکر رکی اور پھر ایک جیپ۔
تیزی سے جیپ میں سے میجر قر احصار اترا اور ریڈ کراس کی اس گاڑی میں سے ماہِ منیر کو ہاتھوں پر ڈالے اندر لایا۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکا اور پھر کہا۔
’معصوم! میرے دوست، تم یہیں رہو، باہر خطرہ ہے۔ ماہ منیر مرچکی ہے یہ اس کا مردہ جسم ہے، میں ابھی آیا۔‘‘
میں حیران رہ گیا۔ کیا ماہِ منیر مرگئی؟ ماہِ منیر کا مردہ جسم میرے سامنے پڑا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ نرسنگ لباس میں ملبوس تھی۔ میجر نے جیپ اسٹارٹ کی۔
’’میجر تم اس بمباری میں کہاں جارہے ہو؟ ٹھیرو۔‘‘ میں چلایا۔
’’لوسی کے پاس، ابھی آیا۔ تم یہیں ٹھیرو۔‘‘ میجر نے چلا کر جواب دیا اور ساتھ ہی ایک اور زبردست دھماکہ ہوا۔
’’ٹھیرو میں بھی چلتا ہوں۔‘‘ لیکن میجر نے نہ سنی اور تیزی سے جیپ نکال کر لے گیا۔ میں نے فوراً نوکر کو ماہ منیر کے مردہ جسم کے پاس ٹھیرنے کو کہا اور ریڈ کراس کی گاڑی لے کر میجر کے پیچھے بھاگا۔
خوفناک بمباری کے دوران وہ ہمارے اپارٹمنٹ پہنچا وہاں لوسی کی خون آلودہ بے جان لاش کی جگہ پتھروں کا ایک ڈھیر تھا۔ لوسی کی بے جان لاش نرسنگ لباس میں خون آلودہ اپنی بے جان نگاہوں سے میجر قر احصار کا انتظار کررہی تھی۔
لاش کو دیکھتے ہیں میجر چلایا۔
’’ان کتوں اور درندوں سے کہہ دو کہ اگر وہ ایک صدی تک بھی ہم پر بمباری کرتے رہیں تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ انسان کو نہیں مارسکتے۔ جب تک ہمارے درمیان ایک بھی ماہ منیر اور ایک بھی قر احصار زندہ ہے اس وقت تک بغداد ہمارا رہے گا۔ دجلہ و فرات ہمارے ہوں گے اور ایک دن فتح ہم ہی کو نصیب ہوگی۔