مشہور ماہر نفسیات الفری ایڈلر اپنی کتاب ’’مقصد زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے۔ جو اپنے بھائی بندوں میں دل چسپی نہیں لیتا۔ ایسے لوگ بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا اصل سبب ہیں۔‘‘
اگر ہم دوست بنانا چاہتے ہیں تو دوسرے کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اس مقصد کے لیے وقت، ہمت، ایثار اور عقل کی ضرورت ہے۔ ہمیں زندہ دلی اور جوش و خروش سے ان کی مزاج پرسی کرنی چاہیے۔ چنانچہ لوگوں کے دلوں میں گھرکرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ:
دوسروں کی ذات میں دلچسپی لیجیے!
الفاظ کے مقابلے میں عمل کہیں زیادہ اثر رکھتا ہے، لیکن مسکراہٹ کہتی ہے: ’’میں آپ کو پسند کرتی ہوں، آپ میرے لیے باعثِ مسرت ہیں، مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جانور فوراً ہماری توجہ مبذول کرالیتے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر اتنے خوش ہوتے ہیں کہ پھولے نہیں سماتے۔ قدرتاً ہم بھی ان کو دیکھ کرخوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ اوپری دل سے یوں ہی دانت نکالتے ہیں تو یاد رکھئے کہ اس سے کوئی دھوکا نہیں کھائے گا۔ یہ ایک مصنوعی حرکت ہے اور اسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اصلی مسکراہٹ وہ ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے، دلوں کو گرماتی، اور ہر کسی سے اپنا خراج وصول کرتی ہے۔
آپ اگر مسکرا نہیں سکتے تو اپنے آپ کو مسکرانے پر مجبور کیجیے۔ جب آپ اکیلے ہوں تو اپنے آپ کو گنگنانے یا گانے پر مجبور کیجیے۔ محسوس کیجیے کہ آپ پہلے سے خوش ہیں۔ اس طرح آپ واقعی خوش و خرم ہوجائیں گے۔
علم نفسیات کے بہت بڑے استاد ولیمؔ جیمز کہتے ہیں:
’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا فعل ہمارے احساس کی پیروی کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فعل اور احساس ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر ہم اپنے فعل میں اصلاح کرلیں، کیوں کہ یہ قوتِ ارادی کے ماتحت ہے، تو ہم بالواسطہ اپنے احساس کو بدل سکتے ہیں۔‘‘
دنیا میں ہر شخص مسرت کا متلاشی ہے۔ مسرت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے، اپنے خیالات پر قابو پانا۔ خوشی خارجی حالات پر ہرگز مبنی نہیں، یہ تو آپ کے احساسات کا معاملہ ہے۔ آپ کی خوشی یا ناخوشی کا انحصار اس بات پر نہیں کہ آپ کے پاس کیا کچھ ہے، آپ کون ہیں، آپ کہاں ہیں، یا آپ کیا کررہے ہیں، بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟
شیکسپئر کا قول ہے: ’’کوئی چیز بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی، صرف ہماری سوچ اسے اچھا یا برا بنادیتی ہے۔‘‘ فرینک ارونؔ فلچر نے مسکراہٹ کی قدروقیمت کے بارے میں کہا تھا:
٭ اس پر کچھ خرچ نہیں آتا۔
٭ یہ حاصل کرنے والوں کو مالا مال کرتی ہے اور دینے والوں سے کچھ نہیں مانگتی۔
٭ یہ ایک جھلک ہوتی ہے، لیکن اس کی یاد بعض اوقات ابدی ہوتی ہے۔
٭ اس کے بغیر کوئی شخص امیر نہیں، جس کے پاس یہ نہیں، اس جیسا کوئی غریب نہیں۔
٭ یہ گھر میں مسرت و شادمانی لاتی ہے۔ کاروبار میں اعتماد پیدا کرتی ہے اور یہ دوستوں کی پہچان ہے۔
٭ مسکراہٹ کی ضرورت اسے سب سے زیادہ ہوتی ہے جس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔
پس اگر آپ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہیں تو دوسرا اصول یہ ہے کہ:
مسکرائیے!
یہ حقیقت ہے کہ ہر آدمی اپنے نام سے زیادہ انس رکھتا ہے۔ کسی آدمی کا نام یاد رکھئے اور احترام سے بلائیے۔ یہی پُرخلوص اور موثر خوش آمدید کا طریقہ ہے۔ اگر آپ اس کا نام بھول جائیں یا غلط لکھیں تو سمجھئے کہ آپ نے اپنے آپ کو بہت بڑانقصان پہنچایا۔
لوگ اپنے ناموں کے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ وہ ان کو بہر قیمت دوام بخشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں دیدہ اور بوڑھا پی ٹی برنومؔ بھی بہت مایوس تھی کہ اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے کوئی فرزند نہ تھا۔ اس نے اپنے نواسے سے ایچؔ شیلے کو ایک لاکھ روپے کا نذرانہ محض اس لیے پیش کیا کہ وہ اپنے آپ کو برنوم شیلے کہلوائے۔
ہمارا کسی اجنبی سے تعارف ہو تو ہم اس سے بات چیت تو کرلیتے ہیں، لیکن اس سے رخصت ہوتے وقت اس کا نام تک فراموش کرجاتے ہیں۔ ایک سیاست داں سب سے پہلا سبق یہ سیکھتا ہے کہ:
’’کسی رائے دینے والے کا نام یاد رکھنا سیاست ہے اور اس کو بھول جانا بہت بڑی حماقت۔‘‘ نام یاد رکھنے کی قابلیت کی جتنی سیاست میں ضرورت ہے اتنی ہی تجارت اور سماجی تعلقات میں ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں گھر کریں تو تیسرا اصول یہ ہے کہ:
کسی آدمی کا نام اس کے لیے سب سے میٹھی اور اہم آواز ہے!
تجارت میں کامیاب گفتگو کا راز کیا ہے؟ چارلس ڈبلیو ایلیٹ کے خیال میں: ’’کامیاب کاروباری گفتگو کا کوئی خاص راز نہیں، جو آدمی آپ سے بات کررہا ہے، اس کی بات پر پوری توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ اس سے بڑی خوشامد کوئی نہیں۔‘‘
اگر سننے والا بات صبر و سکون اور ہمدردی سے سنے تو بڑے سے بڑا ٹھوکر باز، کڑے سے کڑا نکتہ چیں بھی نرم ہوجاتا ہے۔
مارکوسن مشاہیر عالم سے انٹرویو کرنے کا بڑا ماہر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگ اس لیے دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے کہ وہ ان کی باتیں غور سے نہیں سنتے۔ وہ اس خیال میں ڈوبے رہتے ہیں کہ وہ اپنی بات ختم کرے گا تو ہم کیا کہیں گے۔ وہ اپنے کان کھلے نہیں رکھتے، بلکہ اپنی زبان تیز رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ لوگ اچھا بولنے والوں پر اچھا سننے والوں کی ترجیح دیتے ہیں۔ دوسروں کی بات کو توجہ سے سننے کی اہلیت دوسری صفات کے مقابلے میں کم یاب ہے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ کس طرح آپ سے دور بھاگیں اور آپ کی پیٹھ پیچھے قہقہے لگائیں اور سخت نفرت کریں تو نسخہ یہ ہے کہ کسی کی بات زیادہ دیر تک نہ سنئے، اپنی ہی سناتے جائیے۔ جب کوئی دوسرا شخص بول رہا ہو اور آپ کے ذہن میں کوئی نیا خیال ابھرے تو اس کی بات ختم ہونے کا انتظار نہ کیجیے۔ وہ آپ جیسا عقل مند نہیں۔ اس کی فضول بکواس کو سننے میں آپ اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ فوراً بیچ میں برس پڑیے اور اسے اپنی بات پوری نہ کرنے دیجیے۔
ایسے لوگ کیا کرتے ہیں؟ محض اکتاہٹ پھیلاتے ہیں۔ اپنی خودی کے نشے میں مست اور برتری کے احساس میں بری طرح جکڑے ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنے متعلق گپ ہانکتا ہے اور صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے، وہ تعلیم و تربیت سے قطعاً بے بہرہ ہے۔ اس نے خواہ کتنا ہی علم حاصل کیا ہو، اسے ان پڑھ ہی سمجھنا چاہیے۔
اگر آپ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہیں تو چوتھا اصول یہ ہے کہ:
دوسروں کی باتیں توجہ سے سنئے اور اپنی ذات کو کم از کم زیر بحث لائیے!
تمام رہنماؤں کی طرح روز ولٹؔ بھی جانتے تھے کہ کسی آدمی کے دل میں گھر کرنے کا سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق اس سے گفتگو کی جائے، جنہیں وہ بہت عزیز رکھتا ہے۔ چنانچہ جو شخص بھی صدر روزولٹؔ سے ملنے جاتا تھا، وہ ان کی معلومات کی کثرت اور وسعت پر حیران رہ جاتا تھا۔ براڈفورڈ لکھتا ہے:
’’ان سے ملنے والا خواہ گوالا ہوتا، خواہ شہ سوار، خواہ سیاست داں یا کوئی سفیر، روزولٹ جانتے تھے کہ اس سے کیا باتیں کرنی چاہئیں۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ جب کبھی روز ولٹ کو کسی ملاقاتی کے آنے کی توقع ہوتی، اس روز وہ رات کو دیر تک اس موضوع کا مطالعہ میں مصروف رہتے، جس میں ان کا ملاقاتی خاص دلچسپی رکھتا ہو۔‘‘
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پسند کریں تو پانچواں اصول یہ ہے کہ:
دوسرے شخص کی دلچسپی کی بات کیجیے!
اگر ہم اس قدر خود غرض ہیں کہ کسی آدمی کو ذرا بھی خوش نہیں کرسکتے، دوسرے سے معاوضے کی تمنا رکھے بغیر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے، اگر ہمارے اپنے دل اتنے چھوٹے اور تنگ ہیں تو ہمیں ہمیشہ ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔
انسانی تعلقات کا ایک قانون سب سے اہم ہے۔ اگر ہم اس قانون کی پابندی کریں تو ہمیں کبھی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اس قانون کی پابندی ہمارے لیے بے شمار دوستیوں اور مسرتوں کا سرچشمہ ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جوں ہی ہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، فوراً مصیبتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ وہ قانون یہ ہے:
’’دوسرے شخص میں ہمیشہ اہمیت کا احساس پیدا کیجیے۔‘‘ پروفیسر جان ڈیوی کا کہنا ہے: ’’انسانی فطرت کی سب سے بنیادی خواہش اپنی ذات کو اہمیت دینا ہے۔‘‘ پروفیسر ولیم جیمز فرماتے ہیں: ’’انسانی فطرت کا سب سے گہرا اصول تحسین و تعریف کی خواہش ہے۔‘‘
آپ اپنے ملنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنی خوبیوں کا اعتراف چاہتے ہیں، آپ کو یہ احساس چاہیے کہ آپ اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت اہم شخصیت ہیں، آپ سستی اور جھوٹی خوشامد سننا نہیں چاہتے، لیکن آپ جائز تحسین و ستائش کے خواہاں ہیں۔ آپ اپنے دوستوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جی بھر کر داد دیں اور دل کھول کر تعریف کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات پسند ہے۔ اس لیے ہمیں اس سنہری اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دوسروں کو وہی کچھ دیں، جس کی توقع ہم ان سے رکھتے ہیں، لیکن کب؟ کیسے؟ کہاں؟ سنئے! ہر وقت اور ہرجگہ۔
اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فقرے، ’’تکلیف معاف، براہِ کرم، آپ کو تکلیف تو ہوگی، آپ کا بہت بہت شکریہ، ‘‘روز مرہ کی زندگی کی اکتا دینے والی مشین کے کل پرزوں کے لیے تیل کا کام دیتے ہیں اور یہ فقرے اچھی تعلیم و تربیت کے امتیازی نشان بھی ہیں۔
ہر قوم اپنے آپ کو دوسری اقوام سے برتر اور اعلیٰ سمجھتی ہے۔ یہی احساس، حب الوطنی اور اور لڑائی جھگڑوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر وہ آدمی جس سے آپ ملتے ہیں، اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح آپ سے بہتر خیال کرتا ہے۔ اس کے دل میں گھر کرنے کا یقینی طریقہ یہی ہے کہ اسے بڑی احتیاط سے یہ محسوس کرایا جائے کہ آپ اس کو بڑی اہم شخصیت مانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں۔
ایمرسن کا قول یاد رکھئے۔ ’’جس آدمی سے میں ملتا ہوں، وہ کسی نہ کسی طرح مجھ سے افضل ہوتا ہے۔ اس طرح میں اس کی شخصیت سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہوں۔‘‘ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی، وہ اپنی نا اہلی کے احساس کو ظاہری شور وغوغا اور لاف زنی کے ذریعہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ان کی یہ حرکت نہایت بے ہودہ اور ناقابلِ برداشت ہے۔ شیکسپئر نے کہا ہے: ’’آدمی — مغرور آدمی، ادنیٰ سے اختیارات کا مالک ہوکر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے۔‘‘
ڈورتھیؔ ڈکس کا کہنا ہے ’’جب تک آپ کو خوشنودی حاصل کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا، شادی مت کیجیے۔ شادی سے پہلے عورت کی تعریف توایک عام رجحان ہے، لیکن شادی کے بعد اس کی تعریف نہ صرف ایک ضرورت بلکہ ذاتی تحفظ بھی ہے۔ شادی میں سادگی اور صاف دلی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو یہ سیاسی اکھاڑا ہے۔‘‘
اگر آپ گھر کا نظام بگاڑ نے کے خواہش مند نہیں تو اپنی بیوی کے گھر بار سنبھالنے کے طریقے کو مت ٹھکرائیے۔ اس کا اپنی والدہ کے انتظام سے مقابلہ نہ کیجیے۔ بلکہ اس کے سلیقے اور سگھڑ پنے کی ہمیشہ تعریف کیجیے۔ اپنے آپ کو کھلے طور پر مبارک باد دیجیے کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ کو سلیقہ شعار بیوی ملی ہے، خواہ سالن بے لذت اور روٹی جل گئی ہو، آپ شکایت ہرگز نہ کیجیے۔ صرف اتنا کہیے کہ آج کا کھانا روزانہ کے معیار کو نہیں چھو سکا۔ آپ دیکھیں گے کہ بیوی ناراض ہوئے بغیر اگلے روز عمدہ سالن تیار کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔
ڈورتھی ڈکس کا کہنا ہے: ’’بیوی کا دل جیتنے کے لیے صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیشہ اسی کی ذات کے بارے میں گفتگو کی جائے۔‘‘ اور یہی طریقہ مردوں کے ساتھ کام یاب رہتا ہے۔ ڈسرائیل، سلطنتِ برطانیہ کے مشہور و معروف وزیر اعظم کا قول ہے: کسی شخص سے اس کی ذات کے متعلق بات چیت کیجیے، وہ گھنٹوں آپ کی بات سنتا جائے گا۔‘‘
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پسند کریں تو چھٹا اصول یہ ہے :
دوسرے شخص کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیے اور تہِ دل سے اس کی تعریف و توصیف کیجیے۔